مسلمانوں کی تطہیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
قید بند کا بھاری طوق ایک ادبی نکتہ

مسلمانوں کی تطہیر

واقعہ احد سے پہلے منافقین کا موضوع مسلمانوں میں زیر بحث نہیں آیا تھا اسی لئے وہ زیادہ تر کفار ہی کو اپنا دشمن سمجھتے تھے لیکن احد کی شکست کے بعد سچے مسلمانوں کی وقتی کمزوری اور منافقین کی کار کردگی کے لئے زمین ہموار ہو جانے پر انہیں سمجھ آیا کہ ان کے اور بھی خطر ناک دشمن ہیں جن پر کڑی نگاہ رکھنا پڑے گی ۔ یہ خطرناک دشمن منافق تھے ۔ جنگ احد کے نتائج میں سے یہ ایک اہم نتیجہ تھا ۔
زیر نظر آیت جو اس مقام پر واقعہ احد کے سلسلے کی آخری آیت ہے اس حقیقت کو ایک عمومی قانون کی صورت میں بیان کرتے ہوئے کہتی ہے :
ما کانَ اللَّہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی ما اٴَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتَّی یَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّیِّبِ
ممکن نہیں کہ خدا مومنین کو اسی حالت میں رہنے دے جس میں تم ہو اور ان کی تطہیر نہ کرے اور طیب کو خبیث سے ممتاز نہ کر دے ۔ یہ حکم سب کے لئے ایک جیسا اور عمومی ہے ۔ پرور دگار کی ایک دائمی سنت ہے کہ جو شخص ایمان کا دعویٰ کرے اور مسلمانوں میں مل جل کر رہنے لگے اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے یہاںتک کہ پے در پے خدائی آزمائش سے آخر کار اس اندرونی راز فاش ہو جائیں گے ۔
ممکن تھا یہاں یہ سوال کیا جاتا ( اور بعض روایات کے مطابق کچھ مسلمانوں نے ایسا سوال کیا بھی ) کہ وہ خدا جو سب کے مخفی اسرار سے آگاہ ہے اس کے لئے کیا رکاوٹ ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی کیفیت سے آگاہ کرے اور علم غیب کے ذریعہ مومن اور منافق میں تمیز کر دی جائے ۔
آیت کا دوسرا حصہ اسی سوال کا جواب ہے جس میں فرمایا گیا ہے :ِ وَ ما کانَ اللَّہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ ۔ یعنی خدا تمہیں پوشیدہ راز اور علم غیب نہیں دے گا کیونکہ مخفی اسرار پر آگاہی عام لوگوں کے خیالات کے بر عکس مشکل کو حل نہیں کرتی بلکہ بہت سے مواقع پر رازوں کے عیاں ہو جانے سے ہرج مرج کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ،اجتماعی گرہیں کھل جاتی ہیں امید کے چراغ بجھ جاتے ہیں اور عام لوگ سعی و کاوش چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔
سب سے اہم یہ ہے لوگوں کی قدر و قیمت کا تعین ان کی کار کردگی کے حوالے سے ہونا چاہیے کسی اور طریعہ سے نہیں ۔ ۱
اس کے بعد مذکورہ حکم سے انبیاء الہی کا استثناء یوں بیان کیا گیا ہے :
وَ لکِنَّ اللَّہَ یَجْتَبی مِنْ رُسُلِہِ مَنْ یَشاء ۔۔۔
خدا جب چاہتا ہے اپنے پیغمبروں میں بعض کو منتخب کرتا ہے اور لا متناہی علم غیب کے کسی گوشے سے انہیں مطلع کر دیتا ہے اور لوگوں کے ایسے اسرار کی انہیں خبر دیتا ہے جن سے آگا ہی ان کے رہبری کی تکمیل کے لئے ضرور ہوتی ہے ۔ لیکن بہر حال کلی و عمومی اور دائمی قانون یہی ہے کہ لوگوں کی پہچان کا آئینہ ان کے اعمال ہی میں ہے ۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر ذاتی طور پر عالم غیب نہیں ہوتے نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کوہ خدا کے عطا کردہ علم کے ذریعے بعض غیبی امور سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ لہذا کچھ ایسے افراد ضرور ہیں جو غیب سے آگاہ ہوتے ہیں اور وہ کس قدر آگاہ ہیں یہ بات خدا کی مشیت سے وابستہ ہے ۔
کہے بغیر واضح ہے کہ اس آیت میں بھی مشیت سے مراد دیگر آیات کی طرح وہی ارادہ ہے جس میں حکمت و مصلحت کار فرما ہوتی ہے ۔ یعنی خدا جسے اہل سمجھتا ہے اور اس کی حکمت کا تقاض اہوتا ہے اسے اسرار غیب سے آگاہ کر دیتا ہے ۔
ُ فَآمِنُوا بِاللَّہِ وَ رُسُلِہِ وَ إِنْ تُؤْمِنُوا وَ تَتَّقُوا فَلَکُمْ اٴَجْرٌ عَظیمٌ ۔
آیت کے آخر میں یہ بات ذہن نشین کروائی گئی ہے کہ یہ زندگی ایک آزمائش ہے ، اس میں پاک اور نا پاک کو جدا جدا کر دیا جاتا ہے اور مومن و منافق میں تمیز کی جاتی ہے تو پھر تم اس آزمائش کی کٹھالی سے اچھی طرح سے نکل آوٴ اور خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لے آوٴ ۔
آیت میں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ مومن کو طیب ( پاکیزہ ) قرار دیا گیا ہے ۔ ہم جانتے ہیں پاکیزہ اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی پہلی خلقت پر برقراررہے اور خارجہ چیزیں اسے خبیث اور نا پاک نہ کریں ۔ پاکیزہ پانی ، پاکیزہ کپڑا اور دیگر اشیاء تب پاکیزہ ہیں جب انہیں خارجی آلودگی کے عوامل نہ لگیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان انسان کی پہلی فطرت ہے ۔

۱۸۰۔ وَ لا یَحْسَبَنَّ الَّذینَ یَبْخَلُونَ بِما آتاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَیْراً لَہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَہُمْ سَیُطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیامَةِ وَ لِلَّہِ میراثُ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ وَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ خَبیرٌ ۔

ترجمہ
۱۸۰۔ جو بخل کرتے ہیں اور خدانے اپنے فضل و کرم سے جو کچھ دیا ہے خرچ نہیں کرتے وہ یہ گمان نہ کریں کہ ان کے لئے کوئی اچھی چیز ہے بلکہ ان کے لئے بری چیز ہے ۔ بہت جلدی روز قیامت جن کے بارے میں انہوں نے بخل کیا ہے وہی چیزیں طوق کی طرح ان کی گردن میں ڈال دیں گے اور آسمانوں اور زمین کی میراث خدا کے لئے ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ۔

 


۱ ۔ولنبلونکم بشیء من الخوف و الجوع ۔ ۔۔ ( بقرہ ۔ ۱۵۵ ) کی تفسیر میںخدا کی آزمائش کے تذکرے میںاس بات کا تفصیلی جائزہ لیا جا چکا ہے کہ
خدا کی آزمائش ایک طرح کی تربیت ہیں نہ کہ خدا ان کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے ۔ مزید وضاحت کے لئے مذکورہ آیت کی تفسیر دیکھئے ۔
 
قید بند کا بھاری طوق ایک ادبی نکتہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma