اکثریت پاکیزگی کی دلیل نہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
غیر مناسب سوالاتکعبہ کی اہمیت

اکثریت پاکیزگی کی دلیل نہیں

 

گذشتہ آیات میں مشروبات الکحل ، قمار بازی، انصاب وازلام اور حالت احرام میں شکار کرنے کی حرمت کے سلسلے میں گفتگو تھی، چونکہ ہوسکتا ہے بعض لوگ ایسے گناہوں کے ارتکاب کے لئے کچھ معاشروں اور علاقوں میں اکثریت کے عمل کو دستاویز قرار دیں اور اس بہانے سے کہ مثلاً شہر کی اکثریت شراب پیتی ہے یا قمار بازی کرتی ہے یا یہ کہ لوگوں کی اکثریت فلاں قسم کے حالات میں حرمتِ شکار وغیرہ کی پرواہ نہیں کرتی لہٰذا وہ ان احکام پر عمل در آمد سے روگردانی کریں اور انھیں طاق نسیاں کردیں تو اس بناپر کہ یہ بہانہ اس مقام پر اور اس قسم کے افراد سے دیگر مواقع میں کلی طور پر چھپن لیا جائے، خدا ایک بنیادی کلیہ قاعدہ مختصر سی عبارت میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: اے پیغمبر! پاک و ناپاک کبھی برابر نہیں ہوسکتے اگر چہ ناپاک لوگوں کی زیادتی اور آلودہ لوگوں کی کثرت تجھے تعجب میں ڈال دے اور بھلی معلوم ہو (قُلْ لاَیَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اٴَعْجَبَکَ کَثْرَةُ الْخَبِیثِ َ) ۔
اس بناپر درج بالا آیت میں خبیث و طیب ہر قسم کے پاک و ناپاک وجود کے معنی میں ہے چاہے وہ پاک و ناپاک کھانے کی چیزیں ہوں یا پاک و ناپاک افکار و نظریات ہوں ۔
آیت کے آخر میں صاحبان فکر اور ارباب عقل و ہوش کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کرتا ہے کہ خدا سے ڈرو تاکہ کامران و کامیاب ہوجاؤ
(فَاتَّقُوا اللهَ یَااٴُولِی الْاٴَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ)
لیکن یہ جو آیت میں ایک واضح چیز کی توضیح کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کوئی یہ خیال کرے کہ کچھ عوارض مثلاً پلید و ناپاک کے طرفداروں کی زیادتی جسے اصطلاح میں ”اکثریت“ کہتے ہیں اس چیز کی باعث بنے کہ ناپاک کی ہم پلہ قرار پاجائے ۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض اوقات کچھ لوگ انبوہ کثیر اور کثریت کے میلانات کے زیر اثر آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اگر اکثریت کسی مطلب کی طرف مائل ہوجائے تو یہ اس مطلب کے بے چون و چرا درست ہونے کی قطعی نشانی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ ایسے مواقع بہت سے ہو گزرے ہیں جن میں معاشروں کی اکثریت واضع اشتباہات اور غلطیوں میں گرفتار ہوئی ہے اور مواقع اور حقیقت میں جو چیز اچھی چیز کی بُری چیز سے (اور خبیث کی طیب سے) پہچان کے لئے لازمی ہے ”وہ اکثریت کیفی“ ہے نہ کہ”اکثریت کمی“ یعنی قوی تر، والاتر اور اعلیٰ ترین افکار اور توانا تر اور پاکترین نظریات کی ضرورت ہے، نہ کہ طرفداروں کی کثرت۔ یہ مسئلہ شاید اس زمانہ کے بعض لوگوں کے ذوق کے مطابق نہ ہو کیونکہ تلقین و تبلیغ کے ذریعے بہت کوشش کی گئی ہے کہ لوگ اکثریت کے رجحانات ومیلانات کو نیک و بد کے پرکھنے کی ترازو کے طور پر قبول کرلیں ۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے باور کرلیا ہے کہ”حق“ وہ چیز ہے جس کو اکثریت پسند کرتی ہو اور اچھی چیز وہ ہے جس کی طرف اکثریت مائل ہو ۔ حالانکہ معاملہ اس طرح نہیں ہے ۔ دنیا کے بہت سے مصائب و آلام اسی طرز فکر کی وجہ سے ہیں ۔ ہاں اگر اکثریت صحیح رہبری اور درست تعلیمات سے بہرہ مند ہوجائے اور اصطلاحی طور پر عام معنی کے لحاظ سے ایک رشید اکثریت ہو تو پھر ممکن ہے کہ اس کے میلانات نیک و بد کی پہچان کا مقیاس و میزان بن سکیں، نہ کہ وہ اکثریتیں جن کی رہنمائی نہیں ہوئی اور جو غیر رشید ہیں ۔
بہر حال قرآن محل بحث آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: کبھی تمھیں بُروں اور نا پاک چیزوں کی زیادتی تعجب میں نہ ڈالے ۔ دیکر مقامات پر بھی متعدد مرتبہ فرمایا ہے:
”وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاس لَا یَعْلَمُون“
اکثر لوگوں کے کام علم و دانش کے ماتحت نہیں ہوتے ۔
ضمنی طور پر توجہ کرنا چاہیے کہ اگر آیت میں لفظ
”خبیث“، ”طیب“ پر مقدم رکھا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ محل بحث آیت میں روئے سخن، ان لوگوں کی طرف ہے جو خبیث کی زیادتی کو اس کی اہمیت کی دلیل سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انھیں جواب دیا جائے، اس لئے قرآن اُن کے گوش گزار کرتا ہے کہ نیکی و بدی اور اچھائی و بُرائی کا معیار کسی بھی موقع پر کثرت و قلت اور اکثریت و اقلیت نہیں ہے، بلکہ ہر جگہ اور ہر وقت ”پاکی“ ”ناپاکی“ سے بہتر ہے اور صاحبانِ عقل و فکر کبھی کثرت سے دھوکا نہیں کھاتے ۔ وہ ہمیشہ پلیدی سے دوری اختیار کرتے ہیں اگر چہ اُن کے ماحول کے تمام افراد آلودہ ہوں ۔ وہ پاکیزگیوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اگر چہ ان کے معاشرے کے تمام افراد اس کے خلاف ہوں ۔
۱۰۱ یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَسْاٴَلُوا عَنْ اٴَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَإِنْ تَسْاٴَلُوا عَنْھَا حِینَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللهُ عَنْھَا وَاللهُ غَفُورٌ حَلِیمٌ-
۱۰۲ قَدْ سَاٴَلَھَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اٴَصْبَحُوا بِھَا کَافِرِینَ-
ترجمہ
۱۰۱۔ اسے ایمان والوں!تم ایسے مسائل کے متعلق سوال نہ کرو کہ وہ تمھارے سامنے واضح ہوجائیں تو تمھیں بُرے لگیں اور اگر قرآن کے نزول کے وقت ان کے متعلق سوال کرو تو وہ تمھارے لئے آشکار ہوجائیں گے، خدا نے تمھیں معاف کردیا ہے( اور ان سے صرفِ نظر کرلیا ہے ) اور خدا بخشنے والا اور حلیم ہے ۔
۱۰۲۔ تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں سے ایک گروہ نے ان چیزوں کے متعلق سوال کیا تھا اور پھر ان کی مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے تھے (ہو سکتا ہے کہ تم بھی ایسے ہی ہوجاوٴ) ۔

 


شانِ نزول

 

اُوپر والی آیت کے شان نزول کے سلسلے میں کتبِ حدیث و تفسیر میں مختلف اقوال نظر آتے ہیں لیکن جو اُوپر والی آیت اور ان کی تعبیرات کے ساتھ زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے وہ، وہ شانِ نزول ہے جو تفسیر مجمع البیان میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے منقول ہے ۔ اور وہ یہ ہے:
ایک دن پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم نے خطبہ دیا اور حج کے بارے میں خدا کا حکم بیان کیا تو ایک شخص جس کا نام ”عکاشہ “تھا (اور ایک روایت کے مطابق ”سراقہ“) نے کہا: کیا یہ حکم ہر سال کے لئے ہے اور ہر سال ہمیں حج بجالانا ہوگا؟ پیغمبر نے اس کے سوال کا جواب نہ دیا، لیکن اس نے اصرار کیا اور دو مرتبہ یا تین مرتبہ اپنے سوال کا تکرار کیا، پیغمبر نے فرمایا: وائے ہو تم پر، کیوں اس قدر اصرار کررہے ہو، اگر تمھارے جواب میں میں ہاں کہدوں تو ہر سال تم پر حج واجب ہوجائے گا اور اگر ہر سال واجب ہوگیا تو اس کی انجام دہی کی تم میں طاقت نہیں ہوگی اور اگر اس کی مخالفت کی تو گنہگار ہوگے، لہٰذا جب تک میں تم سے کوئی چیز بیان نہ کروں تم اس پر اصرار نہ کیا کرو کیونکہ (ایک چیز) اُن امور میں سے جو (بعض) گذشتہ اقوام کی ہلاکت کا سبب بنی یہ تھی کہ وہ ہٹ دھرمی کرتے تھے اور بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے تھے اور اپنے پیغمبر سے زیادہ سوال کرتے تھے، اس بناپر جب میں تمھیں کوئی حکم دوں تواپنی توانائی کے مطابق اُسے انجام دو ۔
”اِذَا اَمَرتکُم مِن شَیء فَاٴتُو مِنہُ مَا اسْتَطَعتُم“
اور جب تمھیں کسی چیز سے منع کروں تو اجتناب کرو، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انھیں اس کام سے روکا گیا(۱)
کہیں اس سے اشتباہ نہ ہو کہ اس شان نزول سے مراد۔ جیسا کہ ہم آیت کی تفسیر میں بیان کریں گے ۔ یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے لئے راہ پرسش وسوال اور مطالب علمی سمجھنا بند کردیا جائے، کیونکہ قرآن تو خود اپنی آیات میں صراحت کے ساتھ حکم دیتا ہے کہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے اس کااہلِ علم سے سوال کریں ۔
”فَاسْئَلُوا اٴَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُم لَا تَعْلَمُونَ“
بلکہ اس سے مراد بے جا سوال،بہانہ سازیاں اور ہٹ دھرمیاں ہیں، یہ طریقہٴ کار زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں کی خرابی، گفتگو کرنے کی مزاحمت اور اس کے سلسلہٴ گفتگو اور پروگرام کی پراکندگی کا سبب بنتا ہے ۔
تفسیر

غیر مناسب سوالاتکعبہ کی اہمیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma