مدین میں حضرت شعیب (علیه السلام) کی رسالت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
حضرت ”شعیب(علیه السلام)“ کے منطقی اسقوم لوط کا دردناک انجام

ان آیات میں اقوام گذشتہ کی سرگزشت اور انبیائے الٰہی کی ان سے کشمکش کا پانچواں حصہ یعنی شعیب (علیه السلام)کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔
حضرت شعیب (علیه السلام) جن کا سلسلہ نسب تاریخ کی بنا پر چند واسطوں سے حضرت ابراہیم (علیه السلام) تک پہنچتا ہے، شہر ”مدین“ والوں کی طرف مبعوث ہوئے ”مدین“ شام کا ایک شہر تھا جس میں تجارت پیشہ اور مالدار لوگ رہتے تھے، لیکن ان کے درمیان بت پرستی ، کم ناپنا تولنا رائج تھا ۔
اس عظیم پیغمبر نے اپنی قوم کے خلاف جو جہاد کیا ہے اس کی روئیداد قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں آئی ہے خاص کر سورہٴ ہود اور سورہٴ شعراء میں اس کا تذکرہ مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے،ہم بھی قرآن کی پیروی کرتے ہوئے انشاء اللہ سورہٴ ”ہود“ کے ذیل میں حضرت شعیب (علیه السلام) کے قصہ کو تفصیل سے بیان کریں گ، اس جگہ پر اس قصے کا صرف ایک خلاصہ مندرجہ بالا آیات کے مطابق پیش کرتے ہیں ۔
پہلی آیت میں خدا فرماتا ہے: ہم اہل ”مدین“ کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا(وَإِلیٰ مَدْیَنَ اٴَخَاھُمْ شُعَیْبًا ) ۔
بعض مفسرین جیسے علامی طبرسی نے مجمع البیان میں اور فخررازی نے تفسیر کبیر میں بیان کیا ہے کہ ”مدین“ دراصل حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے ایک فرزند کا نام تھا، چونکہ آپ کی اولاد پوتے نواسے ایک سرزمین میں جو شام کے راستے میں تھی رہتے تھے اس لئے اس زمین کا نام بھی ”مدین“ پڑ گیا ۔
اب رہا یہ کہ حضرت شعیب (علیه السلام) کو ”اخاھم“ (بھائی) کے لفظ سے کیوں ذکر کیا، اس کی وجہ ہم اسی سورہ کی آیت ۶۵ میں بیان کی ہے ۔
اس کے بعدفرمایا کہ حضرت ” شعیب(علیه السلام)“ نے اپنی دعوت کو دیگر پیغمبروں کی طرح مسئلہ توحید سے شروع کیا اور ”وہ پکارے اے میری قوم ! خدائے یکتا کی پرستش کرو کہ اس کے علاوہ تمھارا کوئی معبود نہیں ہے“( قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ) ۔
انھوں نے کہا کہ یہ حکم علاوہ برایں کہ عقل کا فیصلہ ہے،” اس کی حقانیت پر خدا کی طرف سے روشن دلیل بھی آچکی ہے“( قَدْ جَائَتْکُمْ بَیِّنَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ) ۔
اگرچہ آیات مذکورہ میںاس بات پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے کہ یہ بینہ (روشن دلیل) کیا تھی مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد حضرت شعیب (علیه السلام) کے معجزات ہیں ۔
توحید کی طرف دعوت دینے کے بعد، حضرت شعیب(علیه السلام) نے ان کی اجتماعی، اخلاقی اور اقتصادی برائیوں سے ٹکر لی، سب سے پہلے انھوں نے چاہا کہ انھیں کم ناپ تول، دھوکا دہی اور دیگر خیانتوں سے روکیں جن میں وہ مبتلا تھے، چنانچہ انھوں نے کہا:اب جب کہ خدا کا راستہ تمھارے سامنے آشکار ہوچکا ہے تو ”پیمانہ اور وزن کا حق ادا کرو اور لوگوں کے حقوق میں سے کم نہ کرو“(فَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اٴَشْیَائَھُمْ) ۔(۱)
یہ با ت واضح ہے کہ ہر طرح کی خیانت اور ہرا پھیری اگر باہمی معاملات میں سرایت کرجائے تو اس سے وہ باہمی اعتماد و اطمینان متزلزل ہوجاتا جس پر اقتصاد کی پوری عمارت قائم وبرقرار ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں ایسے نقصانات مرتب ہوتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت شعیب (علیه السلام) نے ان کے اس بڑے عیب پر انگلی رکھی اور اسے دور کرنا چاہا ۔
اس کے بعد ان کے ایک اور عیب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،ارشاد ہوتا ہے : روئے زمین پر جب کہ ایمان اور انبیائے الٰہی کو کوششوں سے اصلاح ہوچکی ہے، فساد پربا نہ کرو ( وَلَاتُفْسِدُوا فِی الْاٴَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِھَا ) ۔
یہ بات مسلم ہے کہ فساد پھیلانے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، چاہے وہ فساد اخلاقی ہو یا بے ایمانی ہو یا بے امنی ہو بلکہ اس سے الٹا تباہی پھیلتی ہے، لہٰذا آیت کے آخر میں اس جملے کا اضافہ فرمایا گیا ہے: یہ تمھارے نفع کی بات ہے اگر تم صاحبان ایمان ہو(ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ) ۔
گویا اس جملے ”ان کنتم مومنین“ کے اضافہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ اجتماعی اور اخلاقی فرامین تمھارے حق میں اس وقت مفید ثابت ہوسکتے ہیں جب کہ تمھارے دل نور ایمان سے روشن ومنور ہوجائےں، لیکن اگر تمھارے دل ایمان سے خالی ہوں اور ان فرامین کو محض دنیاوی مصالح کی بنا پر مان لو تو اس سے کوئی دوام وثبات میسر نہ ہوگا ۔
اس کے بعد کی آیت میں حضرت ” شعیب“کی چوتھی نصیحت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،ارشاد ہوتا ہے: تم لوگوں کے راستے پر مت بیٹھو اور نی ڈراؤ دھمکاؤ اور خدا کے راستے میں سد راہ نہ بنو، اور ان کے دلوں میں شبہے ڈال کر حق کی صراط مستقیم کو ان کی نگاہ میں ٹیڑھی اور کج ظاہر نہ کرو

 

(وَلَاتَقْعُدُوا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ مَنْ آمَنَ بِہِ وَتَبْغُونَھَا عِوَجًا ) ۔
جو لوگ ایمان قبول کرنا چاہتے تھے انھیں قوم شعیب کے گمراہ لوگ کس طرح ڈراتے دھمکاتے تھے؟ مفسرین نے اس بارے میں متعدد احتمال پیش کئے ہیں، بعض نے کہا ہے کہ یہ ان کو قتل کی دھمکی دیتے تھے، بعض نے کہا کہ وہ با ایمان افراد کا مال لوٹتے تھے، لیکن آیت کے بقیہ جملے سے پہلے معنی مطابقت رکھتے ہیں ۔
پانچویں آیت کے آخر میں حضرت شعیب (علیه السلام) اس نصیحت کا ذکر ہے جس میں انھوں نے چاہا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کا یاد کریں کہ تاکہ ان میں شکر گزاری کا جذبہ بیدار ہو ارشاد ہوتا ہے : اس وقت کو یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے، خدا نے تمھاری جمعیت کو زائد کیا اورتم ” مین پاور“ (افرادی قوت) عطا کی (وَاذْکُرُوا إِذْ کُنتُمْ قَلِیلًا فَکَثَّرَکُمْ) ۔
اس کے بعد خوب اچھی طرح سے دیکھو کہ مفسدوں کا انجام کیا ہوا، لہٰذا ان کے نقش قدم پر نہ چلو( وَانظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ) ۔
یہاں پر ایک بات اور ضمنی طور پر یہ معلوم ہوئی ہے کہ آبادی کی کثرت کسی معاشرے کی عظمت، قدرت اور ترقی کا سبب بھی ہوسکتی ہے، بشرط یہ کہ ایک سوچے سمجھے نظام کے ماتحت مادی ومعنوی حیثیت سے ان کی زندگی استوار ہو، جب کہ موجودہ زمانے میں بہت زیادہ پراپیگنڈا کے ذریعے اس بات کو لوگوں کے ذہنوں راسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے نسل اور تعداد کو کم کریں ۔
آخری آیت دراصل قوم کے شعیب کے بعض مومنین اور بعض کافروں کی ایک بات کا جواب ہے، کیوں کہ بعض مومن افراد جب کہ ان پر کافر وں کا دباؤ پڑتا تھا تو وہ فطری طور پراپنے وقت کے پیغبروں سے یہ کہہ اٹھتے تھے کہ، ہم کب تک ان کافروں کا ظلم سہتے رہیں گے؟ اس کے ساتھ ہی جو لوگ مخالف تھے ان کی جراٴتیںبھی بڑھتی جاتی تھیں یہاں تک کہ وہ بھی یہ کہہ دیتے تھے کہ ”اگر تم واقعاً خدا کے فرستادہ نبی ہوتو ہماری اتنی مخالفت کے باوجود ہم کو اللہ کی طرف سے کسی قسم کا گزند کیوں نہیں پہنچتا“۔
حضرت شعیب (علیه السلام) نے ان کے جواب میں فرمایا: ارگر تم میں سے کچھ لوگ اس چیز پر ایمان لے آئیں ہیں جو میں اللہ کی طرف سے لایا ہوں، اور کچھ ایمان نہیں لائے تو اس سے نہ تو کافروں کو غرور لاحق ہو اور نہ مومنوں کو مایوسی، تم صبر سے کام لو تاکہ خدا ہمارے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والاہے یعنی وہ آئندہ اپنا آخری فیصلہ سنا دے گا کہ کون لوگ حق پر ہیں اور کون باطل پر(وَإِنْ کَانَ طَائِفَةٌ مِنْکُمْ آمَنُوا بِالَّذِی اٴُرْسِلْتُ بِہِ وَطَائِفَةٌ لَمْ یُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّی یَحْکُمَ اللهُ بَیْنَنَا وَھُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِین) ۔

 

۸۸ قَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِہِ لَنُخْرِجَنَّکَ یَاشُعَیْبُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَا اٴَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا قَالَ اٴَوَلَوْ کُنَّا کَارِھِینَ۔
۸۹ قَدْ افْتَرَیْنَا عَلَی اللهِ کَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِی مِلَّتِکُمْ بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللهُ مِنْھَا وَمَا یَکُونُ لَنَا اٴَنْ نَعُودَ فِیھَا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا عَلَی اللهِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاٴَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِینَ۔
ترجمہ
۸۸۔ اس ( شعیب(علیه السلام) ) کی قوم کے طاقتور اور متکبر لوگوں نے کہا: اے شعیب ہم قسم کھاتے ہیں کہ تم کو اور جو لوگ تم پر ایمان لائے ہیں ان کو ہم اپنی آبادی سے باہر نکال دیں گے، یا یہ کہ تم ہمارے مذہب کی طرف پلٹ آؤ، (اس پر) انھوں نے کہا: (تم چاہتے ہو کہ ہم کو پلٹاؤ) چاہے ہم اسے ناپسند بھی کرتے ہوں؟۔
۸۹۔ اگر ہم تمھارے مذہب کی طرف پلٹ آئیں، جب کہ اللہ نے ہم کو اس سے نجات دے دی ہے، تو گویا ہم نے اللہ پر بہتان باندھا ہے، اور ہمارے لئے یہ سزا وار نہیں ہے کہ ہم اس مذہب کی طرف دوبارہ پلٹ آئیںالّا یہ کہ خود ہمارا رب یہ چاہے، ہمارے پروردگار کا علم ہر چیز پر محیط ہے، ہم نے صرف اللہ پر توکل کیا ہے، اے ہمارے پروردگار! تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والاہے ۔

 

۱۔ ”بخس“ کے معنی حقوق کو کم کرنے اور اعتدال سے اس طرح نیچے آنے کے ہیں کہ ظلم ستم کا موجب بن جائے ۔
 
حضرت ”شعیب(علیه السلام)“ کے منطقی اسقوم لوط کا دردناک انجام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma