فرعون اور اس کے اطرافیوں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ایک سوال اور اس کاجوابآگاہی اور استقامت

ان آیات میں فرعون اور اس کے اطرافیوں کی ایک اور گفتگو حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے بارے میں نقل کی گئی ہے اور جیسا ان آیات سے پتہ چلتا ہے یہ گفتگو موسیٰ (علیه السلام) اور جادوگروں کے مقابلے بعد ہوئی تھی ۔
پہلی آیت میں ہے کہ : قوم فرعون کے سرداروں نے بطور اعتراض اس سے کہا: آیا موسیٰ اور بنی اسرائیل کو ان کی حالت پر آزاد چھوڑ دے گا تاکہ وہ زمین میں فساد کریں، اور تجھے اورتیرے خداؤں کو ترک کر دیں (وَقَالَ الْمَلَاٴُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اٴَتَذَرُ مُوسیٰ وَقَوْمَہُ لِیُفْسِدُوا فِی الْاٴَرْضِ وَیَذَرَکَ وَآلِھَتَکَ) ۔
اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) سے شکست کھانے بعد فرعون نے ایک مدت تک انھیں اور بنی اسرائیل کو کھلا چھوڑ دیا تھا(اگر چہ یہ آزادی بہت محدود تھی ) لیکن موسیٰ (علیه السلام) اور ان کے ماننے والے بھی خالی نہ بیٹھے اور حضرت موسیٰ (علیه السلام)کے آئین کی تبلیغ میں مصروف رہے یہاں تک کہ قوم فرعون کو ان کی ان سرگرمیوں کا پتہ چلا اور انھیں اندیشہ لاحق ہوا چنانچہ وہ لوگ فرعون کے پاس آئے اور اسے اس بات کی طرف آمادہ کرنا چاہا کہ وہ موسیٰ (علیه السلام) اور ان کی قوم پر سختی کرے ۔
آیا یہ محدود آزادی اس معجزہ کی وجہ سے تھی جو فرعون نے حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے ذریعے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس کی وجہ سے اس کے دل میں خوف پیدا ہوگیا تھا ؟ یا اس اختلاف کی وجہ تھی جو اہل مصر کے درمیان حتی کہ خود قبطیوں کے درمیان حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور ان کے آئین کے بارے میں پیدا ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے کچھ لوگ ان کی جانب مائل ہوگئے تھے ، اور فرعون یہ دیکھ رہا تھا کہ ان حالات میں وہ ان کے خلاف کوئی سخت اقدام نہیں کرسکتا تھا ؟ دونوں احتمالوں کا امکان ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ دونوں نے یکجا فرعون کے ذہن پر اپنا اثر کیا ہو ۔
بہرحال فرعون پر ان باتوں کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اس نے ان لوگوں کے جواب میں کہا: میں جلد ہی ان کے لڑکوں کو قتل کردوں گا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دوں گا(تاکہ ان سے خدمت لی جائے) اور ہم ان پر اچھی طرح قابو رکھتے ہیں ( قَالَ سَنُقَتِّلُ اٴَبْنَائَھُمْ وَنَسْتَحْیِ نِسَائَھُمْ وَإِنَّا فَوْقَھُمْ قَاھِرُونَ) ۔
لفط ”الھتک“ (تیرے خداؤں )سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیاں بحث ہے، جو بات اس آیت کے ظاہر سے زیادہ قریب ہے وہ یہ ہے کہ فرعون نے بھی اپنے لئے کچھ بت اور خدا بنا رکھے تھے، اگرچہ سورہٴ نازعات کی آیت ۲۴ ”انا ربکم الاعلی“ او ر سورہٴ قصص کی آیت ۳۸ ”ما عملت لکم من الٰہ غیرہ“سے پتہ چلتا ہے کہ اہل مصر سب سے بڑا خدا فرعون کو سمجھتے تھے یا کم از کم وہ خود اپنے کو ایسا سمجھتا تھا اور اپنی سطح کا کوئی دوسرا خدا اس کی نظر میں نہ تھا لیکن اس کے باوجوداس نے اپنے لئے معبود بنا رکھے تھے جن کی وہ پرستش کرتا تھا ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ فرعون نے اس مقام پر ایک گہری سیاست شروع کی اور ایک ایسا منصوبہ تیار کیا جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کی قوت وقدرت ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے، وہ تدبیر یہ تھی کہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کر کے ہمیشہ کے لئے مردوں کا خاتمہ کردے تاکہ وہ کبھی اس سے مقابلہ نہ کرسکیں اور عورتوں اور لڑکیوں کو کنیزی اور خدمت کے لئے باقی رکھے، یہ ہرقدیم وجدید استعمار کا ایک زبردست طریقہ ہے جس کی وجہ سے مثبت وفعال افراد قوم کی آغوش سے چھین لئے جاتے ہیں اور ان کو نابود کردیا جاتا ہے، یا پھر ان سے مردانگی اور شجاعت کے جوہر کو طرح طرح کے حیلوں اور وسیلوں سے سلب کرلیا جاتا ہے اور افراد غیر فعال کو زندہ رہنے دیا جاتا ہے ۔
مزید یہ احتمال موجود ہے کہ فرعون چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی ہمت دوطرح سے ٹوٹ جائے ایک تو لڑکوں کا قتل، دوسرے ناموس کا خطرہ، مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل ان دو حربوں سے گھبرا کر دشمن کے چنگل میں خوب اچھی طرح سے جکڑ جائیں ۔
بہرحال جملہ ”انا فوقھم قاہرون“ اس بات کا کی حکایت کرتا ہے کہ فرعون یہ کہہ کر یہ چاہتا تھا کہ ہر قسم کی فکر مندی اپنے تابعین کے دل دور کرے اور انھیں یہ اطلاع دے کہ حالات پورے طور اس کے قابو میں ہیں ۔

ایک سوال اور اس کاجوابآگاہی اور استقامت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma