جنتی لوگ دوزخ والوں کو مخاطب کرکے آواز دیں گے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
یہ ندا کرنے والا کون ہے؟ارث کیوں کہا گیا؟

گذشتہ بحث کے بعد جس میں جنتیوں اور دوزخیوں کا انجام بیان کیا گیا ہے، ان آیات میں دونوں گرووں کی آخرت میں جو گفتگو ہوگی اسے بیان کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: جنتی لوگ دوزخ والوں کو مخاطب کرکے آواز دیں گے کہ ہم نے اپنے پروردگار کا وعدہ برحق پایا، کیا تم نے بھی اپنے اس انجام کو پایا ہے جس کا وعدہ الله نے اپنے رسولوں کے ذریعہ کیا تھا (وَنَادیٰ اٴَصْحَابُ الْجَنَّةِ اٴَصْحَابَ النَّارِ اٴَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا) ۔
وہ لوگ جواب میں کہیں گے ہاں ہم نے تمام باتیں حقیقت کی صورت میں دیکھ لیں (قَالُوا نَعَمْ ) ۔
اس بات کی طرف توجہ ہونا چاہیے کہ لفظ ”نادیٰ“ اگرچہ ماضی کا صیغہ ہے لیکن اس جگہ کے معنی مستقبل کے نکلیں گے، اس طرح کی تعبیریں قرآن میں بہت استعمال ہوئی ہیں جن میں آئندہ ہونے والے یقینی وحوادث کو فعل ماضی کے طورپر بیان کیا گیا ہے اور اس میں ایک طرح کی تاکید منظور ہوتی ہے، مطلب یہ ہے کہ آئندہ ہونے والی بات اس طرح یقینی ہے جیسے زمانہ ماضی میں ہوچکی ہو ۔
ضمنی طور سے یہ مطلب بھی اس میں مضمر ہے کہ دونوں گروہوں کے درمیان مقامی ومکانی طور سے کافی فاصلہ ہوگا کیونکہ ”ندا“ دُور سے کی جاتی ہے ۔
ممکن ہے کوئی شخص یہاں پر یہ سوال کرے کہ ان دونوں گروہوں کی مذکورہ گفتگو کا کیا فائدہ؟ جبکہ دونوں کو ایک دوسرے کا جواب معلوم ہے ۔
اس بات کا جواب بھی معلوم ہے کیونکہ سوال ہمیشہ معلومات بڑھانے کے لئے نہیں کیا جاتا، بلکہ کبھی سرزنش وتوبیخ کے لئے بھی سوال کیا جاتا ہے، اس مقام پر یہ سوال اسی مقصد کے ماتحت کیا جائے گا، حقیقت میں گنہگاروں اور ستمگاروں کے لئے یہ سوال بھی اس طرح کی سخت سزا ہوگی، کیونکہ جب یہ لوگ دارِدنیا میں تھے تو اپنی ملامت اور سرزنش سے باایمان افراد کو روحانی اذیشت دیتے تھے لہٰذا آج بروز قیامت) انھیں اس کی سزا ضرور ملنا چاہیے، اس کی نظیر قرآن میں کئی جگہ ملتی ہے، جیسے سورہٴ مطففین میں(۱)

۱۔ سورہء مطففین جیسے:
<ھَلْ ثُوِّبَ الْکُفَّارُ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ
یا اوّل سورہٴ قمر جیسے:
<اقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
”ثواب“ اور ”اقترب“ اور ”انشق“
یہ سب ماضی کے صیغے ہیں جو بمعنی مستقبل کے استعمال ہوئے ہیں ۔(مترجم)
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اسی اثناء میں ایک بولنے والا یہ ندا کرے گا (ایسی ندا جو ہر ایک کے کان میں پہنچے گی) کہ لعنت ہو خدا کی ستم کرنے والوں! (فَاٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْنَھُمْ اٴَنْ لَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَ) ۔
بعد ازان ان ستمگاروں کی پہچان یوں کرواتا ہے: یہ وہ لوگ ہیں جولوگوں کو راہِ راست سے روکتے تھے، اور روزِ اخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے(الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ وَیَبْغُونَھَا عِوَجًا وَھُمْ بِالْآخِرَةِ کَافِرُونَ)(۱)
مذکورہ بالا آیت سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر قسم کی بے راہ رویاں اور مفسدے ”ظلم وستم“ کے مفہوم میں جمع ہیں اور ”ظالم“ کا ایک ایسا وسیع مفہوم ہے جو اپنے دامن میں تمام گنہگاروں کو خصوصاً ان گمراہوں کو جو دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں، لئے ہوئے ہے ۔
ضمناً راغب مفردات میں کہتا ہے: ”ھوج“ ”بروزن کرج“حسی ٹیڑھ پن کو کہتے ہیں لیکن ”عوج“ (بروزن پدر) فکری ٹیڑھ پن کو کہا جاتا ہے ۔
لیکن قرآن کی کچھ آیات مثلاسورہٴ طٰہٰ آیت ۱۰۷ اس سے مناسبت نہیں رکھتی (غور کیجئے گا)

 


۱۔ ”یبغضونھا عوضاً“ کا معنی ہے ”یطلبونھا عوجاً“ یعنی وہ چاہتے ہیں اور سعی وجستجو کرتے ہیں کہ شبہات پیدا کرکے اور زہریلے پروپیگنڈا سے حقیقی راستے کو دِگرگوں کردیں ۔
 
یہ ندا کرنے والا کون ہے؟ارث کیوں کہا گیا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma