”جبرا“ کا بہانہ کرکے ذمہ داری سے فرار

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
دس نصیحتیںوہ چیزیں جو یہودیوں پر حرام ہوئیں

گذشتہ آیات میں مشرکوں کی جو باتیں ذکر ہوئیں ان کے ذیل میں ان کے کمزور استدلالوں اور ان کے جوابات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ابتدا میں فرماتا ہے: ”شرک اور رزقِ حلال کی حرمت کے بارے میں جو مشرکوں پر اعتراضات کئے ان کے جواب میں عنقریب وہ تم سے کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو تم بُت پرست ہوتے نہ ہمارے آباؤ اجداد اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے، پس جو کچھ ہم کہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ سب خدا کی مرضی سے ہے اور وہ یہی چاہتا ہے (سَیَقُولُ الَّذِینَ اٴَشْرَکُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اٴَشْرَکْنَا وَلَاآبَاؤُنَا وَلَاحَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ)۔
اسی طرح کی تعبیر قرآن کی ایک آیت میں بھی نظر آتی ہے، جیسا کہ سورہٴ نحل آیت ۳۵ میں ہے:
<وَقَالَ الَّذِینَ اٴَشْرَکُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِہِ مِنْ شَیْءٍ نَحْنُ وَلَاآبَاؤُنَا وَلَاحَرَّمْنَا مِنْ دُونِہِ مِنْ شَیْءٍ
اور سورہٴ زخرف آیت ۲۰ میں ہے:
<وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَانُ مَا عَبَدْنَاھُمْ
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک افراد بہت سے دیگر کناہگاروں کی طرح مسئلہ جبر کے سہارے اپنی ذمہ داریوں سے فرار چاہتے ہیں اور اپنی نافرمانیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
یہ بھی در اصل جبر کے معتقد تھے اور کہتے تھے: ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ الله کی مرضی سے اور اسی کے ارادہ کے مطابق ہے، وہ اگر نہ چاہتا تو یہ اعمال ہم سے سرزد نہ ہوتے، وہ در اصل یہ کہہ کر چاہتے تھے کہ اپنے آپ کو ان تمام گناہوں سے بَری کردیں، ورنہ ہر انسان کا ضمیر خود اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں آزاد ہے مجبور نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے حق میں ظلم کرے تو وہ ناراحت ہوتا ہے اور اس سے مواخذہ کرتا ہے اور صاحب اقتدار ہونے کی صورت میں اس سے انتقام بھی لے سکتا ہے، یہ تمام چیزیں اس بات کی مظہر ہیں کہ وہ مجرم کو اس کے عمل میں آزاد اور بااختیار کروادیا ہے اس جرم کی سزا دینے سے چشم پوشی نہیں کرتا (اس بات پر غور کرنا چاہیے)
لیکن یہ احتمال بھی اس آیت کے معنی میں ہے کہ وہ (مشرک) اس بات کے مدعی تھے کہ بُت پرستی اورتحریم حیوانات کے مقابلہ میں خدا کا سکوت اس کی رضا مندی کی ذلیل ہے کیونکہ اگر وہ راضی نہ ہوتا تو تو کسی بھی طریقہ سے ہمیں اس کارِ زشت سے روک سکتا تھا۔
”وَلَاآبَاؤُنَا “ کہہ کر انھوں نے یہ چاہا ہے کہ اپنے غلط عقائد کو قدامت ودوام کا رنگ دیں اور کہیں کہ یہ کوئی نئی بات ہے بلکہ گذشتہ قوموں میں سے اور لوگ بھی جھوٹی باتوں کے قائل تھے، لیکن ان کا نتیجہ کیا ہوا؟ وہ بھی آخر کاراپنی بدکرداریوں کے نتائج میں گرفتار ہوئے اور انھوں نے ہماری سزا کا مزہ چکھا۔
”کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ حَتَّی ذَاقُوا بَاٴْسَنَا“(۱)
وہ در حقیقت اپنے اقوال سے جھوٹ بھی بولتے تھے اور انبیاء کی تکذیب بھی کرتے تھے کیونکہ پیغمبران الٰہی نے صریحی طور پر ہر دور کے بشر کو بت پرستی، شرک اور حلالِ خدا کو حرام قرار دینے سے روکا ہے لیکن ان کے بزرگوں نے اس پر کان دھرا نہ انھوں نے، جب صورتِ حال یہ ہو کہ کس طرح ممکن ہے کہ خاندان کے کرتوتوں پر راضی ہو، اگر خدا ان پر راضی ہوتا تو کس لئے اپنے پیغمبروں کو توحید کی دعوت کے لئے بھیجتا، دراصل دعوت انبیاء خود اس بات کی ایک اہم دلیل ہے کہ انسان اپنے ارادہ وخود مختار ہے۔
اس کے بعد فرماتا ہے: ”ان سے کہو: آیا واقعی کوئی قطعی اور مسلّم دلیل تمھارے پاس اس دعوے کی ہے ؟ اگر ہے تو اسے پیش کیوں نہیں کرتے

“ (قُلْ ھَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوہُ لَنَا )۔
آخر میں مزید فرماتا ہے: ”تم یقینی طور پر کوئی دلیل اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے لئے نہیں رکھتے صرف اپنے خام خیالات کی پیروی کرتے ہو“

(إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ تَخْرُصُونَ)۔
اس کے بعد کی آیت میں مشرکوں کے دعوے کوباطل کرنے کے لئے ایک اور دلیل کا ذکر فرماتا ہے: کہو: خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے بھی اور عقل بشری کے ذریعے بھی توحید اور اپنی یکتائی پر اسی طرح حلال وحرام کے احکام کے بارے میں صحیح اور روشن دلیلیں بیان کی ہیں اور یہ دلیلیں اس طرح کی ہیں کہ ان کے بعد کسی کو عذر کی گنجائش باقی نہ رہ جاتی (قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ)۔
بنابریں وہ لوگ یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرسکتے کہ خدا نے اپنے سکوت سے ان کے ناروا عقائد واعمال پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے نہ ہی وہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں مجبور ہیں کیونکہ اگر مجبور ہوتے تو دلیل قائم کرنا، پیغمبروں کا بھیجنا اور ان کی دعوتیں اور تبلیغیں یہ سب بیکار ہوجاتی ہیں، دلیل کا قائم کرنا خود آزادیٴ ارادہ کی دلیل ہے۔
ضمناً اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرنا چاہیے کہ ”حجت“ در اصل ، حج سے ماخوذ ہے جس کے معنی قد کے ہیں، وہ جادہ وراستہ جس پر انسان کو چلنا مقصود ہو اسے ”محجّہ“ کہتے ہیں، اسی بناپر دلیل وبرہان کو بھی ”حجت“ کہا جاتا ہے کیونکہ اس دلیل کے پیش کرنے والے کا یہ قصد ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے اپنے مطلب کو دوسروں پر ثابت کرے۔
اگر لفظ ”بالغہ“ (آخر تک پہنچنے والی) پر توجہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ خدائے تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لئے عقل ونقل کے ذریعے، علم وذہن کے ذریعے اور اسی طرح روسلوں کے ذریعے ہر حیثیت سے روشن اور ہر ذہن میں اتر جانے والے دلائل پیش کئے ہیں تاکہ لوگوںکے لئے کسی تردید کی گنجائش باقی نہ رہ جائے، اس بناپر خدا نے اپنے پیغمبروں کو ہر طرح کے گناہ واشتباہ سے معصوم قرار دیا ہے تاکہ ان کے لائے ہوئے پیغاموں سے ہر طرح کے شک وشبہ کو دور کرے۔
آخر آیت میں فرماتا ہے: اگر خدا چاہے تو تم سب کو زبردستی ہدایت کرسکتا ہے (فَلَوْ شَاءَ لَھَدَاکُمْ اٴَجْمَعِینَ)۔
در اصل یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کے لئے یہ بات بالکل ممکن ہے کہ تمام انسانوں کی بالجبر ایس ہدایت کردے کہ کسی بندے میں اس کی مخالفت کرنے کی طاقت نہ ہو لیکن ظاہر ہے اس صورت میں ایسے ایمان کی کوئی قیمت باقی رہ جاتی نہ اعمال کی جو جبریہ ایمان کے زیر سایہ پروان چڑھیں بلکہ فضیلت اور انسانی ترقی کا راز یہ ہے کہ انسان ہدایت اور پرہیزگاری کے جادہ پر اپنے قدموں سے چلے اور یہ سفر اپنے ارادہ واختیار سے طے کرے۔
اس بناپر اس جملے میں اور قبل کی آیت میں جس میں جبر کی نفی ہوئی ہے کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ جملہ کہتا ہے: بندوں کو ان کے اعمال میں مجبور کرنا جیسا کہ تم دعویٰ کرتے ہو خدا کے امکان میں ہے، لیکن خدا ہر گز ایسا نہیں کرے گا کیونکہ خدا کی حکمت اور انسانوں کے مفاد کے خلاف ہے۔
بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے قدرت ومشیّتِ الٰہی کو ”مذہب جبر“ اختیار کرنے کا ایک بہانہ بنالیا تھا حالانکہ الله کی مشیت وقدرت دونوں برحق ہیں لیکن ان کا لازمہ جبر نہیں ہے، وہ چاہتا ہے کہ ہم آزاد رہیں اور حق کا راستہ اپنے اختیار سے طے کریں۔
کتاب کافی میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”انّ الله علی النّاس حجّتین حجةٌ ظاہرة وحجة باطنة) فامّا الظاہرة فالرسل والانبیاء والائمة، وامّا الباطنة فالعقول“
”خداوندکریم نے لوگوں کے لئے اپنی دوحجتیں قرار دی ہیں، ایک حجت ظاری دوسری باطنی حجت انبیاء ورسل وآئمہ ہیں اور باطنی حجت انسان کی عقل ہے“(2)
یہ بات بدیہی ہے کہ مذکورہ بالا روایت کا یہ مقصد نہیں کہ حجت بالغہ سے صرف یہی گفتگو مراد ہے جو قیامت میں خدا اپنے بندوں سے کرے گا، خدائے متعال کی بہت سی حجتہائے بالغہ ہیں جن میں سے ایک کا مصداق وہی ہے جس کا ذکر حدیث فوق میں آیا ہے کیونکہ الله کی حجت بالغہ بہت وسیع ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
اس کے بعد آیت میں ان مشرکوں کی باتوں کو واضح تر کرنے اور فیصلہ کرنے کے لئے صحیح اصول کا لحاظ رکھنے لئے انھیں دعوت دیتا ہے کہ اگر ان کے پاس اس بات کے معتبر گواہ ہیں کہ خدا نے ان حیوانات اور زراعتوں کو جن کی تحریم کے وہ مدعی ہیں واقعاً حرام کیا ہے تو ان کو پیش کریں، لہٰذا فرماتا ہے: اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ اپنے گواہوں کو جو ان چیزوں کی تحریم کی گواہی دیں لے آؤ (قُلْ ھَلُمَّ شُھَدَائَکُمْ الَّذِینَ یَشْھَدُونَ اٴَنَّ اللهَ حَرَّمَ ھٰذَا)۔
پھر اس پر اضافہ ہوتا ہے: اگر انھیں ایسے گواہ نہ مل سکیں اور وہ انھیں نہ پاسکیں (جیسا کہ ہر گز نہ پاسکیں گے) اور صرف اپنی ہی گواہی اور دعوے پر اکتفا کریں تو ہر گز ان کے ہم صدا نہ ہونا اور ان کی گواہی اور دعوے کے مطابق گواہی نہ دینا (فَإِنْ شَھِدُوا فَلَاتَشْھَدْ مَعَھُمْ)۔
جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے یہ ظاہر ہوگیا ہوگا کہ پوری آیت میں کسی قسم کا اختلاف یا تضاد موجود نہیں ہے اور یہ بات کہ ابتداء میں ان سے گواہ طلب کئے، اس کے بعد فرمایا کہ ”ان کے گواہوں کی گواہی قبول نہ کرنا“ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ قطعی اور معتبر گواہوں کولانے سے قاصر ہیں کیونکہ انبیائے الٰہی سے اور کتب آسمانی سے یہ امور ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی سند یا ثبوت موجود نہیں ہے، بنابریں یہ خود ہی جو مدعی ہیں گواہی دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس طرح کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔
ان تمام امور کے علاوہ دیگر قرائن اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ تمام خود ساختہ احکام ان لوگوں نے محض اپنی ہوا وہوس کے ماتحت اور کورانہ تقلید کی بناپر گھڑ لئے تھے لہٰذا ان کا کوئی اعتبار نہ تھا۔
اس بناپر اس کے بعد کے جملے میں ارشاد فرمایا: جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے اور جن کا آخرت پر ایمان نہیں ہے اور جنہوں نے خدا کا شریک قرار دیا ہے ان کی ہوا وہوس کی پیروی نہ کرنا (وَلَاتَتَّبِعْ اٴَھْوَاءَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَالَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَھُمْ بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُونَ)۔
یعنی ان لوگوں کی بت پرستی، قیامت کا انکار، خرافاتی رسوم ورواج اور ان کی ہوس پرستیاں اس با ت کی زندہ گواہ ہیں کہ ان کے یہ احکام بھی خود ساختہ ہیں اور ان چیزوں کی تحریم جس کی نسبت یہ خدا کی طرف دیتے ہیں بالکل بے بنیاد اور بے اہمیت ہے۔

۱۵۱ قُلْ تَعَالَوْا اٴَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اٴَلاَّ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَلَاتَقْتُلُوا اٴَوْلَادَکُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاھُمْ وَلَاتَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ۔
۱۵۲ وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّہُ وَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ لَانُکَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ وَبِعَھْدِ اللهِ اٴَوْفُوا ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ ۔
۱۵۳ وَاٴَنَّ ھٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَاتَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ۔
ترجمہ
۱۵۱۔ کہو کہ آؤ جس چیز کو تمہارے پروردگار نے تمہارے اوپر حرام قرار دیا ہے میں تمھیں پڑھ کر سناؤں اور وہ یہ کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ ٹھہرانا اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، اور اپنی اولاد کو تنگدستی (کے خوف) سے ہلاک نہ کرنا، ہم تمھیں اور انھیں دونوں کو روزی دیتے ہیں اور بُرے کاموں کے پاس بھی نہ جانا، چاہے وہ نمایاں ہوں یا چھپے ہوئے، جس جان کو اللہ نے محترم قرار دیا ہے اسے نہ مارنا، الّا یہ کہ حق (استحقاق کی بناپر) ہو، یہ وہ (حکم) ہے جس کی اللہ نے تمھیں تاکید کی ہے، تاکہ تم اسے سمجھو۔
۱۵۲۔ اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا اِلّا یہ کہ بطریقِ احسن (اصلاح کے لیے)ہو، یہاں تک کہ وہ سن تمیز کو پہنچ جائے اور انصاف کے ساتھ ناپ تول کو پورا کرنا، ہم کسی (بندے) پر اس کی استطاعت سے زیادہ ذمہ داری عائد نہیں کرتے، اور جس وقت کوئی بات کرنا تو
یہاں پر صفحہ ۳۸ کی عبارت موجود نہیں ہے۔
۱۵۳۔
 


۱۔ ”کذب“ لغب عرب میں دوسرے کو جھٹلانے اور جھوٹ بولنے دونوں معنوں میں آیا ہے۔
2۔ تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۷۷۶ ۔
دس نصیحتیںوہ چیزیں جو یہودیوں پر حرام ہوئیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma