چونکہ اس سورہ کے زیادہ تر مباحث مشرکین اور بت پرستوں کی کیفیت کے بارے میں ہے لہٰذا ان دو آیات میں ان سے مربوط ایک دوسرے مسئلہ کی طرف اشارہ ہورہا ہے، پہلے پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلمسے ارشاد ہوتا ہے کہ:جس وقت تم ہٹ دھرم اور بے منطق مخالفین کو دیکھو کہ وہ آیات خدا کا استہزاء کررہے ہیں تو ان سے منہ پھیر لوجب تک وہ اس کام سے صرف نظر کرکے دوسری گفتگو کو شروع نہ کرلیں(واِذَا رَاٴَیْتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فِی آیَاتِنَا فَاٴَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ) ۔ (۱)
اس جملے میں اگرچہ روئے سخن پیغمبر کی طرف ہے، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ یہ حکم آپ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مومنین کے لئے ہے ۔ اس حکم کا فلسفہ بھی واضح ہے کہ اگر مسلمان ان کی مجالس میں شرکت کرتے تھے تو وہ انتقام لینے اور انھیں تکلیف پہنچانے کے لئے اپنی باطل اور ناروا باتوں کو جاری رکھتے تھے، لیکن جب وہ بے اعتنائی کے ساتھ ان کے قریب سے گزرجائیں تو وہ فطرتا خاموش ہوجائیں گے اور دوسرے مسائل شروع کردیں گے، کیوں کہ ان کا سارا مقصد تو پیغمبر اورمسلمانوں کو تکلیف پہچانا تھا ۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ یہ موضوع اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ ”اگر شیطان تمھیں یہ بات بھلا دے اور اس قسم کے افراد کے ساتھ بھول کر ہم نشین ہوجاؤ تو جب بھی اس موضوع کی طرف توجہ ہوجائے فورا اس مجلس سے کھڑے ہوجاؤ اور ان ظالموں کے پاس نہ بیٹھو(وَإِمَّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیْطَانُ فَلاَتَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرَی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔ (۲)