چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
تفسیرجنت کی نعمتیں دو زخیوں پر حرام ہیں

۱۔ قرآن نے پر لفظ ”نادیٰ“ استعمال کیا ہے دُور سے پکارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہلِ جنت اور اہلِ دوزخ کے درمیان کافی فاصلہ ہوگا، ساتھ ہی یہ بات بھی بعید نہیں ہے کہ یہ فاصلہ لاکھوں میل دُوری کا ہولیکن بقدرتِ الٰہی دونوں گروہ ایک دوسرے کی بات سن سکیںگے بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے کو اتنے فاصلہ کے باوجود دیکھ سکیں، اگرچہ یہ بات گذشتہ زمانے میں بعض لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتی تھیں لیکن اب وہ زمانہ آگیا ہے جس میں دُور کی صدا یا دور سے کسی کو دیکھنا ممکن ہوگیا ہے لہٰذا اس زمانہ میں اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔
۲۔ اہلِ دوزخ کی سب سے پہلی تمنّا یہ بیان کی گئی ہے کہ انھیں نے پانی طلب کیا، یہ ایک فطری امر ہے کہ جو شخص بھی آگ میں جلتا ہے اسے سب سے پہلے پانی کی طلب ہوتی ہے تاکہ اپنی سوزش کو تسکین پہنچاسکے ۔
۳۔ ”مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ“ (جو کچھ الله نے تم کو روزی دی ہے اس میں سے) یہ جملہ ایک سربستہ جملہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخیوں کو یہ تک پتہ نہ چلے گا کہ اہلِ جنت کو کیا کیا نعمتیں ملی ہیں اور ان کی ماہیت کیا ہے، یہ مطلب بعض احادیث کے بالکل مطابق وارد ہوا ہے کہ جنّت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا، بلکہ کسی کے ذہن میں بھی ایسی نعمتیں نہ آئی ہوں گی ۔
ضمنی طور سے ایک مطلب اور بھی لفظ ”اٴو“ میں مضمر ہے اور وہ یہ ہے کہ جنت کی دیگر نعمتیں خاص طور پر جنت کے میوے پانی کا بدل ہوسکتے ہیں اور ان سے انسان کی بھڑکتی ہوئی پیاس بجھ سکتی ہے ۔
۴۔ ”إِنَّ اللهَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ“ (خدا نے انھیں کافروں کے لئے حرام قرار دیا ہے) یہ جملہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اہل بہشت کو یہ چیزیں دینے میں تو کوئی کمی واقع ہوگی اور نہ ہی ان کے دلوں میں کسی کی طرف سے کینہ ہوگا یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی وہ کوئی بغض وحسد نہ رکھتے ہوں گے لیکن دوزخیوں کی وضعیت کچھ ایسی ہے کہ وہ ان نعماتِ الٰہی سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے یہ تحریم فی الحقیقت ایک طرح کی ”تحریم تکوینی“ ہے جیسے بہت سے بیمار لذیذ اور رنگاررنگ کھانوں سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
اس کے بعد کی آیت ان کی محرومی کا سبب بیان کررہی ہے اور اہلِ دوزخ کے صفات کو بیان کرنے کے ساتھ ہی اس امر کی وضاحت کررہی ہے کہ ان لوگوں نے یہ اپنا انجام بَد خود اپنے ہاتھوں فراہم کیا ہے پہلے فرمایا گیا ہے: یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے دین و مذہب کو کھیل تماشا بنارکھا تھا

 (الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَھُمْ لَھْوًا وَلَعِبًا) ۔
اور دنیا کی زندگی نے انھیں دھوکا دیا تھا (وَغَرَّتْھُمَ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا) ۔
یہ امور اس بات کا سبب بنے کہ وہ اپنی خواہشات کی دلدل میں اترجائیں اور تمام چیزوں کو یہاں تک کہ روزِ معاد کو بھی بھلا بیٹھیں اور انبیاء کے فرامین اور الله کی آیتوں کا انکار کردیں لہٰذا اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: آج ہم بھی انھیں بھلادیں گے جس طرح انھوں نے آج کے دن کو بھلادیا تھا اور جس طرح انھوں نے ہماری آیتوں کا انکار کردیا تھا (فَالْیَوْمَ نَنسَاھُمْ کَمَا نَسُوا لِقَاءَ یَوْمِھِمْ ھٰذَا وَمَا کَانُوا بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ) ۔
یہ بات بدیہی ہے کہ یہاں پر ”نسیان اور فراموشی“ کی نسبت جو الله کی طرف دی گئی ہے اس سے اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا ان کے ساتھ ایسا معاملہ کرے گا جیسا معاملہ کوئی فراموش کردینے والا کرتا ہے، یہ ایسی ہی ہے جیسے کوئی نہ بھولنے والا شخص اپنے بھول جانے والے دوست سے یہ کہتا ہے کہ اب جبکہ تم نے مجھے بھلادیا ہے تو میں تمھیں بھلادوں گا، مطلب یہ ے ہ تمھارے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کروں گا جو بھول جانے والا کرتا ہے ۔
ضمنی طور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گمراہی اور بھٹکنے کا پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی قیمت بنانے والے مسائل کو کوئی اہمیت نہ دے اور نہیں کھیل تماشہ سمجھ کر ٹال دے، یہ حرکت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ آخر کار اس سے کفرِ مطلق سرزد ہوتا ہے اور وہ تمام حقائق کا انکار کربیٹھتا ہے ۔

۵۲ وَلَقَدْ جِئْنَاھُمْ بِکِتَابٍ فَصَّلْنَاہُ عَلیٰ عِلْمٍ ھُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ-
۵۳ ھَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ تَاٴْوِیلَہُ یَوْمَ یَاٴْتِی تَاٴْوِیلُہُ یَقُولُ الَّذِینَ نَسُوہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَائَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَھَلْ لَنَا مِنْ شُفَعَاءَ فَیَشْفَعُوا لَنَا اٴَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ-
ترجمہ
۵۲۔ ہم ان کے لئے ایک ایسی کتاب لائے جس کی ہم نے علم کے ساتھ شرح کی (ایک ایس کتاب) جو ان لوگوں کے لئے سرمایہَ ہدایت ورحمت ہے جو ایمان لاتے ہیں ۔
۵۳۔ کیا انھیں اس بات کا انتظار ہے کہ وہ آخر میں الله کی تہدیدوں کو دیکھیں گے(۱) جب یہ امر ظاہر ہوگا تو اس وقت (عبرت حاصل کرنے کا وقت گزرچکا ہوگا) وہ لوگ جو اس سے قبل اسے بھول چکے ہوں گے کہ ہمارے رب کے فرستادہ رسول برحق آئے تھے، آیا آج کے روز ہمارے لئے کچھ ایسے شفاعت کرنے والے ہیں جو ہماری شفاعت کریںگے؟ یا (یا اس بات کا امکان ہے کہ) ہم دوبارہ پلٹادیئے جائیں؟ اور وہ اعمال بجالائیں جو ہم بجا نہ لائے تھے (لیکن) انھوں نے اپنے وجود کا سرمایہ اپنے ہاتھ سے کھودیا ہے اور جو جھوٹے معبود انھوں نے بنائے تھے وہ سب گم ہوگئے ہیں (اب نہ تو ان کے لئے پلٹنے کی کوئی راہ ہے اور نہ کوئی ان کی شفاعت کرنے والا موجود ہے)


۱۔ یہاں پر تاویل کے معنی مترجم نے ”تہدید“ سے کئے ہیں ،حالانکہ ”تاویل“ کے معنی ، ”معنائے عام“ کے ہیں، یہ لفظ ”تنزیل“ کے مقابلہ میں ہے جس کے معنی معنائے خاص کے ہیں، اسی سے حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ اے علی! تم نے قرآن کی تاویل پر جنگ کروگے جس طرح مَیں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی ہے، یہاں پر مراد یہ ہے کہ ایک روز ایسا آئے گا جب قرآن کا مفہوم عام ظاہر ہوگا، تفسیر قمی میں ہے کہ ایسا حضرت حجّت(علیه السلام) کے ظہور کے وقت اور قیامت کے روز ہوگا ۔(مترجم)
تفسیرجنت کی نعمتیں دو زخیوں پر حرام ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma