اسلام تمام موجودات عالم کا دین ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
ایسے لوگوںکو اصطلاح میں ” مرتد“ کہتے ہیں ۔ مزاحم تعصبات

”وَلَہُ اٴَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ .......“
قرآن نے ایک مرتبہ پھر اسلام کو ایک زیادہ وسیع معنی میں پیش کیا ہے ۔ تمام آسمانوں اور زمین والے یا آسمان و زمین میں موجود تمام موجود تمام موجودات مسلمان ہیں اور وہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ، زیادہ سے زیادہ طوعاً و کرھاً( اختیار یا جبر سے ) کی تعبیر کا مطلب ہے کہ پروردگار کے فرمان کے سامنے سر جھکا نا کبھی ” اختیاری “ اور ” تشریعی قوانین “ کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی ”اجباری “اور تکوینی قوانین “ کے ذریعے ۔ اس کی وضاحت یوں ہے کہ عالم ہستی میں خدا کے احکام دو طرح کے ہیں ۔ اس کے فرامین کا ایک سلسلہ طبیعی قوانین اور مافوق طبیعی کا ہے جو اس جہان کے مختلف موجودات پر حکومت کرتے ہیں اور سب مجبور ہیں کہ ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں اور وہ لمحہ بھرکے لئے بھی ان قوانین سے رو گردانی نہیں کرسکتے اور اگر اخلاد ورزی کریں تو ہوسکتا ہے کہ محو اور نابو د ہو جائیں ۔یہ فرمانِ خد اخدا کے سامنے ” اسلام و تسلیم “ کی ایک قسم ہے ۔ سورج کی شعائیں دیاوٴں پر پڑتی ہیں ، پانی بخارات بن کر اٹھتا ہے ، بادل کے ٹکڑے ایکدوسرے سے مل جاتے ہیں ، بارش کے قطرے آسمان سے گرتے ہیں ، درذخت ان سے نشو و نما پاتے ہیں ان سے پھول کھلتے ہیں ۔ یہ سب کے سب ” مسلمان “ہیں کیونکہ ان میں سے لہر ایک آفرینش وفطرت کے معین کردہ قانون کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ۔
فرمان خدا کی دوسری قسم کا نام حکم تشریعی ہے یعنی وہ قوانین جو آسمانی شریعتوں اور انبیاء (علیه السلام) کی تعلیمات میں موجود ہیں ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے یعنی ” طو عاً“ مثلاً مومنین اور دوسرا مجبوری کی حالت میں یعنی ” کرھا ً“ مثلاً کافرین تکوینی قوانین کے لحاظ سے ۔ اس بناء پر اگر چہ کفار کچھ احکام خدا کے سامنے اسلام قبول کرنے سے رو گردانی کرتے ہیں لیکن بعض احکام قبول کئے بغیر انہیں کوئی چارہ نہیں ، اس لئے خدا کے تمام قوانین دین ِ حق کے سامنے وہ بالکل سر تسلیم خم کیوں نہیں کرتے ۔ ۱
اس آیت کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی ہے جسے بہت سے مفسرین نے ذکر کیا ہے اور وہ مندر جہ بالاتفسیر کی نفی نہیں کرتا ۔ وہ یہ ہے کہ صاحبِ ایمان لوگ اطمنان کے عالم میں رضاو رغبت اور اختیار کے ساتھ خدا کی طرف جاتے ہیں اور بے ایمان لوگ صرف مصیبت ، ابتلا اور سخت مشکلات کے وقت اس کی طرف بھاگتے ہیں اور اسے پکار تے ہیں جب کہ عام حالات میں اس کے لئے شرکاء کے قائل ہوتے ہیں لیکن ان سخت اور حساس لمحات میں اس کے علاوہ کسی کو پہچانتے ہیں نہ پکارتے ہیں ۔
” وَإِلَیْہِ یُرْجَعُونَ“
آیت کے گذشتہ حصے میں مبداء کی طرف متوجہ ہونے کے لئے گفتگو تھی ، جو ایک فطری چیز ہے اور اب اس جملے میں معاد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو اپنے مقام پر فطری ہے کیونکہ تمام اقوام و ملل موت کو تسلیم کرتی ہیں ۔اصل توحید غرض ِ خلقت اور حکمت ِ پروردگار کی طرف نظر رکھیں تو موت کا مطلب نابودی اور فنا ہر گز نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا مطلب ایک قسم کا تکامل اور ارتقاء ہے اور یہ ایک زیادہ وسیع ماحول میں قدم رکھنے کا دوسرا نام ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کی طرفباز گشت ہے ۔
” قُلْ آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اٴُنْزِلَ عَلَیْنَا وَمَا اٴُنْزِلَ“
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے پیغمبر اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جو کچھ پیغمبر اسلام پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لانے کے علاوہ ان تمام آیات اور تعلیمات پر بھی عقیدہ رکھو جو گذشتہ انبیاء پر نازل ہوئیں اور کہو کہ ہم ان میں حقانیت اور خدا سے ارتباط کے لحاظ سے کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہیں ۔ ہم سب کو حقیقی طور پر ( خدا کا نمائندہ ) سمجھتے ہیں ، سب خدا کے بھیجے ہوئے رہبر ہیں ، سب مخلوق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اور ہم حکم خدا کے سامنے سرہر لحاظ سے تسلیم ہیں ۔لہٰذا اس طرح سے ہم تفرقہ اندازی سے اپنا ہاتھ کھینچے ہوئے ہیں ۔
سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۶ زیر نظر آیت سے پوری مشابہت رکھتی ہے ، اس میں کافی وضاحت کی جاچکی ہے ۔ 2
” وَمَنْ یبتغ غیر الاسلام ِ دیناًفَلنْ یقبلَ منہُ “
لفظ ” یبتغ“ ” ابتغا ٓء “ کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے کوشش اور جستجو کرنا ، یہ شایستہ اور ناشایستہ ہر موقع کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں یہ لفظ بحث کو نتیجہ پر پہنچا نے کے لئے استعمال ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ حقیقی دین اور آئین ” اسلام “ہی ہے یعنی حکم خدا کے سامنے”سرتسلیم “کرنا اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نسل ، زبان ، قومی تعصبات اور ایسی تمام چیزوں سے بالاتر ہے اور جو لوگ ایسی واقعیت کے علاوہ کسی چیز کو دین کے طور پر مالیں وہ ہر گز قبول نہیں کی جائے گی بلکہ اس کے بدلے انہیں سزا بھی دی جائے گی :”
” وَہُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِینَ “.......یعنی وہ زیان کاروں میں سے ہو گا ، کیونکہ اس نے اپنے وجود کا سرمایہ غیر مناسب خرافات و تقلید ، جاہلانہ تعصبات اور نسل پرستی کے عوض بیچ دیا ہے ، مسلم ہے کہ ایسے معاملے میں وہ نقصان و زیان ہی میں مبتلا ہوگا اور قیامت میں انسانی وجود کے سرمائے کے نقصان کا نتیجہ محروموں اور سزا و عذاب کی صورت میں ظا ہر ہوگا ۔
انشاء اللہ سورہٴ حُجرات کی آیہت ۱۴ کے ذیل میں ” اسلام “ اور ” ایمان “ کے درمیان فرق پر بحث کی جائے گی ۔

 ۸۶۔ کَیْفَ یَہْدِی اللهُ قَوْمًا کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ وَشَہِدُوا اٴَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَائَهم الْبَیِّنَاتُ وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ۔
۸۷۔ اٴُوْلَئِکَ جَزَاؤُهم اٴَنَّ عَلَیْہِمْ لَعْنَةَ اللهِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالنَّاسِ اٴَجْمَعِین۔
۸۸۔خَالِدِینَ فِیہَا لاَیُخَفَّفُ عَنْهم الْعَذَابُ وَلهم یُنْظَرُونَ۔
۸۹۔ إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَاٴَصْلَحُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ۔
ترجمہ
۸۶۔ خدا ان لوگوں کو کیونکہ ہدایت کرے جو ایمان لانے ، رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور ان کے واضح نشانیاں آجانے کے بعد کفر کریں اور خدا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا ۔
۸۷۔ان کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ ، ملائکہ اور سب لوگوںکی لعنت ہے ۔
۸۸۔ وہ ہمیشہ اس لعنت ( پھٹکار ) میں ( مبتلا ) رہیں گے ان کے عذاب میں تخفیف نہیں دی جائے گی ۔
۸۹۔ مگر وہ لوگ جو بعد ازاں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں ( اور گذشتہ گناہوں کی تلافی کریں تاکہ توبہ قبول ہو) کیونکہ خدا بخشنے والا اور رحیم ہے ۔

 

 

شان نزول :

(مدینہ کے مسلمانوں میں سے ) ایک انصاری حارث بن سوید تھا ۔ اس کے ہاتھوں ہذر بن زیادنامی ایک بے گناہ قتل ہوگیا ۔ وہ سزا کے خوف سے مرتد ہوگیا اور مکہ کی طرف بھاگ گیا ، مکہ میں پہنچا تو اپنے کام سے سخت پشمان ہوا اور سوچنے لگا اب کیا کرو ں ۔ اس نے سوچ سوچ کر فیصلہ کیا کہ ایک کو مدینہ میں اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجو تاکہ وہ پیغمبر اکرم سے سوال کریں کہ کیا اس کے لئے لوٹنے کا کوئی راستہ ہے یا نہیں ۔
اس مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں جن میں چند خاص شرائط کے ساتھ اس کی توبہ قبول ہونے کا تذکرہ ہے ۔
تفسیر درّ منثور اور بعض دوسری تفاسیر میں زیر نظر آیات کی کچھ اور شان ِ نزول نقل کی گئی ہیں جو مذکورہ شان نزول سے زیادہ فرق نہیں رکھیں ۔
” کَیْفَ یَہْدِی اللهُ قَوْمًا کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ وَشَہِدُوا اٴَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَائَهم الْبَیِّنَات۔“
یہ آیات ان لوگوں کے بارے میں ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور پھر اس سے پھر اس سے پھر گئے ہیں ۔

 


۱.ضمناً توجہ رہے کہ زیر نظر آیت میں ” طو عاًو کر ھاً“ کے الفاظ ذوی العقول کے بارے میں ہیں اور یہاں ان کا مفہوم سورہ فصلت آیہ ۱۱ میں آنے والے انہی الفاظ سے مختلف ہے وہاں ان کا تعلق صرف غیر ذوی العقول سے ہے ۔ اس بارے میں متعلقہ آیت کے ذیل میں گفتگو کی جائے گی ۔
2.تفسیر نمومہ کی جلد اول کی طرف رجوع کیجئے ۔
 
ایسے لوگوںکو اصطلاح میں ” مرتد“ کہتے ہیں ۔ مزاحم تعصبات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma