خدا شناسی کا روشن ترین راستہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
اہل خرد کے اعمال کا نتیجہ آیات کی اہمیت

خدا شناسی کا روشن ترین راستہ

إِنَّ فی خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ ۔۔۔
قرآنی آیات صرف پڑھنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ لوگوں کے سمجھنے اور ادراک کے لئے نازل ہوئی ہیں ۔ ان کی تلاوت تو انہیں سمجھنے کی تمہید ہے ۔ اس لئے تو مندرجہ بالا آیت میں آسمان و زمین کی عظمت کا تذکرہ ہے اور فرمایا گیا ہے : آسمان و زمین کی خلقت اور روز وشب کی آمد و رفت میں صاحبان عقل و خرد اور اہل نظر کے لئے واضح نشانیاں ہیں ۔ 1
یہ کہہ کر لوگوں کو اس عظیم خلقت میں غور و فکر کے لئے ابھارا گیا ہے تا کہ ہر شخص اپنی استعداد اور پیمانہ ٴ فکر کے مطابق بے کنار سمندر سے اپنا حصہ لے اور اسرار آفرینش کے شفاف چشمے سے سیراب ہو ۔ یہ حقیقت ہے کہ جہان آفرینش کے بدیع بقوش ، دلکش تصویریں اور اس پر حاکم خیرہ کرنے والا نظام ایک بڑی کتاب ہے جس کا حرف حرف اور لفظ لفظ اس عالم کے پیدا کرنے والے کے وجود اور اس کی یکتائی کی بہت ہی واضح دلیل ہے ۔ 2
الَّذینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیاماً وَ قُعُوداً
اس جہان کے گوشہ و کنار کی جو رعنائی اور دلکشی وسیع عالم ہستی میں دکھائی دیتی ہے وہ صاحبان عقل کے دلوں کو یوں جذب کرتی ہے کہ وہ کھڑے ہوں یا بیٹھے ، بستر پر محو آرام ہوں یا پہلو کے بل لیٹے ہوں اس نظام کے خالق اور اس کے اسرار کی یاد میں مگن ہوتے ہیں ۔ لہذا مندرجہ بالا آیت میں ارشاد الہی ہے : عقلمند وہ ہیں جو قیام میں ہوں یا قعود میں یا پہلو کے بل محو استراحت خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کے اسرار میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں یعنی ہمیشہ اور ہر حالت میں اس حیات بخش فکر میں غوطہ زن رہتے ہیں ۔
اس آیت میں پہلے ذکر کا تذکرہ ہے اور پھر فکر کا یعنی صرف خدا کو یاد کرنا کافی نہیں ۔ یہ تذکر اس وقت بہترین ثمر کا حامل ہوگا اگر اس کے ساتھ غور و فکر بھی شامل ہو ۔ جیسے آسمان و زمین کی خلقت پر غور کرنے میں یاد خدا شامل نہ ہو تو یہ غور و فکر بھی کسی کام کا نہیں ۔
ایسے کتنے ہی صاحبان علم و دانش ہیں جو فلکیات کا مطالعہ کرتے ہیں اور آسمانی کرات کی خلقت کے باہمی ربط میں عجیب و غریب نظم ضبط کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ یاد خدا سے غافل ہوتے ہیں اور توحید کی عینک ان کی آنکھوں پر نہیں ہے اور وہ عالم ہستی کو مبداء عالم کی شناسائی کے زاوئے سے نہیں دیکھتے لہذا وہ انسانی تربیت کا لازمی نتیجہ اس مشاہدہ سے اخذ نہیں کر پاتے ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایسی غذا کھاتا ہے جو صرف اس کے جسم کو تقویت بخشتی ہے اور اس کی فکر و نظر اور روح پر کوئی اثر نہیں کرتی ۔
ربنا ما خلقت ھذا باطلا
خلقت انسان و زمین میں غورو فکر کرنے سے انسان کو ایک خاص آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔ اس تفکر کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اس طرف متوجہ ہوتا ہے کہ مخلوق بے کار ، فضول اور مہمل نہیں ہے کیونکہ جب انسان اس جہان کی چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی ایک عظیم مقصد کا مشاہدہ کرتا ہے تو کیا پھر وہ ی باور کر سکتا ہے کہ سارے کا سار جہان بغیر کسی ہدف و مقصد کے ہو ۔
انسان کو گھاس کے تنے کی مخصوص ساخت میں واضح اغراض و مقاصد دکھائی دیتے ہیں ۔ انسان کا دل ، دل کی گہرائیاں اور دریچے ہر کوئی ایک پرو گرام کا حامل ہے ۔ آنکھ کے طبقوں کی ساخت کسی مقصد کے بغیر نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ پلکوں اور ناخنوں تک ایک معین مقصد کے حامل ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ جس موجود کا ذرہ ذرہ مقصد و ہدف کا حامل ہو وہ خود مجموعی اعتبار سے بالکل بے مقصد ہو۔
اسی لئے تو صاحبان عقل اس زنزمہ پر سر دھنتے ہیں کہ اے خدا وند عالم تو نے اس عظیم کار خانے کو فضول پیدا نہیں کیا ، بار الہٰا ! یہ اتنا بڑا جہان اور ایہ عجیب و غریب نظام سب کا سب تیری وحدانیت کی نشانیاں ہیں اور تو عبث و فضول کام سے منزہ اور پاک ہے ۔
فقنا عذاب النار
عالم خلقت میں مقصد کے وجود کا اعتراف کرنے کے فورا ً بعد صاحبان عقل و خرد اپنی خلقت کو یاد کرنے لگتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان جو اس جہان ہستی کا ثمرہ ونتیجہ ہے عبث نہیں پیدا کیا گیا اور مقصد اس کی تربیت اور تکامل کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا اور وہ اس جہان کی جلد گزر جانے کے بعد والی اور بے قیمت زندگی ہی کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے آگے ایک اور گھر ہے جہاں اس کے اعمال کی جزا و سزا ہو گی ۔ جب اہل عقل یہ سوچتے ہیں تو اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ وہوتے ہیں اور خدا سے ان کی انجام دی کی توفیق کا تقاضا کرتے ہیں تا کہ وہ عذاب الہی سے مامون ہو جائیں ۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں : خدا وندا ! ہمیں آتش جہنم سے بچا لے ۔
رَبَّنا إِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اٴَخْزَیْتَہُ وَ ما لِلظَّالِمینَ مِنْ اٴَنْصارٍ۔
بار الٰہا ! جسے تو ( اس کے اعمال کے نتیجے میں ) دوزخ میں ڈال دے اسے تو نے رسوا و ذلیل کر دیا اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہو گا ۔
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبان عقل جہنم کی آگ کی نسبت رسوائی سے زیادہ ڈرتے ہیں اور وحشت زدہ ہیں ۔ بڑے انسان ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ وہ رنج و غم اور دکھ درد تو برداشت کرنے کو آمادہ ہوتے ہیں لیکن اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں ۔ اس لئے ایسے لوگوں کی نظر میں روز قیامت درد ناک ترین عذاب خدا اور بندوں کے سامنے رسوا اور ذلیل ہونا ہے ۔
” وَ ما لِلظَّالِمینَ مِنْ اٴَنْصارٍ“ میں جو نکتہ پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ صاحبان بصیرت غرض آفرینش سے آگاہی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسان کی کامیابی اور نجات کا ذریعہ صرف اس کے اعمال و کردار ہیں ۔ اس لئے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہو سکتا کیونکہ اصلی مدد گار تو نیک عمل ہے جسے وہ گنوا بیٹھے ہیں ۔
لفظ ”ظلم “ یہاں پر اس لئے ہے کہ ظلم گناہوں میں زیادہ اہم گناہ ہے اور یا اس لئے ہے کہ تمام گناہوں کا مطلب اپنے اوپر ظلم کرنا ہی ہے ۔
البتہ آیت شفاعت ( حقیقی مفہوم میں ) کے منافی نہیں ہے کیونکہ ۔جیسا کہ ہم شفاعت کے ضمن میں کی گئی بحث میں کہہ چکے ہیں کہ شفاعت مخصوص آمادگی کی محتاج ہے اور آمادگی کچھ نیک اعمال کے ذریعے ہی پیدا ہو سکتی ہے ۔
رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِیاً یُنادی لِلْإیمانِ اٴَنْ آمِنُوا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا
صاحبان عقل و خرد مقصد تخلیق جان لینے کے بعد اس نکتے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ نشیب فراز کے اس راستے کو خدائی رہنماوٴں کی رہبری کے بغیر ہر گز طے نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی لئے وہ ہر وقت ایمان اور صداقت کے مندیوں کی ندا سننے کے منتظر رہتے ہیں ۔
جب ان کی پہلی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہے تو وہ ان کی طر ف لپکتے ہیں ، ضروری غور و فکر اور جستجوکے بعد ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور اپنے پورے وجود کے ساتھ ایمان لے آتے ہیں ۔ لہذا وہ اپنے پر ور دگار کے سامنے عرض کرتے ہیں : بار الہا ! ہم نے توحید کے منادی کی آواز سنی جو ہمیں ایمان کی طرف دعوت دے رہا تھا اس کے بعد ہم ایمان لے آئے ۔
رَبَّنا فَاغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّئاتِنا وَ تَوَفَّنا مَعَ الْاٴَبْرارِ۔
بار الہا ! جب معاملہ اس طرح سے ہے اور ہم مکمل طور پر ایمان لے آئے ہیں لیکن ہم غرائز انسانی اور خواہشات نفسانی کے شدید طوفانوں اور آندھیوں کی زد میں ہیں اس لئے ہم سے لغزشیں سر زد ہو جاتی ہیں اور ہم مختلف گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ۔ اس لئے ہمیں بخشش دے ، ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہماری کوتاہیوں کی پردہ پوشی کر دے ۔ ہمیں نیک اور صالح لوگوں کے راستے پر مرنے کی سعادت عطا فرما ۔
اہل عقل انسانی معاشرے سے وابستہ ہیں مگر فرد پرستی سے بیزار ہیں ۔ وہ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ نہ صرف ان کی زندگی نیک لوگوں کے ساتھ ہو بلکہ ان کی موت بھی ، چاہے وہ طبیعی موت ہو یا راہ خدا میں شہادت نیک لوگوں کے ساتھ ہو اور انہی کے طور طریقہ کے مطابق ہو ۔ کیونکہ بروں کے ساتھ مرنا بھی دوبھر ہے ۔
یہاں سوال پیش آتا ہے کہ گناہوں سے بخشش کے تقاضے کے ساتھ برائیوں پر پردہ پوشی اور ان کی بخشش کے کیا معنی ہیں ۔
قرآن حکیم کی دیگر آیات کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے ۔ سورہ نسا ء کی آیت ۳۱ یوں ہے :
ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ فکفر عنکم سیئاتکم
اگر گناہان کبیرہ سے اجتناب کرو تو ہم تمہاری برائیوں کی پردہ پوشی کریں گے اور انہیں محو کر دیں گے ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیئات گناہان کبیرہ کو کہا جاتا ہے ۔ اس لئے اہل عقل پہلے تو اللہ سے سے بڑے گناہوں کی مغفرت کا تقاضا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی گناہان صغیرہ کے خاتمے کی دعا کرتے ہیں ۔
رَبَّنا وَ آتِنا ما وَعَدْتَنا عَلی رُسُلِکَ ۔۔۔
وہ لوگ آخری مرحلے میں راہ توحید طے کرنے ، روز قیامت پر ایمان لانے ، پیغمبروں کی دعوت قبول کرنے اور اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد خدا سے تقاضا کرتے ہوئے کہتے ہیں : اب جب ہم اپنا عہد و پیمان پورا کر چکے ہیں ، بار الہا ! تو نے اپنے پیغمبروں کی معرفت ہم سے جو وعدہ فرمایا ہے اور خوش خبری دی ہے اس کو پورا فرما اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا کیونکہ تو جس چیز کا وعدہ کرتا ہے اس میں وعدہ خلافی نہیں ہو سکتی ۔
رسوا نہ ہونے کی خواہش پھر سے اظہار اس حقیقت کی تاکید کرتا ہے کہ وہ لوگ اپنی شخصیت کی اہمیت کے قائل ہیں اس لئے وہ رسوائی کو درد ناک ترین سزاوٴں میں سے سمجھتے ہیں لہذا وہ پھر اسی پر انگشت رکھتے ہیں ۔
امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
جس شخص کو کوئی مہم درپیش ہوا ہو اور وہ پانچ مرتبہ ” ربنا “ کہے تو خدا اسے اس چیز سے رہائی بخشے گا جس سے وہ خوف زدہ ہے اور وہ جو جس چیز کی امید رکھتا ہے اسے پا لے گا ۔
کسی نے عورض کیا :
وہ پانچ مرتبہ کس طرح ” ربنا “ کہے ۔
آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
ان آیات کو پڑھے جن میں پانچ مرتبہ ” ربنا “ آتا ہے ، تو فورا ً ہی پروردگا کی طرف سے دعا قبول کر لی جاتی ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے : فا ستجبان لھم ربھم ۔
کچھ کہے بغیر واضح ہے کہ ان آیات کی حقیقی اور گہری تاثیر اسی صورت میں ہے جب انسان کی زبان اس کے دل اور عمل سے ہم آہنگ ہو۔ اہل خرد کی طرز فکر ، خدا سے ان کا عشق ، ذمہ داریوں کی طرف ان کی توجہ اور نیک اعمال کی انجام دہی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دعا کرنے والوں کو یہی راہ اپنانا چاہیے اور وہی خشوع وخضوع پیدا کرنا چاہیے جو اہل عقل خدا سے مناجات کرتے وقت پیدا کرتے ہیں ۔

 ۱۹۵ ۔ فَاسْتَجابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اٴَنِّی لا اٴُضیعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثی بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ فَالَّذینَ ہاجَرُوا وَ اٴُخْرِجُوا مِنْ دِیارِہِمْ وَ اٴُوذُوا فی سَبیلی وَ قاتَلُوا وَ قُتِلُوا لَاٴُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّئاتِہِمْ وَ لَاٴُدْخِلَنَّہُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ ثَواباً مِنْ عِنْدِ اللَّہِ وَ اللَّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الثَّوابِ ۔
ترجمہ
۱۹۵ ۔خدا نے ان ( صاحبان عقل ) کی درخواست قبول کر لی ہے اور فرمایا ہے کہ میں تم میں سے عمل کرنے والے کے عمل کو چاہے وہ عورت ہو یا مرد ضایع نہیں کروں گا ، تم سب ایک ہی نوع میں سے ہو اور ایک دوسرے کی جنس ہو ۔ جنہوں میں راہ خدا میں ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دئے گئے اور انہوں نے میری راہ میں تکلیف اور اذیت کا سامنا کیا ہے اور جنگ کی ہے اور مارے گئے ہیں ۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے گناہ بخش دوں گا ااور انہیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ یہ خدا کی طرف سے ثواب ہے اور خدا ہاں بہترین ثواب ہے ۔


شان نزول

یہ آیت گذشتہ آیت کا ضمیمہ ہے ۔ اس میں صاحبان عقل و خرد کے اعمال کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے ۔ آیت کے شروع میں فاء تفریع اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ گذشتہ آیات سے مربوط ہے ۔ اس کے باوجود اسکے بارے میں کئی ایک شان نزول مروی ہیں ۔ لیکن یہ بات اسکے گذشتہ آیات سے مربوط ہونے کے منافی نہیں ہے ۔
ایک شان نزول یہ ہے کہ رسول اللہ کی ایک زوجہٴ محترمہ جناب ام سلمہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن میں مردوں کے جہاد ، ہجرت اور فدا کاری کی بہت گفتگو ہے ، کیا عورتوں کا بھی اس میں کوئی حصہ ہے ۔ زیر نظر آیت اسی سوال کے جواب میں نازل ہوئی ۔
یہ بھی منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ بنت اسد ، فاطمہ بنت رسول اللہ اور فاطمہ بنت زبیر ( جنہیں فواطم کہا جاتا ہے ) کے ہمراہ ہجرت کی اور ام ّایمن جو ایک صاحب ایمان خاتون تھیں راستے میں آپ (علیه السلام) سے آملیں تو مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی ۔
جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ شانہائے نزول اس بات کے منافی نہیں کہ زیر نظر آیت گذشتہ آیات سے مربوط ہے جیسے دونوں شانہائے نزول بھی ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں ۔

 


1 ۔ قرآن میں ” اولو الالباب “ زیر نظر آیت کے علاوہ بعض دیگر آیات میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ یہ صاحبان عقل کے لئے لطیف اشارہ ہے کیونکہ ” لب “ در اصل ہر چیز کے خالص جوہر کو کہتے ہیں اور انسانی وجود کا جوہر عقل و فکر ہی ہے ۔
2 ۔اختلاف شب و روز اور اس کے اسرار کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیة ۱۶۴ تفسیر نمونہ جلد اول میں بحث کی جا چکی ہے ۔ کائنات کی خلقت میں جو نظم و ضبط موجود ہے وہ خدا شناسی کی روشن ترین دلیل ہے ۔ اس کی مزید توضیح کے لئے ان کتابوں کا مطالعہ کیجئے : آفرید گار جہان ،معمای ہستی اور جستجوی خدا ۔
 
اہل خرد کے اعمال کا نتیجہ آیات کی اہمیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma