صر ف وہی ذات کہ جو مبداء عالم ہستی ہے،

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
کیوں کہ یہ سورہ شرک وبت پرستی سے مقابلے کا پہلو رکھتی ہے کیا ہم سابقہ حالت کی طرف پلٹ جائیں ۔

یہ آیت حقیقت میں گذشتہ آیت کے مطالب پر ایک دلیل، اور پروردگار عالم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کی ہدایت کی پیروی کرنے کے لازم ہونے کی بھی ایک دلیل ہے، لہٰذا پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ خدا ہی ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ( وَھُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَق ۔
صر ف وہی ذات کہ جو مبداء عالم ہستی ہے، اور رہبری کے لئے شائستہ و لائق ہے اور صرف اسی کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے کیوںکہ اس نے تمام چیزوں کو ایک صحیح مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔
اوپر والے جملے میں”حق“ سے مراد وہی نتیجہ ، مقصد، ہدف، مصلح اور حکمتیں ہیں، یعنی اس نے ہر چیز کوکسی مصلحت اور اور ہدف ونتیجہ کے لئے پیدا کیا ہے حقیقت میں یہ جملہ اس مطلب سے مشابہ ہے جو سورہٴ ص آیہ ۲۷میں بیان ہوا ہے کہ ہم جہاں پر ہے:
وما خلق السماء والارض ومابینھما باطلا ۔
ہم نے آسمان کو اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے فضول اور بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: نہ صرف مبداء عالم ہستی وہی بلکہ معاد وقیامت بھی اسی کے حکم سے صورت پذیر ہوگی’ اور جس دن وہ حکم دینا کہ قیامت بپا ہوجائے تو وہ فورا بپا ہوجائے گی“
( وَیَوْمَ یَقُولُ کُنْ فَیَکُونُ ) ۔ (۱)
بعض نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس جملہ سے مراد وہی آغازآفرینش اور مبداء جہاں ہستی ہے کہ تمام چیزیں اس کے فرمان سے ایجاد ہوئی ہیں، لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ”یقول“ فعل مضارع ہے، اور یہ کہ اس جملے پہلے اصل آفرینش کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اسی طرح بعد کے جملوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ جملہ قیامت اور اس کے بارے میں حکم خدا کے ساتھ ہی مربوط ہے ۔
جیسا کہ ہم ( تفسیر نمونہ کی ) جلد اول (سورہٴ بقرہ کی آیہ ۱۱۷کے ذی میں ) میں بیان کرچکے ہیں، کہ
”کن فیکون“ سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدا ایک لفظی فرمان ”ہوجا“ کی طرف صادر فرماتا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے خلق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کسی دوسرے عامل کی احتیاج کے بغیر اس کا ارادہ خودبخود جامہ عمل پہن لیتا ہے، اگر اس نے یہ اراد کیا ہے کہ وہ چیز دفعتا اور ایک ہی مرتبہ موجود ہوجائے تو وہ ایک ہی دفعہ موجود ہوجاتی ہے اور اگر اس نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ چیز تدریجا وجود میں آئے تو اس کا تدریجی پروگرام شروع ہوجا تا ہے ۔
اس کے بعد قرآن مزیدکہتا ہے کہ :خدا کی بات حق ہے، یعنی جس طرح آفرینش کی ابتدا ہدف ونتیجہ اور مصلحت کی بنیاد تھی، قیامت و معاد بھی اسی طرح ہوگی
(قَوْلُہُ الْحَقُّ ) ۔
اور اس دن جب صور میں پھونکا جائے گا اور قیامت پرپا ہو جائے گی، تو حکومت وملکیت اسی کی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہوگی

 

(وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ) ۔
یہ صحیح ہے کہ خدا کی ملکیت اور حکومت تمام عالم ہستی پر ابتدا جہاں سے رہی ہے اور دنیا کے خاتمہ تک اور عالم قیامت میں بھی جاری رہے گی اور قیامت کے ساتھ کوئی اختصاص نہیں رکھتی لیکن چونکہ اس جہان میں اہداف ومقاصد کی تکمیل اور کاموں کے انجام دینے کے لئے عوامل واسباب کا ایک سلسلہ اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا بعض اوقات یہ عوامل واسباب خدا سے جو مسبب الاسباب ہے غافل کردیتے ہیں، مگر وہ دن کہ جس میں تمام اسباب بے کار ہوجائیں گے تو اس کی ملکیت وحکومت ہر زمانے سے زیادہ آشکار وواضح ہوجائی گی، ٹھیک ایک دوسری آیت کی طرح جو یہ کہتی ہے کہ :
لمن ملک الیوم للّٰہ الواحد القھار۔
حکومت اور ملکیت آج(قیامت کے دن) کس کی ہے؟صرف خدائے یگانہ وقہار کے لئے ہے،(سورہ المومن،آیہ ۱۶) ۔
اس بارے میں کہ صور ۔ جس میں پھونکا جائے گا ۔ سے مراد کیا ہے اور اسرافیل صور میں کس طرح پھونکے گا کہ اس سے تمام جہاں والے مرجائیں گے اور دوبارہ صور میں پھونکے گا تو سب زندہ ہوجائیں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی، انشاء اللہ ہم سورہٴ زمر کی آیہ ۶۸ کے ذیل میں شرح وبسط کے ساتھ بحث کریں گے کیوں کہ یہ بحث اس آیت کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔
اور آیت کے آخر میں خدا کی صفات میں سے تین صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: خدا پنہاں وآشکار سے باخبر ہے
( عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ)
اور اس کے تمام کام حکمت کی رو سے ہوتے ہیں او ر وہ تمام چیزوں سے باخبر ہے
( وَھُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ)،قیامت سے مربوط آیات میں اکثر خدا کی ان صفات کی طرط اشارہ ہوا ہے کہ وہ آگاہ بھی ہے اور قادر وحکیم بھی، یعنی اپنے علم وآگاہی کے اقتضاء کے مطابق وہ ہر شخص کو مناسب جزا دیتا ہے ۔
۷۴وَإِذْ قَالَ إِبْرَاھِیمُ لِاٴَبِیہِ آزَرَ اٴَتَتَّخِذُ اٴَصْنَامًا آلِھَةً إِنِّی اٴَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ ۔
ترجمہ
۷۴(اور یاد کرو )جب ابراہیم نے اپنے مربی (چچا) آزر سے یہ کہا کہ کیا تم بتوں کو اپنا خدا بناتے ہو، میں تو تمھیں اور تمھاری قوم کو واضح گمراہی میں پاتا ہوں ۔


 
۱۔ اس بارے میں کہ ”یوم“ جو قواعد ادبی کے مطابق ظرف ہے کس سے متعلق ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض اسے ”خلق“ کے جملے سے بعض”اذکروا“ کے جملہ سے جو محذوف ہے متعلق سمجھتے ہیں، لیکن یہ بات بعید نہیں ہے کہ وہ ”یکن“ سے متعلق ہو، اور پھر جملے کے معنی اس طرح ہوگا:” یکن القیامة یوم یقول اللّٰہ کن“۔
کیوں کہ یہ سورہ شرک وبت پرستی سے مقابلے کا پہلو رکھتی ہے کیا ہم سابقہ حالت کی طرف پلٹ جائیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma