اہل کتاب کو کوئی قابل اعتنا ضرر نہیں پہنچا سکیں گے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
یہودیوں کی عبر ت ناک داستان فتنہ و فساد کا مقابلہ کرنے اور دعوت حق کی یاد دہانی

لَنْ یَضُرُّوکُمْ إِلاَّ اٴَذیً وَ إِنْ یُقاتِلُوکُمْ یُوَلُّوکُمُ الْاٴَدْبارَ ثُمَّ لا یُنْصَرُونَ
بعض مسلمان اپنی سابقہ کافر قوم کے ہاتھوں مصیبت میں مبتلا تھے وہ انہیں قبول ِ اسلام پر سرزنش وملامت کرتے تھے اور بعض اوقات انہیں دھمکیاں دیتے تھے یہ آیت انہیں بشارت دیتی ہے کہ مخالفین آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور بہت کم ضرر پہنچاتے سکتے ہیں اور بد کلامی سے بڑھ کر کچھ نہیں کر سکتے ۔
ان دونوں آیات میں در حقیقت مسلمانوں کے لئے چند پیشین گوئیاں اور خوش خبریاں ہیں جو تمام کی تمام حضور کے دور میں ظاہر ہوئیں :
۱۔ اہل کتاب کو کوئی قابل اعتنا ضرر نہیں پہنچا سکیں گے اور ان کے معمولی نقصانات زیر پا نہیں ہوں گے۔
(لَنْ یَضُرُّوکُمْ إِلاَّ اٴَذیً )
۲۔جب وہ مسلمانوں کے ساتھ میدان کارزار میں نبرد آزما ہوں گے تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور آخری فتح و کامیابی مسلمانوں کو نصیب ہوگی اور یہودیوںکی حمایت کے لئے کوئی نہیں کھڑا ہو گا ۔( وَ إِنْ یُقاتِلُوکُمْ یُوَلُّوکُمُ الْاٴَدْبارَ ثُمَّ لا یُنْصَرُونَ ) ۔
۳۔یہ کبھی اپنے پاوٴں پر کھڑے نہیں ہوں گے اور ہمیشہ ذلیل و خوار رہیں گے مگر یہ کہ اپنے پروگرام کو تبدیل کریں اور خدا کی راہ پر چلیںیا دوسرے لوگوں سے مل جائیں ااور وقتی طور پر ان کی طاقت سے فائدہ اٹھائیں (ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ اٴَیْنَ ما ثُقِفُوا)۔
بہت جلد یہ تینوں وعدے نبی اکرام کے زمانہ میں پورے ہو گئے خصوصاً حجاز کے یہودی(بنی قریظہ، بنی نضیر ، بنی قینقاع ، بنی مصطلق اور خیر کے یہودی )کئی مرتبہ مسلمانوں کے ساتھ میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوئے اور بالآخر سب شکست سے دو چار ہو کر رو پوش ہو گئے ۔
ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ اٴَیْنَ ما ثُقِفُوا إِلاَّ بِحَبْلٍ مِنَ اللَّہِ وَ حَبْلٍ مِنَ النَّاس۔
ثقفوا کامادہ ثقف (بر وزن سقف ) ہے ۔ اور ثقافت کے لغوی معنی کسی چیز کو مہارت کےساتھ پالنے کے ہیں اور جس چیز کو انسان باریک بینی اور مہارت کے ساتھ حاصل کر لے اس ثقافت کہا جاتا ہے ۔ قرآ ن مجید کے اس جملے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ جہاں کہیں ہوں ذلت کی موت ان کی پیشانی پر ثبت ہو چکی ہے ۔
اگر چہ ان آیات میں یہودیوں کا نام لے کر ان کو نہیں پکارا گیا ، تاہم سورہٴ بقرہ کی آیت ۴۱ / اور ان آیات کے قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ بھی یہودیوں کے بارے میں ہے ۔ اس کے بعد اس جملہ کے ذیل میں کہا گیا ہے کہ صرف دو صورتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ اس ذلت کی مہر کو مٹا سکتے ہیں ۔ پہلی صورت خدا کی طرف بازگشت اور اس سے رشتہ جوڑنا ہے اور اس کے سچے دین پر ایمان لانا ہے (الا بحبل من اللہ ) یا لوگوں سے وابستگی اور ان کا سہارا لیناہے (و حبل من الناس )۔
اگرچہ ان دو تعبیرات(حبل من اللہ و حبل من الناس ) کے بارے میںمفسرین نے کئی احتمالات ذکر کئے ہیں لیکن جو کچھ کہا گیا ہے وہ آیت کے معنی کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے کیوں کہ جس وقت ”حبل من اللہ“ (خدا سے ارتباط )” و حبل من الناس “( لوگوں سے ارتباط) کے مقابلہ میں ہو تو اس سے دو مختلف معنی مراد ہوں گے نہ یہ کہ ان میں سے ایک ایمان لانے کے معنی میں ہے اور دوسر مسلمانوں کی طرف سے ام و امان ہونے کے معنی میں ۔
بنا بر ایں آیت کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہو گا کہ یا تو وہ اپنی زندگی کے پروگرام پر تجدید نظر کریں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں اور اپنے افکار سے شیطنت و کینہ پروری کو مٹا دیں اور یا لوگوں سے وابستگی پیدا کرکے اپنی نفاق آلود زندگی کو جاری رکھیں ۔
وَ باؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّہِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَةُ
با وٴ ا لغت میں رجوع کرنے اور سکونت کرنے کے معنی میں ہے اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ خلاف ورزیوں کی بناء پر خدا کی سزا کی مستحق ہو گئی ہے اور وہ غضب خدا وندی کو اپنی منزل مقصود قرار دے چکی ہے ۔
”مسکنت “ کے معنی ہیں ” بیچارگی“ بالخصوص ایسی سخت بیچارگی جس سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل ہو اور یہ ”سکونت “ کے مادہ سے ہے ۔ کیونکہ مسکین افراد کمزوری اور احتیاج کی وجہ سے اپنی جگہ سے حرکت کی قدرت نہیں رکھتے ۔ البتہ یہ یاد رہے کہ مسکین کا معنیٰ صرف مال و دولت کی وجہ سے محتاج نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی کمزوری اور نا توانی اس کے مفہوم میں داخل ہے ۔ بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ مسکنت و ذلت میں یہ فرق ہے کہ”ذلت “ دوسروں کی طرف سے وارد ہوتی ہے جبکہ ” مسکنت “ کسی شخص کی ذاتی اور اندرونی کم مائیگی وکم بینی کا معنیٰ دیتی ہے ۔
اس لحاظ سے اس جملہ کا معنی یہ ہے کہ یہودی اول تو اپنی کارستانیوں کی وجہ سے دوسروں کی طرف سے دھتکارے گئے ہیں اور غضب خدا میں گرفتار ہوئے ہیں ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ ان کے لئے ایک ذاتی صفت بن گیا ہے ۔ حتیٰ کہ وہ تمام امکانات کے باوجود احساس حقارت میں مبتلا ہیں ۔ اس لئے اس جملہ میں کوئی استثناء موجود نہیں ہے۔
ذلِکَ بِاٴَنَّہُمْ کانُوا یَکْفُرُونَ بِآیاتِ اللَّہِ وَ یَقْتُلُونَ الْاٴَنْبِیاء َ بِغَیْرِ حَقٍّ ۔
آیت کے آخری حصے میں یہودیوں کی بد بختی کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اگر ایسی بد بختی میں گرفتار ہیں تو اس کی وجہ نسلی وخاندانی ہے نہ کہ دوسرے خصوصیات ، بلکہ یہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ کیونکہ اول تو یہ خدا کی آیات کا انکار کرتے تھے اور ثانیاً یہ کہ پیشوایان خلق اور نجات دہندگان بشر کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ مختلف نوعیت کے گناہوں ، ظلم و ستم کرنا، دوسروں کے حقوق پر قبضہ کرنا اور باقی لوگوں کے منافع پر تجاوز کرنے میں مبتلا تھے اور مسلم ہے کہ جو قوم اس قسم کے اعمال کا ارتکاب کرے گی ، اس کی حالت بھی ان سے مشابہ ہوگی ۔

یہودیوں کی عبر ت ناک داستان فتنہ و فساد کا مقابلہ کرنے اور دعوت حق کی یاد دہانی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma