مختلف گروہوں کو الگ الگ پہچانا جانا چاہیے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
منافقین کی بے بنیاد باتیں جنگ احد پر ایک اور نظر

مختلف گروہوں کو الگ الگ پہچانا جانا چاہیے

مندرجہ بالا آیت یہ بات یاد دلاتی ہے کہ ( احد کی طرح) جو مصیبت بھی پیش آتی ہے ایک تو یہ کہ وہ بلا سبب نہیں ہوتی دوسر ا یہ کہ وہ آزمائش کا ذریعہ بھی ہوتی ہے ۔ اسی لئے اس آیت میں سچے مجاہدین اورمنافقین یا کمزور ایمان لوگوں کی صفوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کا ذکر ہے ۔ اسی لئے آیت کے پہلے حصہ میں فرمایا گیا ہے :
وَ ما اٴَصابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعانِ فَبِإِذْنِ اللَّہِ ۔ ۔ ۔ ۔
احد کے دن جب مسلمانوں کا بت پرستوں سے آمنا سامنا ہوا اس وقت جو کچھ تم پر گزرا وہ حکم خدا سے تھا اور اسی کی مشیت اور اردے سے ظہور پذیر ہوا ۔
خلقت کے عمومی قانون کے مطابق ہر واقعے کی کوئی نہ کوئی علت ہوتی ہے اور بنیادی طور پر یہ جہان علل و اسباب کی دنیا ہے اور یہ ایک ثابت و دائمی اصول ہے اور اس کے مطابق بھی کہ جو فوج بھی میدان جنگ میں سستی کرے گی اور مال و دولت اور غنیمت کی لالچ میں پڑ جائے گی اور اپنے ہمدرد حاکم کا حکم فراموش کر دے گی تو وہ شکست کھا جائے گی ۔ اس بنا پر اذن اللہ ( حکم خدا ) سے مراد اس کا وہی ارادہ و مشیت ہے جو قانون علیت کی شکل میں عالم ہستی پر حکم فرما ہے ۔
آیت کے دوسرے حصے میں فرمایا گیا ہے :
وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنینَ وَ لِیَعْلَمَ الَّذینَ نافَقُوا ۔ ۔ ۔
اس جنگ کاایک مقصد یہ تھا کہ مونین اور منافقین کی صفیں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں اور صاھب ایمان اور کمزور ایمان والوں میں امتیاز ہو سکے
واقعہ احد میں مسلمانوں میں سے تین گروہ نمایاں ہو گئے :
پہلا اس میں چند محدود افراد تھے جو آخری لمحوں تک ثابت قدم رہے اور دشمن کے جم غفیر کے سامنے آخری دم تک ڈٹے رہے ۔ ان میں سے بعض نے جام شہادت نوش کیا اور بوض شدید زخمی ہوئے ۔
دوسرا یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں اضطراب اور تزلزل پیدا ہو گیا تھا اور وہ آخر تک استقامت نہ دکھا سکے اور بالآخر بھاگ کھڑے ہوئے ۔
تیسرا یہ منافقین کا گروہ تھا ۔ یہ لوگ راستے ہی سے واپس لوٹ گئے تھے ، طرح طرح کے بہانے کرکے جنگ سے منہ موڑ گئے اور مدینہ کی طرف پلٹ گئے ۔ ہم جلد ہی ان کے بہانوں کا تذکرہ کریں گے ۔ یہ گروہ عبداللہ بن ابی سلول اور اس کے سو ساتھیوں پر مشتمل تھا ۔
اگر احد میں سخت معرکہ پیش نہ آتا تو یہ صفیں کبھی الگ الگ نہ ہوتیں اور ہر گروہ کے لوگ اپنی مخصوص صفات کے باوجود کسی معین صف میں نہ سمجھے جاتے اور ممکن تھا کہدعویٰ کرتے وقت ہر شخص اپنے آپ کو بہترین مومن قرار دیتا ۔
در حقیقت آیت میں دو چیزوں کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ پہلی جنگ احد کی شکست کی علت فاعلی اور دوسری اس کی علت غائی اور اس اک آخری نتیجہ ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں فرمایا گیا ہے : لیعلم الذین نافقوا ( تاکہ وہ لوگ پہچانے جائیں جنہوں نے نفاق کیا ہے ) ۔ یہ نہیں فرمایا : لیعلم المنافقین ( تاکہ منافقین پہچانے جائیں ) ۔ دوسر ے لفظوں میں نفاق کا ذکر فعل کی صورت میں ہوا ہے صفت کے طور پر نہیں ۔ یہ اس لئے ہے کہ نفاق ابھی تک ان سب میں صف ثابت کے طور پر نہیں تھا ۔ اسی لئے تاریخ اسلام میں ہے کہ ان میں سے بعض کو توبہ کی توفیق نصیب ہوئی اور وہ مومنین کی صفوں میں وابستہ ہوگئے ۔
اس کے بعد قرآن اس گفتگو کا تذکرہ کرتا ہے جو جنگ سے قبل منافقوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی ۔ فرمایا :
وَ قیلَ لَہُمْ تَعالَوْا قاتِلُوا فی سَبیلِ اللَّہِ اٴَوِ ادْفَعُوا
ایک مسلمان ( ابن عباس کے قول کے مطابق عبد اللہ بن عمر بن حزام ) نے جب دیکھا کہ عبد اللہ بن ابی سلول اپنے ساتھیوں کے ساتھ لشکر اسلام سے کنارہ کش ہو کر مدینہ کی طرف پلٹنے کی طرف مصمم ارادہ کر چکا ہے تو اس سے کہا : آوٴ خدا کے لئے اور اس کی راہ میں جنگ کرو یا کم از کم جو خطرہ تمہارے وطن اور قوم و قبیلہ کو در پیش ہے اس کا ہی دفاع کرو ۔
مگر ان لوگوں نے ایک بے ہودہ بہانہ کیا اور کہنے لگے : لو نعلم قتا لا ً لا تبعنا کم ۔ہمیں اگر معلوم ہوتا کہ جنگ ہو گی تو ہم بے دریغ تمہاری پیروی کرتے ، ہمارا خیال ہے کہ یہ سختی کسی جنگ اور خوں ریزی کے بغیر ختم ہو جائے گی ۔
ٰایک اور مفہوم کے مطابق منافقین کہنے لگے : اگر ہم اسے جنگ سمجھتے تو تمہارا اتھ دیتے لیکن ہماری نگاہ میں تو یہ جنگ نہیں بلکہ ایک طرح کی خود کشی ہے کیونکہ لشکر اسلام اور کفارمیں جو عدم توازن نظر آ رہا ہے اس کے پیش نظر ان سے جنگ کرنا عقلمندی کا کام نہیں خصوصاً جبکہ لشکر اسلام کے پڑاوٴ کی جگہ بھی نا مناسب ہے ۔
بہر حال یہ باتیں بہانے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی تھیں ۔ جنگ کا ہونا بھی تعیینی تھا اور مسلمان ابتداء میں کامیاب اور فتح مند بھی ہو گئے تھے ۔ اب اگر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو یہ ان کے اپنے اشتباہات اور خلاف ورزیوں کا نتیجہ تھا ۔ خدا تعالی ٰ نے فرمایا :وہ جھوٹ بولتے ہیں ، ْ ہُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اٴَقْرَبُ مِنْہُمْ لِلْإیمانِ ۔۔۔ ااس روز وہ ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے ۔اس جملہ سے ضمناً یہ بھی معلام ہوتا ہے کہ کفر و ایمان کی کئی درجے ہیں جو انسان کے عقیدے اور طرز عمل سے وابستہ ہیں ۔
یَقُولُونَ بِاٴَفْواہِہِمْ ما لَیْسَ فی قُلُوبِہِم۔۔۔ وہ زبان سے ایسی بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے اور ان کی نیت ان کی گفتگو سے بالکل میل نہیں کھاتی ۔ انہوں نے اپنی اس تجویز میں اصرار کرتے ہوئے کہ جنگ مدینے کے اندر ہونی چاہیے ، یا دشمن کے حملوں کے خوف سے اور ای پھر اسلام سے لا تعلق ہونے کی وجہ سے جنگ میں شرکت نہیں کی ۔ْ وَ اللَّہُ اٴَعْلَمُ بِما یَکْتُمُونَ ۔لیکن خدا اس سے مکمل طور پر آگاہ ہے جو کچھ منافقین چھپائے ہوئے ہیں اور وہ اس جہان میں بھی ان کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو ان کے مقاصد سے آگاہ کرتا ہے اور آخرت میں بھی ان کا حساب چکائے گا ۔

 ۱۶۸۔الَّذینَ قالُوا لِإِخْوانِہِمْ وَ قَعَدُوا لَوْ اٴَطاعُونا ما قُتِلُوا قُلْ فَادْرَؤُا عَنْ اٴَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ إِنْ کُنْتُمْ صادِقینَ۔
۱۶۸۔ ( منافقین ) وہ ہیں جنہون نے اپنے بھائیوں سے ان کی حمایت سے دستکش ہو کر کہا کہ اگر وہ ہماری پیروی کرتے تو قتل نہ ہوتے ۔ کہہ دو ( کیا تم لوگوں کی پیش بینی کر سکتے ہو تو ) پھر موت کو اپنے آپ ہی سے دور کر لو ، اگر تم سچے ہو ۔

 

منافقین کی بے بنیاد باتیں جنگ احد پر ایک اور نظر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma