بت پرستوں کے بیہودہ احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
زمانہ جاہلیت کے عربوں کی فضول احکام بت پرستوں کی ایک بدکاری اور ان کے شرم ناک جرائم کی طرف اشارہ

ان آیات میں بت پرستوں کے بیہودہ احکام کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ جو ان کی کوتاہ فکری کی حکایت وترجمانی کرتے ہیں اور گذشتہ آیات کی تکمیل کرتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ بت پرست کہتے تھے کہ چوپایوں اور زراعت کا یہ حصہ جو بتوں کے ساتھ مخصوص ہے اور خاص انھیں کا حصہ ہے کلی طور پ سب کے لئے ممنوع ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں، ان کے خیال کے مطابق اسی گروہ کے لئے حلال تھا دوسروں کے لئے نہیں ( وَقَالُوا ہَذِہِ اٴَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لاَیَطْعَمُہَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِہِمْ لاَیَطْعَمُہَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِہِمْ)۔
ان کی اس سے مراد وہی بت اور بت خانہ کے متولی اورخدام تھے، صرف وہ یہی گروہ تھا جو ان کے خیال کے مطابق بتوں کے حصہ میں سے کھانے کا حق رکھتے تھے ۔
اس بیان سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آیت کا یہ حصہ حقیقت میں اس حصہ کے مصرف کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے ، جو انھوں نے زراعت اور چوپایوں میں سے بتوں کے لئے مقرر کیا تھا جس کی تفسیر گذشتہ آیات میں گزرچکی ہے۔
لفظ” حجر“ (بروزن”شعر“)اصل میں ممنوع قرار دینے کے معنی میں ہے اور جیسا کہ راغب نے کتاب مفردات میں کہا ہے بعید نہیں کہ” حجارة “
کے مادہ سے پتھر کے معنی میں لیا گیا ہو کیوں کہ جب وہ یہ چاہتے تھے کہ کسی احاطے میں داخلہ ممنوع قرا ردیں تو اس کے گرد پتھر چن دیتے تھے اور یہ جو ”حجر اسماعیل“ پر اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک مخصوص پتھر کی دیوار کے ذریعے اسے مسجد الحرام کے دوسرے حصوں سے الگ کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے عقل کو بھی کبھی کبھی ”حجر“ کہا جاتا ہے ، کیوں کہ وہ انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی نگرانی اور حمایت میں آجائے تو کہتے ہیں کہ یہ اس کی حجر (حفاظت) میں ہے ، اور ”محجور“ اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جو اپنے اموال میں تصرف کرنے سے رکاہوا ہے ۔(۱)
اس کے بعد دوسری چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جسے انھوں نے حرام کررکھا تھا اور فرمایا گیا ہے: وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ کچھ جانور ایسے ہیں کہ جن پر سوار ہونا حرام ہے ( وَاٴَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُہُورُہَا)۔
اور ظاہرا یہ وہی جانور تھے کہ جن کی تفسیر سورہٴ مائدہ کی آیہ ۱۰۳ میں ”سائبہ“ ”بحیرہ“ اور” حام“کے عنوان سے گزر چکی ہے( مزید معلومات کے لئے مذکورہ آیت کے ذیل میں بیان کردہ تفسیر کا مطالعہ کریں) ۔
اس کے بعد ان کے ناروا حکام کے تیسرے حصے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: کچھ جانوروں پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے ( وَاٴَنْعَامٌ لاَیَذْکُرُونَ اسْمَ اللهِ عَلَیْہَا)۔
یہ جملہ ہوسکتا ہے ایسے جانوروں کی طرف اشارہ ہو جن کو ذبح کرتے وقت صرف بت کا نام لیتے تھے یا اس سے مراد وہ جانور ہوں کہ جن پر حج کے لئے سوار ہونا انھوں نے حرام قرار دیاتھا، جیسا کہ تفسیر مجمع البیان، تفسیر کبیر المنار اور قرطبی میں بعض مفسرین سے نقل ہوا ہے ان دونوں صورتوں میں یہ ایک بے دلیل اور بیہودہ حکم تھا۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ ان بیہودہ احکام پر قناعت نہیں کرتے تے تھے بلکہ خدا پر افتراء باندھتے تھے اور ان کی خدا کی طرف نسبت دیتے تھے

( افْتِرَاءً عَلَیْہِ)۔
آیت کے آخر میں ان بناوٹی احکام کے ذکر کے بعد قرآن کہتا ہے: خدا عنقریب ان افترات کے بدلے میں سزا اور عذاب دے گا( سَیَجْزِیہِمْ بِمَا کَانُوا یَفْتَرُونَ )۔
ہاں! جب ایک انسان یہ چاہے کہ وہ اپنی ناقص فکر وعقل ذریعے کوئی قانوں بنالے تو عین ممکن ہے کہ ہرگروہ اپنی ہواوہوس سے کچھ احکام وقوانین بناڈالے اور خدا کی نعمتوں کو بلا وجہ اپنے اوپر حرام قرار دے لے یا قبےح اور غلط کاموں کو اپنے لئے حلال قرار دے لے، یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ قانوںن کا واضح کرنا صرف خدا کا کام ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور ہر کام کی مصلحت سے آگاہ ہے اور ہر قسم کی ہواوہوس سے دور ہے۔
بعد والی آیت میں ان کے ایک اور بیہودہ حکم کی طرف جو جانوروں کے گوشت کے بارے میں ہے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: انھوں کہا ہے کہ وہ جنین (اور بچے) جو ان جانوروں کے شکم میں ہے وہ ہمارے مردوں کے ساتھ مخصوص ہےں اور ہماری بیویوں پر حرام ہے البتہ اگر وہ مردہ پیدا ہوں تو پھر سب اس میں شریک ہیں( وَقَالُوا مَا فِی بُطُونِ ہَذِہِ الْاٴَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُکُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلیٰ اٴَزْوَاجِنَا وَإِنْ یَکُنْ مَیْتَةً فَہُمْ فِیہِ شُرَکَاءُ)۔
اس بات پر توجہ رہے کہ ”ھذہ الانعام“ سے مراد وہی جانور ہیں جن کی طف گذشتہ آیت میں ازرہ ہوا ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ ”ما فی بطون ہذہ الانعام“ ( جو کچھ ان جانوروں کے شکم میں ہے) کی عبارت ان جانوروں کے دودھ کے بارے میں بھی ہے لیکن ”وان یکن میتة“(اگر مردہ ہوں) کے جملے پر توجہ کرتے ہوئے واضح ہوجاتا ہے کہ آیت جنین (شکم مادر میں بچہ) سے بحث کررہی ہے کہ اگر وہ زندہ پیدا ہو تو اسے صرف مردوں کے ساتھ مخصوص جانتے تھے اور اگر مردہ پیدا ہوجاتا تھا کہ جو ان کے لئے زیادہ باعث رغبت ومیل نہ ہوتا تھا تو پھر سب کو اس میں مساوی جانتے تھے ۔
اس حکم کا اول تو فلسفہ اور منطقی دلیل ہی نہیں اور دوسرے مردہ پیدا ہونے والے جنین کے بارے میں بہت ہی برا اور چبھنے والا تھا کیوں کہ اس قسم کے جانور کا گوشت تو اکثر اوقات خراب اور مضر ہوتا ہے اور تیسرے یہ کہ ایک قسم کی مردوں اور عورتوں میں واضح تفریق تھی کیوں کہ جو چیز اچھی تھی وہ تو صرف مردوں کے ساتھ مخصوص تھی اور جو چیز بری تھی اس میں سے عورتوں کو بھی حصہ دیا جاتا تھا۔
قرآن اس جاہلانہ ذکر کرنے کے بعد مطلب کو اس جملے کے ساتھ ختم کرتا ہے:عنقریب خدا نے انھیں ان کی اس قسم کی توصیفات کی سزا دے گا

( سَیَجْزِیہِمْ وَصْفَہُمْ)۔
”وصف“ کی تعبیر ایسی توصیف کی طرف اشارہ ہے کہ جو وہ خدا کے لئے کرتے تھے اور اس قسم کی غذاؤں کی حرمت کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے، اگرچہ اس سے مرا د ووہ صفت اور حالت ہے کہ جو تکرار گناہ کے اثر اسے گنہگار شخص کو عارض ہوتی ہے اور اسے سزا وعذاب کا مستحق بنادیتی ہے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے ہے: وہ حکیم اور دانا ہے ( إِنَّہُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ)۔
ان کے اعمال وگفتار اور ناروا تہمتوں سے بھی باخبر ہے، اور حساب ہی ساتھ انھیں سزا بھی دے گا۔

 

۱۴۰ قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا اٴَوْلاَدَہُمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَہُمْ اللهُ افْتِرَاءً عَلَی اللهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا کَانُوا مُہْتَدِینَ ۔
ترجمہ
۱۴۰۔ یقینا جنھوں نے اپنی اولاد کو حماقت ونادانی کی بنا پر قتل کردیا انھوں نے نقصان اٹھایا ہے، اور جو کچھ خدا نے انھیں رزق دے رکھا تھا اسے اپنے اوپر حرام قرار دے لیا اور خدا پر انھوں نے افتراء باندھا ہے اور وہ گمراہ ہوگئے ہیں اور (وہ ہرگز ) ہدایت نہیں پائیں گے۔

 


۱۔ اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہئے کہ اوپر والی آیت میں ”حجر“ وصفی معنی رکھتا
زمانہ جاہلیت کے عربوں کی فضول احکام بت پرستوں کی ایک بدکاری اور ان کے شرم ناک جرائم کی طرف اشارہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma