تین اہم امتیاز

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
خدانشناسان چند قابل توجہ امور

گذشتہ آیات میں خداوند تعالیٰ پیغمبروں کے مختلف گروہوں کے ناموں کے ذکر کے بعد یہاں ان کی زندگی کے کلی اور اصلی خطوط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہلے فرماتا ہے: یہ خدا کی ہدایت ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ہدایت ورہبری کرتا ہے (ذٰلِکَ ہُدَی اللَّہِ یَہْدِی بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ)۔ یعنی اگرچہ وہ صالح اور نیک لوگ تھے اور عقل وفکر کی قوت اور اپنے تمام وجود کے ساتھ ہدایت کی راہ میں قدم اٹھاتے تھے لیکن پھر بھی اگر توفیق الٰہی ان کے شامل حال نہ ہوتی اور اس کی مہربانی کا ہاتھ ان کی دستگیری کرتے ہوئے انھیں سہارا نہ دیتا تو اُن سب کے بارے میں بھی اور ہر شخص کے لیے لغزش کا امکان موجود تھا اور موجود ہے۔ پھر اس بناپر کہ کہیں یہ تصور نہ کیا جائے کہ انھوں نے اس راہ میں مجبوراً قدم اٹھایا ہے اور اسی طرح کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ خداوندتعالیٰ ان کے بارے میں ایک استثنائی اور بغیر دلیل اور وجہ کے کوئی خاص نظر رکھتا تھا فرماتا ہے: اگر فرض کریں کہ یہ پیغمبر اس مقام وحیثیت کے باوجود جو وہ رکھتے تھے مشرک ہوجاتے تو ان کے تمام اعمال حبط ہوجاتے (وَلَوْ اٴَشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ)۔
یعنی اُن کے لیے بھی وہی قوانین الٰہی جاری ہیں جو دوسروں کے بارے میں جاری ہوتے ہیں اور کوئی استثناء کسی کے لئے نہیں ہے۔
بعد والی آیت میں تین اہم امتیازات وخصوصیات کی طرف جو انبیاء کے تمام امتیازات کی بنیاد ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: یہ ایسے لوگ تھ کہ جنھیں ہم نے آسمانی کتاب عطا کی اور مقام حکم بھی اور نبوت بھی (اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ آتَیْنَاہُمْ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ)۔
البتہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ سب صاحب کتاب تھے بلکہ چونکہ گفتگو ان سب کے متعلق ہورہی ہے لہٰذا اجتماعی طور پر سب کی طرف نسبت دی گئی ہے اس کی مثال ٹھیک اس طرح ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں کتاب میں علماء اور ان کی کتب کا تعارف کرایا گیا ہے، یعنی ان کی کتب کہ جنھوں نے کوئی کتاب لکھی ہے۔
ضمنی طور پر اس بارے میں کہ ”حکم“ سے کیا مراد ہے تین احتمال پائے جاتے ہیں:
۱۔ حکم کا مفہوم: یہ لفظ یہاں عقل وفہم وادراک کے معنی میں ہے یعنی اس کے علاوہ کہ ہم نے انھیں آسمانی کتاب دی ہے اس کو سمجھنے کی قدرت بھی انھیں بخشی ہے کیونکہ کتاب کا وجود قوی وکامل ادراک وفہم کے بغیر کوئی اثر نہیں رکھتا۔
۲۔ منصَب قضاوت: یعنی وہ اُن آسمانی قوانین کے سائے میں جو کتاب الٰہی میں تھے، لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکتے تھے اور اُن سب میں ایک قاضی اور دادرس عادل کی تمام شرائط کامل طور پر موجود تھیں۔
۳۔ حکومت وسلطنت: کیونکہ وہ مقام نبوت ورسالت کے علاوہ مقام حکومت کے بھی حامل تھے۔
اُوپر والے تمام معانی کا شاہد۔ اس کے علاوہ کہ حکم کا لغوی معنی ان تمام معانی پر منطبق ہوتا ہے۔ یہ ہے کہ قرآن کی مختلف آیات میں بھی حکم ان تمام معانی میں استعمال ہوا ہے(۱)
اور اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اوپر والی آیت میں لفظ حکم ایک جامع معنی میں کہ جس میں تینوں اُوپر والے مفہوم موجود ہوں، استعمال ہوا ہو کیونکہ حکم اصل میں جیسا کہ راغب ”مفردات“ میں کہتا ہے منع کرنے اور روکنے کے معنی میں ہے اور چونکہ عقل اشتباہات اور غلط کاریوں سے روکتی ہے، اسی طرح صحیح قضاوت و فیصلہ کرنا ظلم و ستم کرنے سے منع کرتا ہے اور عادل حکومت دوسروں کی ناروا و ناجائز حکومتوں کو روک دیتی ہے (لہٰذا لفظ حکم) ان تینوں (معانی) میں سے ہر ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
البتہ جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ تمام انبیاء ان تمام مقامات کے حامل نہیں تھے۔ لیکن جب ایک گروہ کچھ احکام کی نسبت دی جائے، تو یہ بات ضروری نہیں ہے کہ اس جماعت کے تمام افراد اُن تمام احکام کے حامل ہوں بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض ان احکام میں سے فقط بعض احکام کے ہی حامل ہوں۔ لہٰذا کتابِ آسمانی کا موضوع جو صرف مذکورہ و معدودے چند انبیاء کے بارے میں تھا، مندرجہ بالا آیت کے سمجھنے میں ہمارے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کرتا۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اگر یہ گروہ یعنی مشرکین، اہلِ مکہ اور ان جیسے لوگ ان حقائق کو قبول نہ کریں تو تیری دعوت جواب کے بغیر نہیں رہے گی کیونکہ ہم نے ایک گروہ کو اس امر پر مامور کردیا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اُسے قبول کریں بلکہ اس کی حفاظت و نگہبانی بھی کریں۔ وہ ایسا گروہ ہے کہ جو (ایمان لانے کے بعد) کفر کے راستے پر گامزن نہ ہوں گے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم رکھیں گے (فَإِنْ یَکْفُرْ بِہَا ہَؤُلاَءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَیْسُوا بِہَا بِکَافِرِینَ)۔
تفسیر ”المنار“ اور تفسیر ”روح المعانی“ میں بعض مفسرّین سے نقل ہوا ہے کہ اس جماعت سے مراد ایرانی ہیں (کہ جنہوں نے بہت جلدی اسلام قبول کیا اور اس کی پیش رفت میں اپنی ساری توانائیوں کے ساتھ کو شاں رہے اور ان کے علماء اور دانشمندوں نے مختلف اسلامی فنون میں بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں)۔ (۲)
آخری آیت میں ان بزرگ پیغمبروں کے پروگرام (اور کارناموں) کو ہدایت کے ایک اعلیٰ نمونے کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تعارف کراتے ہوئے قرآن کہتا ہے: یہ ایسے لوگ ہیں کہ ہدایت الٰہی جن کے شاملِ حال تھی لہٰذا تم بھی ان کی ہدایت کی اقتداء کرو (اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ ہَدَی اللَّہُ فَبِہُدَاہُمْ اقْتَدِہِ)۔(3)
یہ آیت دوبارہ تاکید کرتی ہے کہ تمام پیغمبروں کا اصولِ دعوت ایک ہی ہے۔ اگر چہ خصوصیات کے لحاظ سے مختلف زمانوں کی مختلف ضروریات کے تناسب سے احکام فرق رکھتے تھے اور بعد کے دین و آئین قبل کے ادیان سے کامل تر ہوتے رہے اور علمی و ترتیبی کلاسیں اپنے انتہائی درجے تک کہ جو آخری کو رس تھا یعنی اسلام تک پہنچی ہیں۔
اس بارے میں کہ اس ہدایت سے کونسی ہدایت مراد ہے کہ جو پیغمبر اسلام کے لیے نمونہ قرار پائی ہے۔ بعض مفسرّین نے تویہ احتمال ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد مشکلات کے مقابلہ میں صبر و پائداری ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اس سے مقصود توحید اور تبلیغِ رسالت ہے لیکن ظاہرا ًہدایت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے کہ جو توحید کو بھی اور دوسرے اصول اعتقادی کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور صبر و استقامت اور باقی اخلاق، تعلیم اور تربیت کے اصول بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ زیر نظر آیت اس بات کے منافی نہیں کہ اسلام تمام گذشتہ ادیان و شرائع کا ناسخ ہے کیونکہ نسخ تو صرف احکام کے ایک حصہ کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اُن کی دعوت کے کلی اصول منسوخ ہوجاتے ہیں۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں سے یہ کہہ دیں کہ: میں تم سے اپنی رسالت کے بدلے میں کسی قسم کا کوئی اجرا اور بدلے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ جیسا کہ گذشتہ انبیاء نے بھی کوئی ایسی درخواست نہیں کی تھی میں بھی انبیاء کی ہمیشہ کی اس سنت کی پیروی کرتے ہوئے ان کی اقتدا کرتا ہوں (قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا)۔
نہ صرف یہ کہ انبیاء اور ان کی سنتِ جاوید کی اقتداء کا تقاضا یہ ہے کہ میں کسی قسم کی اجرت کا مطالبہ نہ کروں بلکہ اس سبب سے بھی کہ یہ پاک دین جو میں تمہارے لیے لایا ہوں ایک خدائی امانت ہے جو میں تمھیں سپرد کررہا ہوں تو خدائی امانت تم تک پہنچانے کا اجر اور جزاء (مانگتے) کوئی مفہوم ہی نہیں ہے۔
علاوہ ازیں یہ قرآن، رسالت اور ہدایت تمام عالمین کے لیے ایک صدائے بیدار باش اور یاد آوری ہے ( إِنْ ہُوَ إِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِینَ)۔
اور اس قسم کی عمومی نعمت جو سب کے لیے ہے، نورِ آفتاب، نورِ آفتاب، امواج ہوا اور بارش برسنے کے مانند ہے کہ جو عمومی اورجہانی پہلو رکھتی ہے اور کبھی بھی اس کی خرید و فروخت نہیں ہوتی اور کوئی اس کے بدلے میں اجرو جزا نہیں لیتا۔ یہ ہدایت و رسالت بھی کوئی خصوصی اور اختصاصی پہلو نہیں رکھتی کہ جس کے لیے کسی بدلے کا قائل ہوا جاسکے۔
(اس جملہ کی تفسیر میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان کا ایک دوسرے کے ساتھ جوڑاقبل کی آیات کے ساتھ تعلق کامل طور پر واضح ہوجاتاہے)۔
ضمنی طور پر آخری جملے سے یہ اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ دینِ اسلام کوئی علاقائی اور قومی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک عالمی اور انسانی دین ہے جو ہر جگہ اور ہر شخص کے لیے ہے۔اللّٰہَ
۹۱ وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُوا مَا اٴَنزَلَ اللَّہُ عَلیٰ بَشَرٍ مِنْ شَیْءٍ قُلْ مَنْ اٴَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَاءَ بِہِ مُوسَی نُورًا وَہُدًی لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَہُ قَرَاطِیسَ تُبْدُونَہَا وَتُخْفُونَ کَثِیرًا وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا اٴَنْتُمْ وَلاَآبَاؤُکُمْ قُلْ اللَّہُ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِی خَوْضِہِمْ یَلْعَبُونَ-
ترجمہ
۹۱۔ انھوں نے خدا کو جیسا کہ پہچاننا چاہیے تھا، نہیں پہنچانا جب کہ انھوں نے یہ کہا کہ اُس نے کسی انسان پر کوئی چیز نازل نہیں کی، تم یہ کہہ دو کہ وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے، کس نے نازل کی تھی۔ وہ کتاب جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی۔ (لیکن تم لوگوں نے) اُسے پراگندہ کردیا ہے۔ تم اس کے کچھ حصّے کو تو آشکار کرتے ہو اور کچھ کو پوشیدہ رکھتے ہو اور تمھیں ایسے مطالب کی تعلیم دی گئی ہے کہ جن سے تم اور تمہارے آباؤ اجداد باخبر نہیں تھے۔ کہہ دو کہ خدا نے------ اور پھر انھیں ان کی ہٹ دھرمی میں چھوڑ دو تا کہ وہ کھیل کود میں پڑے رہیں۔

 

شان نزول

 

خدا ناشناس
ابن عباس سے منقول ہے:
یہودیوں کی ایک جماعت نے کہا: اے محمد! کیا واقعاً خدانے تم پر کتاب نازل کی ہے؟
پیغمبر نے فرمایا: ہاں،
وہ کہنے لگے: خدا کی قسم خدا نے تو کوئی کتاب بھی آسمان سے نازل نہیں کی۔(4)
اس آیت کی شان نزول میں کچھ اور روایات بھی نقل ہوئی ہیں اور جیسا کہ بعد میں معلوم ہوگا کہ جو کچھ ہم اُوپر بیان کرچکے ہیں وہ سب سے بہتر ہے اور زیادہ مناسب ہے۔

 

 
۱۔ سورہٴ لقمان کی آیہ ۱۲ میں علم و فہم کے معنی ہیں، سورہٴ ص کی آیہ ۲۲ میں قضاوت کے معنی میں اور سورہٴ کہف کی آیہ ۲۶ میں حکومت کے معنی میں آیا ہے۔
۲۔ آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ ”ہٰوٴلاء“ سے مراد خود انبیاء ہوں یعنی بفرض محال اگر یہ بزرگ انبیائے خدا ادائے رسالت سے سرتابی کرلیتے، تو پھر بھی خدائی پیغام زمین پر نہ پڑا رہتا، اور ایک دوسری جماعت اسے عالمین تک پہنچانے پر مامور ہوجاتی۔ قرآن میں ایسی تعبیرات کی نظیر بھی پائی جاتی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ہم پڑھتے ہیں: ”لئن اشرکت لیحبطن عملک“- (زمر: ۶۵)۔
3۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ ” اقتدہ“میں ”‘ِہ‘ ضمیر نہیں ہے بلکہ ”ہاء سکت“ ہے جو وقف کے وقت کلام میں حرف متحرک سے متعلق ہوتی ہے جیسا کہ ہمزہٴ وصل استعمال ہوتا ہے کہ جو شروع کے حرف کو ساکن کے ساتھ شروع نہ کرنے کی بناپر آغاز کا کلام میں لایا جاتا ہے تو جس طرح ہمزہٴ وصل اتصال کلام کے وقت ساقط ہوجاتا ہے اسی طرح ”ہائے سکت“ بھی ساقط ہوجانی چاہیے، لیکن چونکہ یہ ”ہاء“ قرآن کے رسم الخط میں لکھی ہوئی ہے، لہٰذا رسم الخط کے ظاہر کی رعایت کرتے ہوئے، احتیاط کو اسی بات میں سمجھتے ہیں کہ یہاں وقف ہوتا کہ ”ہاء“ ظاہر ہوسکے۔
4۔ تفسیر مجمع البیان، ابوالفتوح رازی اور المنار زیر نظر آیت کے ذیل میں۔
خدانشناسان چند قابل توجہ امور
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma