وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
سکون کامل وسعادتِ جاودانیدوزخ میں پیشواؤں اور پیروؤں کا جھگڑا

ایک مرتبہ پھر قرآن نے ان متکبر اور ضدی افراد کا انجام بیان کیا ہے جو پروردگار کی آیتوں کو تسلیم نہیں کرتے اور حق کو نہیں مانتے ۔ کہا گیا ہے: وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلے میں تکبرّ اختیار کیا آسمان کے دروازے ان کے لئے نہیں کھولے جائیں گے (إِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوا عَنْھَا لَاتُفَتَّحُ لَھُمْ اٴَبْوَابُ السَّمَاءِ ) ۔
ایک حدیث امام محمد باقر علی علیہ السلام سے اس طرح وارد ہوئی ہے:
اما المومنون فترفع اعمالہم وارواحہم الی السمآء فتفتح لہم ابوابہا و اما الکافر فیصعد بعملہ و روحہ حتی اذا بلغ الی السمآء نادی مناد اہبطوا بہ الیٰ سجین۔
موٴمنون کے اعمال و ارواح آسمان کی طرف لے جائے جائیں گے اور آسمان کے دوازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے اور کافر کا عمل اور روح بھی آسمان کی طرف لے جائی جائے گی جب یہ آسمان کے پاس پہنچے گی تو آواز آئے گی اسے سجین (دوزخ) کی طرف نیچے لے جاؤ ۔(۱)
اسی مضمون کی دیگر روایات بھی حضرت رسول اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تفسیر طبری وغیرہ میں اس آیت کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں ۔
یہاں پر آسمان سے مراد ممکن ہے کہ اس کے ظاہری معنی ہوں نیز ممکن ہے اس سے مراد مقام قربِ الٰہی ہوجیسا کہ سورہ فاطر کی آیت ۱۰ میں ہے:
<إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ۔
پاکیزہ کلمے اس کی طرف اوپر جاتے ہیں اور عمل صالح ان کو اوپر اٹھاتا ہے ۔
اس کے بعد مزید اشارہ ہوتا ہے: وہ بہشت میں داخل نہیں ہوں گے مگر اس وقت جبکہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے گزر جائے (وَلَایَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ) ۔
یہ ایک لطیف کنایہ ہے اس امر کے محال ہونے کی طرف مقصد یہ ہے کہ ان افراد کے جنت میں جانے کا غیر ممکن ہونا حسّی طور سے لوگوں کے سامنے آجائے کیونکہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اونٹ اپنے عظیم جثہ کے ساتھ سوئی کے ناکہ میں نہیں گھس سکتا اسی طرح ان بے ایمان و متکبر افراد کا بہشت میں داخلہ ناممکن ہے ۔
لغت میں ”جمل“ اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کے حال ہی میں دانت نکلے ہوں ۔ لیکن ”جمل“ کے ایک معنی اس مضبوط رسی کے بھی ہیں جس سے کشتی کو باندھتے ہیں (۲) ۔ چونکہ رسی اور سوئی آپس میں مناسبت رکھتے ہیں اس لئے مفسرین نے اس معنی کو بہتر جانا ہے لیکن اکشر مفسّرین نے پہلے معنی کو اختیار کیا ہے اور حق پہلا معنی کرنے والوں ہی کے ساتھ ہے، کیونکہ:
۱۔ پیشوایان اسلام کی روایات میں پہلے ہی معنی وارد ہوئے ہیں ۔
۲۔ اس تفسیر کی نظیر خود پسند ومتکبّر ثروت مندوں کے بارے میں موجودہ انجیل میں ملتی ہے، انجیل لوقا باب ۱۸ جملہ ۲۴و۲۵ میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
کس قدر مشکل ہے ان لوگوں کے لئے جو صاحبانِ دولت ہیں کہ وہ داخل ہوں خدا کی ملکوت وسلطنت میں، کیونکہ یہ بات زیادہ آسان ہے کہ اونٹ سُوئی کے ناکہ میں داخل ہو بہ نسبت اس کے کہ دولت والا خدا کی ملکوت وسلطنت میں داخل ہو(3)
کم از کم اس جملہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ یہ محاروہ ہمارے درمیان ایسے شخص کے بارے میں جو کبھی بہت سخت گیری کرتا ہو اور کبھی نرمی سے پیش آتا ہو رائج ہے کہ ”فلان شخص کبھی تو دروازہ میں داخل نہیں ہوتا اور کبھی سوئی کے ناکہ سے گزرجاتا ہے“
۳۔ لفظ ”جمل“ کا استعمال زیادہ تر پہلے معنی (اونٹ) میں کیا جاتا ہے جبکہ موٹی رسّی کے لئے اس کا استعمال بہت کم ہے لہٰذا پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔
اس آیت کے آخر میں تاکید وتوضیح کے لئے فرماتا ہے : ہم اس طرح کے گنہگاروں کو سزا دیتے ہیں (وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِینَ) ۔
اس کے بعد کی آیت میں ان لوگوں کے دردناک عذاب کے ایک اور حصّے کی طرف اشارہ فرماتا ہے: ایسے لوگ کے لئے جہنم اور بھڑکتی ہوئی آگ کا بچھونا ہے اور اسی کا اوڑھنا ہے (لَھُمْ مِنْ جَھَنَّمَ مِھَادٌ وَمِنْ فَوْقِھِمْ غَوَاشٍ)(4)
پھر دوبارہ تاکید کے لئے فرماتا ہے: ہم اس طرح سے ظالموں اور ستمگاروں کو سزا دیں گے (وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ)
یہ بات قابلِ توجّہ ہے کہ کبھی انھیں ”مجرم“ کبھی ”ظالم“ کبھی ”آیات الٰہی کا جھٹلانے والا“ اور کبھی ”متکبّر“ کے لقب سے تعبیر کیا گیا ہے در حقیقت ان سب کی بازگشت ایک ہی حقیقت کی طرف ہے ۔

۴۲ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَانُکَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا اٴُوْلٰئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَّةِ ھُمْ فِیھَا خَالِدُونَ-
۴۳ وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِھِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھِمْ الْاٴَنْھَارُ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی ھَدَانَا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَااٴَنْ ھَدَانَا اللهُ لَقَدْ جَائَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَنُودُوا اٴَنْ تِلْکُمْ الْجَنَّةُ اٴُورِثْتُمُوھَا بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ-
ترجمہ
۴۲۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح انجام دیا ہے کسی پر ہم اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری عائد نہیں کرتے ، وہ اہل بہشت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
۴۳۔ اور ان کے دلوں میں جو کینہ اور حسد ہے اسے باہر نکال دیں گے (تاکہ صلح وصفائی کے ساتھ باہم زندگی بسر کریں) اور ان کے (محلوں اور درختوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، (اس وقت) وہ کہیں گے ساری تعریفیں اس خدا کے لئے مخصوص ہیں جس نے ان (نعمتوں) کی طرف ہماری ہدایت کی اور اگر الله ہماری ہدایت نہ کرتا تو ہمیں (ان کی) راہ نہ مِلتی، بے شک ہمارے رب کے سارے رسول حق کے ساتھ آئے اور (اس وقت) انھیں یہ ندا سنائی دے گی کہ یہ ہے وہ جنّت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو، ان اعمال کے بدلے جو تم انجام دیئے ہیں ۔

 


۱۔ تفسیر مجمع البیان در ذیل آیت مذکورہ۔
۲۔ کتاب ”تاج العروس“ اور ”قاموس“ ملاحظہ فرمائیں ۔۔
3۔ یہاں پر ”دولت والے“ سے مراد فاسق وفاجر دولت مند مراد ہیں نہ کہ مطلقاً ہر دولت والا ۔(مترجم)
4۔ ”مھاد“ جمع ہے ”مھد“ (بروزن عہد) کی جس کے معنی بستر کے ہیں ۔ ”غواش“ جو در اصل ”غواشی“ تھا جمع ہے” غاشیہ“ کی جس کے معنی ہر طرح کی پوشش کے ہیں، خیمہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، یہ اس آیت میں ممکن ہے خیمہ کے معنی ہو یا اس کے معنی پوشش ہو ۔
 
سکون کامل وسعادتِ جاودانیدوزخ میں پیشواؤں اور پیروؤں کا جھگڑا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma