بنی آدم کے لئے خطرے کی گھنٹی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
لباس کا نازل ہوناآدم(علیه السلام) کا ماجرا اور اس جہان پر ایک طائرانہ نظر

اردو

جیسا کہ ہم نے آیات گذشتہ کی آخری بحث میں بیان کیا کہ آدم کی سرگزشت اور ان کی شیطان سے کشمکش روئے زمین پر آنے والے تمام انسانوں کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کاایک عکس ہے یہی وجہ ہے کہ خدا نے ان آیات کے بعد تمام بنی آدم کے لئے کچھ ایسے تعمیری فرامین بیان کیے گئے در حقیقت بہشت میں آدم کو دیئے جانے والے احکام کا تتمہ ہیں ۔
سب سے پہلے اسی مسئلہ لباس اور جسم ڈھانپنے کی بات کا ذکر کیا ہے جو واقعہٴ آدم میں بھی اہمیت کا حامل ہے فرماتا ہے: اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا تاکہ (تمھارے اندام کو ڈھانپ لے اور ) تمھارے بدنما حصّوں کو چھپالے ( یَابَنِی آدَمَ قَدْ اٴَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُوَارِی سَوْآتِکُمْ) ۔
لیکن اس لباس کا یہی فائدہ نہیں ہے کہ تمھارے بدن کو چھپالے اور اس کی برائی کو پوشیدہ کردے بلکہ ہم نے اسے تمھارے بدن کی زینت کے لئے بھی بھیجا ہے تاکہ یہ جیسا ہے اسے اس سے خوش نماتر دکھائے (وَرِیشًا) ۔
عربی میں ”ریش“در اصل پرندے کے پر کو کہتے ہیں، چونکہ پرندوں کے لئے پربھی لباس کاکام انجا م دیتے ہیں اس بناپر ہر لباس کو ”ریش“کہا جانے لگا، علاوہ بر این پرندوں کے پر خوبصورت بھی ہوتے ہیں اس لئے لفظ ”ریش“ میں زینت کا مفہوم بھی شامل ہوگیا، نیز جو کپڑا گھوڑے کی زین سریا اونٹ کی پشت پر ڈالا جاتا ہے اسے بھی ”ریش“ کہا جاتا ہے ۔
بعض مفسرین اور اہل لغت نے ”ریش“کے اس سے بھی وسیع معنی بیان کیے ہیں، یعنی ہر وہ سامان جس کی انسان کو ضرورت ہو ۔ لیکن اس آیت میں مناسب معنی لباس اور زینت کے ہیں ۔
اس جملے میں لباس ظاہری کے بیان کرنے کے فوراً بعد قرآن نے لباس معنوی کی بحث کو بھی چھیڑا ہے جیسا کہ دیگر مواقع پر قرآن کا طریقہ ہے، اگر کسی چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں تو دونوں کو بیان فرماتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: پرہیزگاری اور تقویٰ کا لباس اس سے بہتر ہے (وَلِبَاسُ التَّقْوَی ذٰلِکَ خَیْرٌ) ۔
تقویٰ اور پرہیزگاری کے لئے لباس کی تشبیہ نہایت بلیغ اور معنی خیز ہے ۔ کیونکہ جس طرح لباس انسان کے بدن کو سردی اور گرمی سے بچاتا ہے، بہت سے خطروں میں ڈھال کا کام بھی کرتا ہے، جسمانی عیوب کو پوشیدہ رکھتا ہے اور انسان کے لئے ایک قسم کی زینت بھی ہے، اسی طرح تقویٰ و پرہیزگاری کا جذبہ علاوہ اس کے کہ وہ انسان کو گناہوں کے بُرے اثرات سے بچاتا ہے، اور بہت سی انفرادی و اجتماعی خطروں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ انسان کے لئے ایک بڑی زینت بھی بن جاتاہے ۔ تقویٰ ایک ایسی جاذب نظر زینت ہے جو انسان کی شخصیت میں اہمیت پیدا کردیتی ہے ۔
”لباس تقویٰ“ سے کیا مراد ہے؟ اس امر میں بھی مفسّرین کے درمیان بڑی گفتگو ہوئی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کا معنی ”عمل صالح“ ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ”حیا“ ہے ۔ بعض نے اس سے”لباس عبادت“ مراد لیا ہے ۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس سے مراد ”لباس جنگ“ ہے جیسے زرّہ، خود اور سپر وغیرہ کیونکہ ”تقویٰ “کی اصل ”وقایة“ ہے جس کا معنی ہے” مخالفت“ قرآن کریم میں بھی ”تقویٰ“ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ سورہٴ نحل کی آیت ۸۱ میں ہے:
( وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیلَ تَقِیکُمْ الْحَرَّ وَسَرَابِیلَ تَقِیکُمْ بَاٴْسَکُمْ ---) ۔
تمھارے لئے ایسے پیراہن بنائے گئے ہیں جو تمھیں گرمی سے محافظت کرتے ہیں اور کچھ پیراہن وہ ہیں جو میدان جنگ میں تمہاری حفاظت کرتے ہیں ۔
لیکن جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ آیات قرآنی غالباً وسیع معنی کی حامل ہوتی ہیں جن کے مختلف مصداق ہوتے ہیں ۔ لہٰذا آیت مورد بحث میں بھی یہ تمام معنی مراد لئے جاسکتے ہیں ۔
اور چونکہ ”لباس تقویٰ “ کا لباس جسمانی کے مقابلے میں ذکر کیا گیا ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی ”“روح تقویٰ و پرہیزگاری ہے جس کی وجہ سے انسان کی جان محفوظ رہتی ہے اور ”حیا“ و عمل صالح بھی اس میں داخل ہیں ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: یہ لباس جو خدانے تمھیں عطا کیے ہیں، چاہے وہ مادی ہوں یا معنوی، لباس جسمانی ہوں یا لباس تقویٰ، یہ سب خدا کی آیات و نشانیاں ہیں تاکہ بندگان خدا، خدا کی نعمتوں کو یاد کریں ( ذٰلِکَ مِنْ آیَاتِ اللهِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُونَ) ۔

 

لباس کا نازل ہوناآدم(علیه السلام) کا ماجرا اور اس جہان پر ایک طائرانہ نظر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma