ابلیس کی سرکشی اور عصیان کا ماجرا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
سب سے پہلا قیاس کرنے والا شیطان تھاجہانِ ہستی میں انسان کا عظیم الشان مقام

اردو

قرآن کریم کی سات سورتوں میں انسان کی پیدائش اور اس کی خلقت کی کیفیّت کا ذکر کیا گیا ہے،اور جیسا کہ سابقاً بیاں کیا گیا ہے اس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی شخصیت اور موجودات عالم میں اس کا مقام و مرتبہ بیان کیا جائے اور اس کے وجود میں جذبہٴ شکر گزاری بیدار کیا جائے ۔
اس سورہ میں مختلف تعبیروں سے خاک سے انسان کی خلقت ، اس کے لئے فرشتوں کا سجدہ کرنا اور شیطان کی سرکشی اس کے بعد نوعِ انسانی کو تباہ کرنے کے لئے اس کے گھات میں رہنے کا ذکر کیا گیا ہے ۔
پہلے موردِ بحث آیت میں خدا تعالیٰ فرماتاہے : ہم نے تمھیں پیدا کیا، اس کے بعد تمھیں شکل و صورت دی اس کے بعد ہم نے فرشتوں کو (اور ان کے درمیان ابلیس کو بھی جو اگر چہ فرشتوں میں سے نہ تھا لیکن ان کے درمیان تھا) حکم دیا کہ آدم (جو تمہارا جد اول تھا) کے لئے سجدہ کریں (وَلَقَدْ خَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ ثَُّ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ) ۔
سب نے جان و دل سے اس فرمان کو قبول کیا اور انھوں نے آدم کے لئے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا (فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ لَمْ یَکُنْ مِنَ السَّاجِدِین) ۔
آیت مذکورہ بالا میں ”خلقت“ کا ذکر” صورت بندی“ سے پہلے کیا گیا ہے ۔ ممکن ہے اس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہوکہ ہم نے سب سے پہلے خلقتِ انسانی کے مادہ اول کو پیدا کیا اور پھر ہم نے اسے انسانی شکل عطا کی جیسا کہ ہم نے سورہٴ بقرہ آیت ۳۴ کے ضمن میں بیان کیا ہے، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا ”سجدہٴ عبادت“ نہ تھا، کیونکہ پرستش صرف خدا کے لئے مخصوص ہے، بلکہ یہاں پر سجدہ برائے خضوع و احترام تھا (یعنی انھوں نے آدم کے آگے اظہار فروتنی کیا تھا) یا یہ کہ یہ سجدہ خدا کے لئے شکرانہ کے طور پر تھا کہ اس نے ایک ایسی موزوں، منسب اور باعظمت مخلوق پیدا کی ہے ۔
نیز ہم اُسی آیت کے ذیل میں بیان کر آئے ہیں کہ ”ابلیس“ فرشتوں میں سے نہ تھا، بلکہ آیات قرآنی نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ وہ ایک اور قسم کی مخلوق تھا جس کا نام ”جن“ ہے (مزید توضیح کے لئے برائے مہربانی تفسیرِ نمونہ جلد اوّل صفحہ ۱۶۹ اُردو ترجمہ میں ملاحظہ فرمائیں) ۔
اس کے بعد کی آیت میں فرمایا گیا ہے: خدانے ”ابلیس“ کی سرکشی اور طغیان کی وجہ اس کا مواخذہ کیا اور کہا: اس بات کا کیا سبب ہے کہ تونے آدم کو سجدہ نہیں کیا اور میرے فرمان کو نظر انداز کردیا ہے؟ ( قَالَ مَا مَنَعَکَ اٴَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ اٴَمَرْتُکَ ) ۔
اس نے جواب میں ایک نادرست بہانے کا سہارا لیا اور کہا: میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تونے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو آب و گل سے

 (قَالَ اٴَنَا خَیْرٌ مِنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ) ۔
گویا اسے خیال تھا کہ آگ ، خاک سے بہتر و افضل ہے ۔ یہ ابلیس کی ایک بڑی غلط فہمی تھی ۔ شاید اسے غلط فہمی بھی نہ تھی بلکہ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا تھا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خاک طرح طرح کی برکتوں کا سرچشمہ، تمام موادِ حیاتی کا منبع اور زندہ موجودات کی بقائے حیات کاایک اہم ترین وسیلہ ہے، جبکہ آگ میں یہ خصوصیات موجود نہیں ہیں ۔
یہ صحیح ہے کہ آگ موجودات جہان کے تجزیہ و ترکیب کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے لیکن زندہ موجودات کی ہستی میں بنیادی حیثیت ان مواد کو حاصل ہے جو خاک کے اندر موجود ہیں ۔ آگ تو صرف ان کی تکمیل کا ایک وسیلہ ہے ۔
یہ بھی درست ہے کہ کرہٴ زمین اپنی آفرینش میں سورج سے جدا ہوا تھا، وہ آگ کے ایک گولے کی طرح تھا جو بعد میں تدریجاً ٹھنڈا ہوتا گیا لیکن اس بات کی طرف توجہ رہے کہ زمین جب تک گرم اور شعلہ ور تھی اس میں کوئی زندہ مخلوق نہیں پائی جاتی تھی اس میں زندگی اس وقت پیدا ہوئی جب آگ کی جگہ خاک و گل نے لے لی ۔
علاوہ بریں ہر آگ جو زمین میں پیدا ہوتی ہے انہی مواد سے ظاہر ہوتی ہے جو خاک سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ خاک سے درخت اگتے ہیں اور درخت سے آگ نکلتی ہے، حتیٰ کہ تیل کے اجزاء یا جلنے والی چربیاں ان سب کی بازگشت خاک کی طرف ہے یا ان جیوانات کی طرف جو نباتات سے خوراک حاصل کرتے ہیں
ان تمام باتوں سے ہٹ کر سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ امتیاز خصوصیت صرف یہ نہ تھی کہ ان کی خلقت خاک سے ہوئی ہے بلکہ آدم کا امتیاز اس بات میں تھا کہ ان میں روح انسانیت پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ مقام خلافت الٰہی اور خدا کی نمائندگی کے مرتبے پر فائز تھے ۔ اس بناء پر یہ مان بھی لیا جائے کہ شیطان کی خلقت کا مادہ اول افضل تھا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حضرت آدم جنہیں اللہ نے روح و عظمت عطا کی اور اپنی نمائندگی کے مرتبے پر فائز کیا، کے سامنے سجدہ و فروتنی نہ کرے، ظاہر یہ ہے کہ شیطان ان تمام باتوں کو جانتا تھا، صرف اس کی نخوت و تکبّر نے اسے ایسا کرنے سے روکا باقی یہ سب باتیں بہانہ تراشیاں تھیں ۔

 

سب سے پہلا قیاس کرنے والا شیطان تھاجہانِ ہستی میں انسان کا عظیم الشان مقام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma