۹۔ قارئین کو ہماری کچھ نصیحتیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
مفاتیح نوین
۸۔ دعا کی درخواست کا تبدیل ہوجانا

۹۔ قارئین کو ہماری کچھ نصیحتیں

یہاں پر ہم قارئین کو مندرجہ ذیل نصیحتیں کرنا چاہتے ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے:
۱۔ اس کتاب میں جو کچھ بھی بیان ہوا ہے وہ دوسرے علماء کی معتبر کتابوں سے نقل کیا گیا ہے جیسے شیخ طوسی کی”مصباح المتھجد“، ابن قولویہ کی ”کامل الزیارات“، مرحوم سید بن طاووس اور مرحوم کفعمی کی کتابیں ، متقدمین کی اپنی کتابوں میں یہ کوشش ہوتی تھی کہ کوئی بھی مطلب بغیر کسی حوالہ کے بیان نہ کریں اور اگر کوئی دعایا زیارت خود ان کے ربانی اور ملکوتی نفس کا انشاء ہوتی تھی تو اس کی تصریح فرماتے تھے ،دعا لکھتے وقت ان شخصیتوں کے پاس بہت زیادہ تعداد میں کتابیںموجود ہوتی تھیں، جن سے انہوں نے اقتباس کرکے اپنے آثار کو ہمارے لئے یاد گار ی کے طور پر چھوڑا ہے :
مرحوم سید بن طاووس جس وقت کتاب ”اقبال“ کو لکھ رہے تھے تو ایک ہزار پانچ سو جلد کتابیں ان کے پاس موجود تھیں(۱)۔اور کشف المحجة میں خود ان کی تصریح کے مطابق، ان ایک ہزار پانچ سو میں ۶۰ کتابیں دعا کی تھیں(۲)۔
محقق ، مفکراور عظیم دانشور مرحوم آقا بزرگ تہرانی نے بھی اپنی گرانبہا کتاب”الذریعہ“ میں سید بن طاووس کے متعلق لکھا ہے : جس وقت و ہ کتاب ”مہج الدعوات“ کو لکھ رہے تھے تو ان کے پاس شیعہ متقدمین ( شیخ طوسی سے پہلے علماء)کی ستر سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔بلکہ سید بن طاووس کی کتابوں میں جو عبارتیں دعاؤں وغیرہ کے اسناد و مدارک کے سلسلے سے بیانہوئی ہیںان کی طرف توجہ کرنے سے انسان مطمئن ہو جاتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے دعاؤں اور زیارت سے متعلق فرمایا ہے وہ ان کے مورد اطمینان تھا، خصوصا جس وقت اس بات کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس بزرگ شخصیت نے جب بھی کسی دعا کو اپنے لطیف ذہن اور پاک روح سے انشاء کردیا ہے تو اس کے بارے میں وضاحت کردی ہے :”چونکہ مجھے اس موقع کیلئے روایات میں کوئی دعا نہیں ملی لہذا میں نے اس مقام کے مناسب دعا کو انشاء کیا ہے“۔ اس بیان سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ دوسری ان تمام جگہوں پر جہاں آپ نے کوئی وضاحت نہیں فرمائی ہے وہاں پر روایت کی کسی خاص سند پر اعتماد کیا ہے(۳)۔
اس بیان اوراس پر توجہ کرتے ہوئے کہ جو کچھ سیدبن طاووس نے دعا کے سلسلے میں تالیف کیا ہے(۴) وہ در حقیقت ان کے نانا مرحوم شیخ طوسی(رحمة اللہ علیہ)کی کتاب ”مصباح المتہجد“ کیلئے تتمہ ہے(۵)۔ اگر کوئی شخص ان کے اس مجموعہ کی گیارہ جلدوں کو فراہم کرلے تو گویا اس نے دعاؤں، اعمال اور زیارات کا پورا مجموعہ حاصل کرلیا ہے(اور ہم نے ان تمام کتابوں سے اس کتاب میں استفادہ کیا ہے)۔
کتاب”مصباح کفعمی“ کے متعلق کہتے ہیں : انہوں نے کتاب ”جنة الامان الواقیہ“ (معروف بہ مصباح الکفعمی)کے مقدمہ میں وضاحت کی ہے کہ میں نے اس کتاب کو معتبر اور مورد اعتماد کتابوں سے تالیف کیا ہے(6
مرحوم علامہ مجلسی نے بھی ”زاد المعاد“ کے مقدمہ میں فرمایا ہے : میں نے اس کتاب میںشب و روز اور سال بھر کے منتخب اعمال اور فضائل کو بیان کیا ہے، اصولا ً ائمہ علیہم السلام کے اصحاب، ان سے منقول حدیثوں، دعاؤں اور عبارتوں کے صحیح طریقے سے نقل و ضبط کے سلسلے میں بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔
امام کاظم(علیہ السلام)کے صحابی ”عبداللہ بن زید“ کہتے ہیں : آپ کے خاندان کے بہت سے خاص چاہنے والے آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تھے اور جس وقت امام کوئی کلمہ زبان مبارک سے ارشاد فرماتے تھے یا کسی حادثہ کے بارے میں فتوا دیتے تھے تو یہ لوگ بڑی ہوشیاری سے اس کو لکھ لیتے تھے(یعنی تمام جملوں، آداب اور نکات کو کامل طور سے یادداشت کرلیتے تھے)(7
قارئین محترم ! جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ہے اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے جان لینا چاہئے کہ اس کتاب میں جو حوالے اور مدارک بیان ہوئے ہیں ان میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا لہذا روشن قلب اور پاک ضمیر کے ساتھ اس کتاب کی دعاؤں، زیارتوں اور اعمال پر عمل کیا جاسکتا ہے۔خاص طور سے اس وقت جب اس میں اور دو نکتوں کی طرف توجہ رکھی جائے:
اول یہ کہ : جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے کہ ان میں سے اکثر دعاؤں اور زیاراتوںکے عالی مضامین اور بلند معانی اس بات کا بہترین ثبوت ہیں کہ یہ ائمہ معصومین(علیہم السلام)سے صادر ہوئی ہیں، کیونکہ ایسے الفاظ اور مفاہیم ، معصومین کی بلند روح کے علاوہ کسی اور سے صادر نہیں ہوسکتے۔
دوسرے یہ کہ: تمام دعاؤں اور مستحب اعمال میں ”قصد رجا“(یعنی اس امید سے کہ پروردگار کے یہاں اس کی مطلوبیت ہے) کی نیت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)سے منقول احادیث میں بیان ہوا ہے کہ جب بھی مجھ سے کسی عمل کے ثواب کے بارے میں کچھ نقل ہو تو جو کوئی اس عمل کے ثواب کو حاصل کرنے کی امید سے یامیرے احترام کی وجہ سے اس عمل کو بجالائے تو وہ اجر و ثواب جو نقل ہوا ہے اس کو ملے گا اور اس کی کوشش رائگاں نہیں جائے گی(8
۲۔ قارئین محترم کو ہماری دوسری نصیحت (مخصوصا با ایمان اور پاک دل جوانوںکو)یہ ہے کہ جس قدر دعاؤں کی (کمیت)مقدار کواہمیت دیتے ہو اس سے زیادہ دعاؤں کی ”کیفیت“ اور اس کی معنویت کی طرف توجہ دینی چاہئے اور جان لیں کہ ایک دعائے کمیل یا دعائے ندبہ یا ابو حمزہ ثمالی یا امام حسین(علیہ السلام)کی دعائے عرفہ کا حضور قلب کے ساتھ پڑھنا انسان کے اندر ایسا انقلاب ایجاد کرتا ہے جو اس کی زندکی کے صفحہ کو پلٹ دیتا ہے اور اس کی روح کو آسمان کی بلندی پر پہنچا کر فرشتوں کے ہم پلہ کردیتا ہے یہیں سے روشن ہوجاتا ہے کہ بعض دعاؤں کے ثواب کو بیان کرنے کا فلسفہ کیا ہے، اور کس کے لئے ہے؟۔
عزیزوں ! دعا، نماز اور زیارتوں کے پڑھتے وقت، دعا کے آداب اور حضور قلب کے سلسلے میں بیان شدہ مطالب کو دہرائے اور دعا کے مضامین میں غور و فکر کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارے دلوں کی وہ کیفیت ہو ، گویا یہ لمحات ہماری زندگی کے لذت بخش اور شیرین ترین لمحات میں سے ہیں اور وہ ہم کو روز بروز خدا سے نزدیک کر رہے ہیں۔
اور دعا کے مضامین میں تدبر کرنے اور اس بات کی طرف تو جہ کرنے سے کہ ہم کس کے حضور میں کھڑے ہیں اور قصور و تقصیر اور اپنے نفس کی کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے اور دلوں میں خدا کی عظمت و کبرائی کو بساتے ہوئے ، کوشش کرنا چاہئے کہ ہماری روح عالم ملکوت سے رابطہ برقرار کرے اور اپنے محبوب سے راز و نیاز کرے۔
اگر دعاؤں میں سے کسی ایسی دعاکو پڑھیں جس کا مخاطب خدا ہو تو اس کے اس لطف و محبت کی طرف اشارہ کریں جو اس نے ہم کو عطا فرمایا ہے، اور ان خطاؤں اور لغزشوں کا بھی اعتراف کریں اور زبان پر یکی بعد دیگرے جاری کریں جن کو اس نے چھپایا اور ان سے صرف نظر فرمائی ہے تاکہ اس محبت کو لمس کرسکیں جو محبت وہ ہمارے سنورنے اور ہدایت یافتہ ہونے کے متعلق ہم سے کرتا ہے اور اسی طرح اس کے قرب اور اس کا بھی احساس کریں۔
او راگر ائمہ طاہرین(صلوات اللہ علیہم اجمعین)کی زیارات میں سے کسی کی زیارت پڑھ رہے ہیں تو بھی ان کے قرب و لطف اور رحمت و کرامت کو نظر میں رکھیں اور اس کی طرف بھی توجہ رہے کہ یہ حضرات خدا وند عالم کی بارگاہ میں ہمارے شفیع ہیں ، ہمارے کلام کو سنتے ہیں ، ہمارے سلام کا جواب دیتے ہیںاور ہم جس جگہ پر کھڑے ہوئے ہیں یہ اس کو دیکھ رہے ہیں(و اعلم ان رسولک و خلفائک احیاء عند ک یرزقون، یرون مکانی، و یسمعون کلامی، و یردون سلامی(9))تاکہ ان کے ساتھ گفتگو کرنے کی لذت و شیرینی او ران کے ساتھ مناجات کا احساس کریں(و فتحت باب فھمی بلذیذ مناجاتھم)(10
اگر اس طرح دعا پڑھیں اور اس طرح زیارت کریں تو پھر ہم مطمئن ہوسکتے ہیں کہ ہم خدا اور معصومین کے حضور میں شرفیاب ہوکر اپنی روح و جان کو صیقل کرچکے ہیں اور نفسوں پر گناہوں کی وجہ سے لگے ہوئے زنگ کو صاف اور اندھیرے کو دور کردیا ہے اور یہیں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دعا اور زیارت نے اپنے واقعی مقام کو حاصل کرلیا ہے اور ان کا اصلی ہدف محقق ہوچکا ہے۔
آخر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کا شکریہ ادا کروں اور ان حضرات کی زیادہ سے زیادہ توفیق کے لئے دعا کروں جنہوں نے اس مجموعہ کے آمادہ کرنے میں مآخذ کو دقیق تطبیق دینے، متن کو ترجمہ کے ساتھ ہماہنگ کرنے اور اس کی تصحیح اور طباعت و نشر وغیرہ میں مدد کی ہے ۔منجملہ افاضل محترم محمد رضا حامدی، مسعود مکارم اور سید عبد المہدی توکل(دامت تاییداتھم)۔
ایسے ہی تمام لوگوں سے ملتمس ہوں کہ مجھے اور جس نے بھی اس مجموعہ کو آمادہ کرنے میں زحمت کی ہے دعائے خیر میں فراموش نہ کریں۔
اس نکتہ کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ اس مجموعہ کو آمادہ کرنے میں کئی سال زحمتوں کا سامنا کرنا پڑاہے، پھر بھی اگر صاحب نظر حضرات اس کی تکمیل میں کوئی مفید مشورہ دیں تو ہم اس کا استقبال کریں گے۔

 

قم۔ ناصر مکارم شیرازی
فروردین ۱۳۸۴، صفر ۱۳۲۶۔

 


۱۔ اقبال، ج ۱ ، مقدمہ تحقیق، ص ۱۷(مطبوعہ مکتب الاعلام الاسلامی)۔
۲۔ کشف المحجة، صفحہ ۱۳۱۔
۳۔ الذریعہ، ج ۸ ص ۱۷۶ و ۱۷۷۔
۴۔ جو دس جلدوں کا مجموعہ ہے اور اس کی ہر جلد خاص اعمال سے مخصوص ہے ، مثلا فلاح السائل، فقط شب و روز کے اعمال سے متعلق ہے اور اقبال ، فقط مہینوں کے اعمال سے متعلق ہے(الذریعہ میں مراجعہ کریں جلد ۸ ص ۱۷۸)۔
۵۔ الذریعہ، ج ۸ ص ۱۷۷ و ۱۷۸۔
6۔ وہی حوالہ، ص ۱۷۹۔
7۔ وہی حوالہ، ص ۱۷۳ و مستدرک الوسائل، ج ۱۷، ص ۲۹۲، حدیث ۲۷۔
8۔ وسائل الشیعہ، ج۱ ص ۵۹، ابواب مقدمات العبادات، باب ۱۸(اس باب میں چند روایتیں اسی مضمون سے متعلق بیان ہوئی ہیں)۔
9۔مصباح الزائر، چاپ موسسہ آل البیت، ص ۴۴۔ اس بات کو ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اصل میں یہ جملے مسجد نبوی(صلی اللہ علیہ و آلہ)کی زیارت کے اذن دخول سے ماخوذ ہیںاور وہیں سے دوسرے روضوں میں منتقل ہوئے ہیں۔
10۔ وہی حوالہ۔

 

۸۔ دعا کی درخواست کا تبدیل ہوجانا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma