تفسیر وہ نور جو تاریکی میں چمکتا ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
چند اہم نکاتاسرار غیب

دوبارہ قرآن مشرکین کا ہاتھ پکڑ کر ان کی فطرت کے اندر لے جاتا ہے، اور اس اسرار آمیز نہاں خانہ میں انھیں توحید کے نور اور یکتا پرستی کی نشاندہی کراتا ہے اور پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ وہ انھیں اس طرح کہیں:کون ہے وہ کہ جو تمھیں بر وبحر کی تارکیوں سے نجات دیتا ہے

 

(قُلْ مَنْ یُنَجِّیکُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ) ۔
اس بات کی یاددہانی کرادینا بھی ضروری ہے کہ ظلمت وتاریکی کبھی تو جنبہٴ حسی رکھتی ہے اور کبھی جنبہٴ معنوی، ظلمت حسی یہ ہے کہ نور کلی طور پر منقطع ہوجائے یا اس قدر کمزور ہوجائے کہ انسان کسی جگہ کو نہ دیکھ سکے یا مشکل سے دیکھ سکے اور ظلمت معنوی مشکلات ،مصیبتیں اور پریشانیاں ہیں کہ جن کا انجام تاریک ونامعلوم ہے، جہالت تاریکی ہے، اجتماعی واقتصادی ہرج مرج اور فکری بے سروسایبانیاں، انحراف اور اخلاقی آلودگیاں کہ جن کے برے انجام پیش بینی کے قابل نہیں ہیں یا وہ چیز کہ جو بدبختی اور پریشانی کے سواکچھ نہ ہو، یہ سب کی سب ظلمت ہیں ۔
ظلمت وتاریکی اپنی ذات سے ہولناک اور توہم انگیز ہیں کیوں کہ بہت سے خطرناک جانوروں ، چوروں اورمجرموں کا حملہ رات کی تاریکی میں ہی ہوتا ہے اور ہر شخص کو اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی خطرہ درپیش رہتا ہے، لہٰذا تاریکی میں پھنس جانے کی صور ت میں اوہام وخیالات انسان کی جان لے لیتے ہیں، خیالات کے مختلف زاویوں سے مختلف صورتیں اور وحشتناک شکلیں نکل نکل کر بھاگنے لگتی ہیں اور عام افراد کو خوف و ہراس میں پھنسادیتی ہیں ۔
ظلمت وتاریکی عدم کا شعبہ ہے اور انسان ذاتی طور پر عدم سے بھاگتا ہے اور وحشت رکھتا ہے، اسی سبب سے وہ عام طور سے تاریکی سے ڈرتا ہے ۔
اگر یہ تاریکی واقعی وحشتناک حوادث سے مل جائے،مثلا انسان ایک ایس سمندری سفر میں پھنس جائے جس میں اندھیری رات، موجوں کا خوف ہو اور طوفان آیا ہوا ہو، تو اس کی وحشت وپریشانی ان مشکلات سے کئی درجے زیادہ ہوگی جو دن کے وقت ظاہرہوں، کیوں کہ عام طور سے ایسے حالات میں انسان کے لئے چھٹکارے کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ۔
اسی طرح اگر اندھیری رات میں کسی جنگل بیابان میں انسان راستہ بھول جائے اور درندوں کی وحشتناک آوازیں، جو رات کے وقت اپنے شکار کی تلاش میں ہوتے ہیں دور اور نزدیک سے سنائی دے رہی ہوں، یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جس میں انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور خود اپنے اور اس تابناک نور کے سوا جو اس کی روح کی گہرائی میں چمکتا ہے اور اسے ایک مبدا کی طرف بلاتا ہے کہ صرف وہی ہے کہ جو اس قسم کی مشکلات کو حل کرسکتا ہے، باقی اسے کچھ یاد نہیں رہتا اس قسم کے حالات جہان توحید وخدا شناسائی کا دریچہ ہے، اسی لئے بعد کے جملے میں ارشاد ہوتا ہے: اس قسم کی حالت میں تم اس کے لامتناہی لطف وکرم سے مدد طلب کرتے ہو، بعض اوقات آشکار خضوع وخشوع کے ساتھ اور کبھی پوشیدہ طریقے سے دل ہی دل کے اندر اسے پکارتے ہو
(تَدْعُونَہُ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً ) ۔
اور ایسی حالت میں تم فورا اس عظیم مبداٴ کے ساتھ عہد وپیمان باندھتے ہو کہ اگر ہم اس خطرے سے نجات دے دے تو ہم یقینا اس کی نعمتوں کا شکر اداکریں گے اور اس کے سوا کسی اور سے دل نہیں لگائیں گے
(لَئِنْ اٴَنجَانَا مِنْ ھَذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنْ الشَّاکِرِین)
لیکن اے پیغمبر! تم ان سے کہہ دو کہ خدا تمھیں ان تاریکیوں سے اور ہر قسم کے دوسرے غم واندوہ سے نجات دےتا ہے(اور بارہا تمھیں نجات دی ہے) لیکن تم رہائی پانے کے بعد اسی شرک وکفر کے راستے پر چل پڑتے ہو
( قُلْ اللَّہُ یُنَجِّیکُمْ مِنْھَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اٴَنْتُمْ تُشْرِکُونَ) ۔

چند اہم نکاتاسرار غیب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma