سفیہ کسے کہتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
چند اہم نکات اپنا مال و دولت بے وقوفوں کے سپرد نہ کرو

راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ سفہ ( بر وزن تہہ ) اصل میں ایک طرح کی کم وزنی اور بدن کا ہلکا ہونا ہے جس میں یہ حالت ہو کہ چلتے وقت اعتدال کو بر قرار نہ رکا جا سکے اسی لئے اس افسار ۱
کو سفیہ کہتے ہیں جو نا موزوں ہوا اور ہمیشہ ہلتی جلتی رہتی رہے ۔ بعد ازاں یہ لفظ اسی مناسبت سے ان افراد کے لئے استعمال ہونے لگا جو سوجھ بوجھ نہ رکھتے ہوںچاہے ان کا ہلکا پن امور مادی میں ہو یا امور معنوی میں۔
لیکن واضح ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں سفاہت کا تعلق خصوصیت سے مالی امور میں کافی سوجھ بوجھ نہ ہونے سے ہے ۔ اور یہاں سفیہ سے مراد وہ شخص ہے جو اموال کی سر پرستی اپنے ذمہ نہ لے سکے اور مال و دولت کے لین دین میں اپنے فائدے کو نہ سمجھ سکے ۔ اصطلاح میں کہتے ہیں کلاہ سرش برود

 ( یعنی لوگ اس کا سر مونڈ لیں ) اس مفہوم کی شاہد اکلی آیت ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے :
فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم ۔
اگر انہیں سمجھدار پاوٴ تو ان کے اموال انکے حوالے کر دو۔
اس بنا پر اگر چہ زیر نظر آیت یتیموں کے بارے میں بحث کرتی ہے لیکن اس کا ایک عمومی مفہوم تمام لوگوں کے لئے ہے اور وہ یہ کہ انسان کو کسی حالت میں اور کسی صورت میں وہ مال جو اس کی سر پرستی میں ہو یا کسی سے اس سے وابستہ ہو نا فہم اور نا سمجھ افراد کے سپرد نہیں کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں امول عمومی ( اموال حکومت اسلامی ) میں بھی کوئی امتیاز نہیں ۔ اس مفہوم کا شاہد لفظ ”سفیہ “ کا وسیع مفہوم بھی ہے اور اس کے علاوہ وہ روایات بھی ہیں جو ہادیان اسلام سے اس سلسلے میں منقول ہیں ۔ مثلاً امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے ۔
ایک شخص ابراہیم ابن عبدالحمید کہتا ہے کہ میں نے امام سے ایک آیت ”ولا توٴتو السفھاء اموالکم “ کی تفسر پوچھی تو آپ (ع) نے فرمایا :
شراب خور سفیہ ہیں اپنے اموال ان کے سپرد نہ کرو ۔ 2
ایک اور روایت میں بھی شرابی کو مال امور میں امین بنانے کی مما نعت کی گئی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ بارہا روایت میں شرابی کو سفیہ قرار دیا گیا گیا ہے اور یہ تعبیر شاید اس بناء پر ہے کہ شرابی اپنا مادی سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے اور معنوی بھی ۔ اس سے بڑھ کر بے وقوفی اور کیا ہوگی کہ انسان پیسے بھی دے اور اس کے ساتھ اپنی ہوش بھی دے دے اور دیوانگی خرید لے ، اپنے بدن کے مختلف قویٰ بھی اس کام میں لگا دے اور بہت سے اجتماعی نقصانات بھی کرے ۔
ایک اور روایت میں ان سب لوگوں کو جو کسی لحاظ سے بھی بھروسے کے قابل نہ ہوں سفیہ کہا گیا ہے اور ( شخصی اور عمومی ) اموال ان کے سپرد کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
یونس بن یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیة ” ولا توٴتوا السفھاء اموالکم “کی تفسیر پوچھی تو آپ نے ارشاد فرمایا :
من لا تثق بہ۔
سفیہ وہ شخص ہے جو قابل اعتماد نہ ہو ۔3
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اگر آیت یتیموں کے بارے میں ہے تو ” اموالکم “ ( تمہارے اموال ) کیوں فرمایا ہے ۔ --” اموالھم “ ( ان کے اموال ) کیوں نہیں فرمایا ۔
ممکن ہے اس تعبیر کا مقصد اس اجتماعی اور اقتصادی مسئلے کو بیان کرنا ہو کہ اسلام انسانی معاشرے کے تمام افراد کو ایک سمجھتا ہے ۔ اس بناء پر کہ ایک شخص کی بہتری اور بھلائی دوسروں کے نفع سے جدا نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح ایک شخص کا نقصان پورے معاشرے کا نقصان ہے ۔
اسی وجہ اس خیال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضمیر غائب کی بجائے” ضمیر مخاطب “ استعمال کی گئی ہے یعنی حقیقت میں ان اموال کا تعلق صرف یتیموں سے نہیں بلکہ تمہارے ساتھ بھی ہے ۔ اگر انہیں کوئی نقصان پہنچے گا تو وہ کسی نہ کسی صورت میں تمہاری طرف لوٹے گا ۔ اس لئے اس کے مال کی پوری طرح نگرانی کرنی چاہیے ۔
اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جو کوتاہ نظر لوگ کمزور اور بز دل افراد کو مذہبی اور تبلیغی عہدوں کے لئے ان کی مدد کے بہانے از راہ ہمدردی چنتے ہیں ، ان کا یہ ایک سرا سر غلط اور مجنونانہ فعل ہے۔
التی جعل اللہ لکم قیاماً
اس جملے میں قرآن نے مال وثرت کے لئے ایک عجیب و غریب تعبیر بیان فرمائی ہے ، تمہاری زندگی اور سوسائٹی کا قیام سرمایہ پر منحصر ہے اس کے بغیر تم آزادی سے اپنے پاوٴں پر کھڑے نہیں ہو سکتے ۔ اسے سفیہ اور فضول خرچ لوگوںکے سپرد نہ کرو ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام اقتصادی اور مالی اہمیت کا قائل نہیں ہے ۔
اس کے بر عکس موجودہ انجیل 4
میں ہے کہ مالدار آدمی جنت میں نہیں جا سکے گا ۔ اسلام کہتا ہے کہ جو قوم فقیر و نادار ہو وہ کبھی اپنی کمر سیدھی نہیں کر سکتی ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ عیسائی اپنی غلط تعلیمات کے باوجود دنیا میں اوج کمال پر پہنچے ہوئے ہیں اور ہم ان اعلیٰ اسلامی تعلیمات کے باوجود ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔
اصل میں انہوں نے خرافات چھوڑ دی ہیں ۔ اس لئے وہ کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہیں اور کیوں کہ ہم نے ان اعلیٰ و ارفع تعلیمات سے دوری اختیار کر لی ہے اس لئے مارے مارے پھرتے ہیں ۔
وَ ارْزُقُوہُمْ فیہا وَ اکْسُوہُمْ وَ قُولُوا لَہُمْ قَوْلاً مَعْرُوفاً ۔
آیت کے آخر میں یتیموں کے بارے میں دو اہم حکم دئے گئے ہیں :
۱۔ ان کی خوراک اور پوشاک انہی کے مال سے مہیا کرو تا کہ وہ عزت و آبرو کے ساتھ پروان چڑھیں اور بالغ ہوں ۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں لفظ ” فیھا“ ( ان کے مال میں ) آیا ہے ” منھا “ ( ان کے مال سے ) نہیں آیا ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یتیموں کی گزر اوقات ان کے مال اور سرمائے کے نفع سے پوری کرو کیونکہ اگر یہ کہا جاتا کہ ان کے اخراجات ان کے سرمائے سے پورے کرو تو اس کا مفہوم یہ ہوتا کہ اصل سرمائے سے آہستہ آہستہ اخراجات پورے کئے جائیں اور یہ فطری امر ہے کہ جب وہ سن بلوغ کو پہنچیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے سر مائے کا زیادہ تر حصہ ہاتھوں سے کھو بیٹھے ہوں ۔ لیکن قرآن الفاط کی تبدیلی سے سرپرستوںکو یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ یتیموں کے مال کے نفع اور آمدنی سے ان کی ضروریات زندگی پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کا اصل سرمایا محفوظ رہے ۔
۲۔ دوسرے یہ کہ آیت کہتی ہے کہ یتیموں کے ساتھ شائستگی سے گفتگو کرو ۔ یعنی دل کو خوش کرنے والی اچھی اچھی باتوں سے ان کی نفسیاتی کمی کو دور کرو اور ان کو نصیحت کرتے رہو تا کہ وہ سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے اچھے خاصے سمجھدار ہو جائیں اسی طرح یتیموں کی تشکیل سیرت اور تعمیر کردار بھی سرپرستوں کی ذمہ داری ہے ۔
وَ ابْتَلُوا الْیَتامی حَتَّی إِذا بَلَغُوا النِّکاحَ ۔
یہاں یتیموں اور ان کے مال کے بارے میں ایک اور حکن دیتے ہوئے فرماتا ہے : یتیموں کی آزمائش کرو ، انہیں تجربے میں ڈالو یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں تو اس وقت اگر ان میں معاملہ فہمی اور مال کی حفاظت کی سوجھ بوجھ پاوٴ تو ان کا مال انہیں واپس کر دو ۔


۱۔ افسار اس رسی کو کہتے ہیں جو گھوڑے یا گدھے کے سر اور گردن پر باندھی جائے ( مترجم ) ۔
2 ۔ تفسیر برہان جلد اول زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
3۔ تفسیر برہان جلد اول زیر بحث آیت کے ذیل میں ، تفسیر نور الثقلین بھی دیکھ سکتے ہیں۔
4 ۔ انجیل متی باب ۱۹ آیة ۲۳
 
چند اہم نکات اپنا مال و دولت بے وقوفوں کے سپرد نہ کرو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma