خود پسندی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
آیات کی اہمیتعلماء کی عظیم ذمہ داری

خود پسندی

لا تَحْسَبَنَّ الَّذینَ یَفْرَحُونَ بِما اٴَتَوْا وَ یُحِبُّونَ اٴَنْ یُحْمَدُوا بِما لَمْ یَفْعَلُوا ۔۔۔
برے کام کرنے والے لوگ دو طرح کے ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو حقیقتا ً اپنے اعمال پر شرمندہ ہیں اپنی سرشت و جبلت کی سر کشی کی وجہ سے برائیوں اور گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی نجات بہت بہت ہی آسان ہے کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ گناہ کے بعد پشیمان ہوتے ہیں اور ان کا بیدار وجدان انہیں سر زنش کرتا ہے ۔
دوسرے وہ ہیں جو نہ صرف یہ کہ احساس ندامت نہیں کرتے بلکہ وہ مغرور اور خود پسند ہوتے ہیں اور اپنے قبیح اور سنگین گناہوں پر خوش ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان پر فخر و مباپات کرتے ہیں اور پھر اس سے بھی آگے وہ یہ خواہش کرتے ہیں کہ لوگ ان کی تعریف ایسے نیک کاموں کے ضمن میں کریں جو انہوں نے انجام بھی نہیں دئے ۔
مندرجہ بالا آیت کہتی ہے :
یہ گمان نہ کرو کہ ایسے لوگ جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انہوں نے جو کام نہیں کئے ان ( کاموں ) کی وجہ سے ان کی عزت کی جائے اور شان و شوکت بیان کی جائے کہ وہ عذاب خدا سے دور ہیں اور نجات پا لیں گے حالانکہ نجا ت تو ان اشخاص کے لئے ہے جو کم از کم اپنے برے کاموں پر شرمندہ ہیں اور یہ سوچ کر وہ نیک کام نہیں کر سکتے ، پشیمان ہیں ۔
و لھم عذاب الیم ۔
نہ صرف اس قسم کے خود پسند اور مغرور افراد نجات کے حقدار نہیں ہیں بلکہ درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے ۔
بہت ممکن ہے کہ اس آیت سے یہ بات سمجھی جائے کہ یہ ان نیک کاموں پر اظہار مسرت کے بارے میں ہے جن کے انجام دینے کی ہمیں توفیق دی گئی ہے ۔ اگر یہ خوش اعتدال کی حالت میں ہو اور غرور کا سبب نہ بنے تو یہ قابل ندمت نہیں ہے ۔ اسی طرح ان نیک کاموں کے سلسلے میں جو انجام پا چکے ہیں اظہار مسرت کرنا اگر وہ بھی اعتدال کی حد میں ہو اور اس کا سبب اس کے اپنے اعمال نہ ہوں تو یہ بھی مذموم نہیں ہے کوینکہ یہ انسانی فطرت ہے لیکن اس کے باوجود خدا کے دوست یعنی وہ افراد جو ایمان کی بلندسطح پر فائز ہیں اور اس قسم کی مسرت و شادمانی سے دور رہتے ہیں وہ ہمیشہ اپنے اعمال کو کمتر سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو عظمت پر ور دگار کے سامنے ھیچ محسوس کرتے ہیں ۔
ضمنا ً یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ مندرجہ بالا آیت صرف ان منافقوں کے ساتھ ہی مخصوس ہے جو صدر اسلام میں تھے یا اسی قسم کے اور لوگ بلکہ وہ تمام افراد جو ہمارے زمانے میں مختلف اجتماعی حالات و کیفیات میں رہتے ہیں اور اپنے برے اعمال پر خوش ہیں یا جو لوگوں کو ابھارتے ہیں کہ وہ قلم اور زبان سے ان کے اعمال کی تعریف کریں وہ سب سکے سب اس آیت کے مفہوم ومطلب میں شامل ہیں ۔ ایسے لوگوں کا نہ صرف آخرت عذاب منتظر ہے بلکہ وہ دنیا وی زندگی میں بھی لوگوں کے غیظ غضب کی وجہ سے مخلوق خدا سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور طرح طرح کی مشکلات کا نشانہ ہیں ۔
و ملک السمٰوٰت و الارض و اللہ علیٰ کل شیء قدیر ۔
خدا آسمان و زمین کا مالک ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ یہ آیت مومنین کے لئے خوشخبری اور کافروں کے لئے دھمکی ہے ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ مومن ترقی کے لئے ٹیڑھے راستوں پر چلیں اور جو کام انہوں نے نہیں کیا اس کی تعریف چاہیں ۔ہاں وہ یہ کر سکتے ہیں کہ آسمان و زمین کے مالک خدا کی قدرت کے سائے میں رہتے ہوئے جائز اور صحیح طریقوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں نیز بد کار اور منافق لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ ٹیڑھے راستوں
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی حیثیت اور مقام حاصل کرلیں تو وہ یہ تصور نہ کریں ۔کیونکہ وہ اس خدا کے عذاب سے جس کی تمام موجودات پر حکومت ہے نجات حاصل نہ کرسکیں گے ۔

۱۹۰۔ إِنَّ فی خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ وَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَ النَّہارِ لَآیاتٍ لِاٴُولِی الْاٴَلْبابِ۔

۱۹۱۔الَّذینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیاماً وَ قُعُوداً وَ عَلی جُنُوبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُونَ فی خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ ہذا باطِلاً سُبْحانَکَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ۔
۱۹۲۔رَبَّنا إِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اٴَخْزَیْتَہُ وَ ما لِلظَّالِمینَ مِنْ اٴَنْصارٍ۔
۱۹۳۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِیاً یُنادی لِلْإیمانِ اٴَنْ آمِنُوا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنا فَاغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّئاتِنا وَ تَوَفَّنا مَعَ الْاٴَبْرارِ۔
۱۹۴ ۔رَبَّنا وَ آتِنا ما وَعَدْتَنا عَلی رُسُلِکَ وَ لا تُخْزِنا یَوْمَ الْقِیامَةِ إِنَّکَ لا تُخْلِفُ الْمیعاد۔
ترجمہ
۱۹۰۔بے شک زمین و آسمان کی تخلیق اور رات دن کے آنے جانے میں صاحبان عقل کے لئے (روشن ) نشانیاں ہیں ۔
۱۹۱۔ وہ لوگ خدا کو اٹھتے بیٹھتے اور اس وقت جبکہ وہ پہلو کے بل لیٹے ہوں یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش کے اسرار میں غور فکر کرتے ہیں اور

 ( کہتے ہیں ) اے خدا !تو نے ہمیں فضول پیدا نہیں کیا ، تو پاک ہے ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔
۱۹۲۔ پالنے والے جس کو تونے ( اس کے اعمال کی وجہ سے ) آگ میں ڈال دیا اسے تو نے ذلیل و خوارکیا اس قسم کے ظالم لوگوں کا کوئی مدد گار نہیں ۔
۱۹۳ ۔ اے پروردگار ! ہم نے توحید کے منادی کی آواز سنی ہے ، جو پکار رہا تھا کہ اپنے پالنے والے پر ایمان لاوٴ اور ہم ایمان لے آئے ( اب جبکہ ایسا ہے ) اے خدا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری کوتاہیوں کی پردہ پوشی کردے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ ( ان کے راستے پر ) موت دینا ۔
۱۹۴ ۔ اے خالق ! جس چیز کا تونے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہم سے وعدہ کیا ہے وہ ہمیں مرحمت فرما اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا کیونکہ تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔

آیات کی اہمیتعلماء کی عظیم ذمہ داری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma