دس احکامات اور قواعد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
دکھلاوا اور رضا ئے الٰہی شان نزول

خدا وند عالم مندر جہ بالا آیت میں حقوق اسلامی کے ایک اور سلسلے کو بیان کرتاہے او ر ان میں خدا کے حقوق ، بندوں کے حقوق یا لوگوں سے معاشرت کے آداب شامل ہیں ۔ مجموعی طور پر اس آیت سے دس احکامات اور قاعدوں کا پتہ چلتا ہے ۔
۱۔ وَ اعْبُدُوا اللَّہَ وَ لا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئاً۔
قرآن سب سے پہلے لوگوں کو خدا کی عبادت کرنے اور شرک و بت پرستی ترک کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ جوتمام اسلامی احکامات کی جڑ ہے ۔ توحید باری کی دعوت روح کو پاک نیت کو خالص ، ارادہ کو قوی اور ہر مفیدمنصوبہ انجام دینے کا ارادہ مضبوط کرتی ہے ۔ چونکہ یہ آیت اسلامی حقوق کا ایک سلسلہ بیان کر رہی ہے تو سب سے پہلے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے ۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کرتی ہے کہ خدا کی عبادت کرو اور کسی کو ا س کا شریک نہ بناوٴ ۔
۲۔وَ بِالْوالِدَیْنِ إِحْساناً۔
اس کے بعد ماں باپ کے حق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نصیحت کرتی ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کرو۔ ماں باپ کا حق ایسے مسائل میں سے ہے جن کا قرآن میں اکثر ذکر کیا گیا ہے ۔ شاید ہی کو ئی امر ایسا ہو جس کی اس قدر تاکید کی گئی ہو۔ یہ بات قرآن میں چار مقامات پر توحید کے ذکر کے فوراً بعد آئی ہے ۔ ۱
اس بار بار کے تذکرہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی رابطہ اور واسطہ ہے درحقیقت ایساہی ہے ،۔ کیونکہ سب سے بری نعمت تو زندگی کی نعمت ہے جو اللہ کی طرف سے پہلے در جہ میں ہے اور بعد کی منازل میں ماں باپ سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اولاد ماں باپ کے وجود کا ایک حصہ ہے ۔ اسی لئے ماں باپ کے حقوق کو چھوڑ دینا خدا وند عالم کے شرک کے برابر ہے ۔ ماں باپ کے حقوق کے بارے میں مفصل بحث ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ سورہٴ اسراء اور سورہٴ نقمان کی متعلقہ آیات کے ذیل میں آئے گی ۔
۳۔ وَ بِذِی الْقُرْبی۔
اس کے بعد تمام رشتہ داروں سے نیکی کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہ بھی ایسے مسائل میں سے جن کے متعلق بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ کبھی صلہ ٴ رحم کے عنوان سے اور کبھی ان سے نیکی اور احسان کے ذیل میں ۔ حقیقت میں اسلام یہ چاہتا ہے کہ نوع انسانی کے وسیع رشتہ میں کچھ زیادہ مضبوط رشتے استوار کرے یہ رشتے چھوٹی چھوٹی اکائیوں اور زیادہ تر ہم شکل اکائیوں میں موجود ہیں جنہیں عرف عام میں کنبہ اور خاندان کہتے ہیں ۔ یہ اس لئے تاکہ مشکلات اور حادثات میں وہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اپنے حقوق کی حفاظت کریں ۔
۴۔ وَ الْیَتامی ۔
اس کے بعد اہل ایمان کو یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان کے حق میں نیکی کرنے کی وصیت کی گئی ہے کیونکہ ہر معاشرے میں طرح طرح کے حادثات کے نتیجے میں ہمیشہ بچے یتیم ہوتے رہتے ہیں ۔ جنہیں نظر انداز کردینا صرف انہیں خطرے میں ڈالنا نہیں ہے بلکہ معاشرے کو بھی خطرے سے دوچار کرنا ہے ۔ کیونکہ اگر یتیم بچوں کی سر پرستی نہ کی جائے اور ان سے خاطر خواہ ہمدردی اورمحبت کا سلوک نہ کیا جائے تو وہ بے ہودہ ، خطر ناک اور چوڈاکو بن سکتے ہیں ۔ بنابرین یتیموں کے ساتھ نیکی معاشرے کے اپنے حق میں ہے ۔
۵۔ وَ الْمَساکینِ ۔
اس کے بعد ضرورت مندوں کے حقوق کی یاد دہانی کر وائی گئی ہے ۔ کیونکہ ایک صحت مند عادلانہ معاشرہ میں بھی لاچار اور محتاج لوگ ہوسکتے جنہیں نظر انداز کردینا انسانی اصولوں کے خلاف ہے اور اگر اجتماعی اصول ِ عدالت سے انحراف کی وجہ سے صحیح سالم لوگ فقر و فاقہ اور محرومیت میں مبتلا ہو جائیں ، پھر بھی ایسے معاشرے کی اصلاح کے لئے اٹھ کھڑا ہو نا چاہئیے۔
۶۔وَ الْجارِ ذِی الْقُرْبی ۔
اس کے بعد نزدیک کے ہمسایوں کے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت کی گئی ہے ۔ اس کے متعلق کہ نزدیک کے ہمسائے کون ہیں ۔ مفسرین نے مختلف احتمالات پیش کئے ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی لئے ہیں کہ جو ہمسایہ رشتہ دار بھی ہوں ، لیکن یہ تفسیر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آیت میں رشتہ داروں کے حقوق کی طرف اشارہ ہوچکا ہے ، بعید دکھائی دیتی ہے ۔ بلکہ مراد وہی مکان کی نزدیکی ہے ۔ کیونکہ جو ہمسائے زیادہ قریب ہیں ان کے حقوق اور احترام زیادہ ہے یا وہ ہمسائے مراد ہیں جو دین و مذہب کے لحاظ سے زیادہ قریب ہوں۔
۷۔وَ الْجارِ الْجُنُبِ۔
اس کے بعد دور کے پڑوسیوں کی سفارش کی گئی ہے ۔ جیساکہ ہم تحریر کرچکے ہیں اس سے مکان کی دوری مراد ہے کیونکہ کئی ایک روایتوں کے مطابق چاروں طرف کے چالیس گھر پڑوسی گنے جاتے ہیں ۔2
اس طرح تمام شہر چھوٹے چھوٹے شہروں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ اگر ایک شخص کے گھر کو دائرے کا ایسا مرکز فرض کرلیں جو کا نصف قطر ہر طرف سے چالیس گھروں پر محیط ہو تو ایسے دائرے کی پیمائش ایک معمولی سے حساب سے واضح ہوجاتی ہے تقریباً پانچ ہزار مکانات اس حصے میں آئیں گے ، یہ ظاہر ہے اور تسلیم شدہ ہے کہ ایک چھوٹے شہر میں اس سے زیادہ گھر نہیں ہوتے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ مندرجہ بالاآیت قرآنی میں نزدیک کے ہمسایوں کے ذکر کے علاوہ دور کے ہمسایوں کے حق کی بھی تشریح اور وضاحت کی گئی ہے کیونکہ لفظ ہمسایہ کا ایک تو محدود مفہوم ہے جو صرف نزدیک کے پڑوسیوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اب اسلامی نظریہ کے مطابق اس مفہوم کو پھیلا نے کے لئے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ دور کے ہمسایوں کا نام بھی صراحت کے ساتھ لیا جائے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ دور کے ہمسایوں سے مراد غیر مسلم ہوں۔
کیونکہ ہمساگی اسلام میں مسلمان پڑوسیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس مفہوم میں غیر مسلم بھی شامل ہیں مگر وہ جو مسلمانوں سے بر سر پیکار نہ ہوں وہی اس میں آتے ہیں ۔
اسلام میں حق ہمسائیگی اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ حضرت امیر المومنین علی (ع) کی مشہور وصیتوں میں ہے :
مازال ( رسول اللہ)یوصی بھم حتی ظننا انہ سیور ثھم :
پیغمبر اکرم (ص)  نے ان کے بارے میں اس قدر سفارش فرمائی کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ شاید آپ یہ حکم فرمائیں کہ ہمسائے ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ۔
یہ حدیث اہل سنت کی مشہور کتاب میں بھی ہے چنانچہ تفسیر المنار اور تفسیر قرطبی میں بخاری سے یہی مضمون نقل کیا گیا ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت رسول اکرم (ص)
 سے منقول ہے کہ آپ نے ایک دن تین مر تبہ فرمایا :
و اللہ لایوٴ من ......
ایسا شخص ایماندار نہیں ہے ۔
الذین لا یوٴمن جارہ بوائقہ
جس کا ہمسایہ اس سے تکلیف میں ہو۔ (تفسیر قرطبی جلد سوم صفحہ ۱۷۵۴۔ )
ایک اور حدیث میں حضرت رسول اکرم (ص)
 سے منقول ہے کہ آپنے فرمایا :
من کان یوٴمن باللہ و الیوم الآخر فلیحسن الیٰ جارہ۔
جو شخص خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیکی کرے۔ ۳
اور حضرت امام جعفر صا دق علیہ السلام سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا :
حسن الجوار یعمر الدیار و یزید فی الاعمار۔
ہمسایوں کا ایک دوسرے سے نیکی کرنا گھروں کو آباد کرتا ہے اور عمریں بڑھاتا ہے ۔ ( تفسیر صافی صفحہ ۱۲۰۔ )
اس سائنسی مشینی دورمیں پڑوسی ایک دوسرے کے عام حالات بھی نہیں جانتے بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ دو ہمسائے ایک دوسرے کے ساتھ بیس بیس سال رہنے کے باوجود ایک دوسرے کا نام بھی نہیں جانتے یہ عظیم اسلامی حکم ایک خاص روشنی کا حامل ہے اسلام انسانی معاشرے میں بہت زیادہ تعاون اور ہمدردی کا قائل ہے جب کہ مادی ترقی کے اس دوری میں ہمدردی اور تعاون کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے اور بے اعتنائی و بے حر متی بڑھتی جارہی ہے ۔
۸۔ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ ۔
اس کے بعد ان لوگوں کو جو انصاف کر دم بھر تے ہیں ، وصیت کرتا ہے ۔ لیکن غور کرنا چاہئیے کہ صاحب بالجنب کے معنی دوست اور رفیق سے زیادہ وسیع ہیں اور حقیقت میں یہ ہر اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کسی طرح ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہو چاہے پرانا دوست ہو یاتھوڑی دیر کا رفیق مثلاًوہ شخص جو سفر کرتے ہوئے انسان کا دوست بن جائے بعض روایات میں ہے کہ ” صاحب بالجنب“ سے مراد رفیق سفر( رفیقک فی السفر ) ہے یا وہ شخص ہے جو نفع کی امید میں کسی کے ساتھ ہو ( المنقطع الیک یرجونقمک) اس سے مراد ان کی تخصیص نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور ایسے تمام لوگوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔ بنابرین یہ آیت ایک جامع اور کلی حکم کی حامل ہے اور یہ ایسے سب افراد سے حسن سلوک کرنے کے لئے ہے جن سے انسان کا سابقہ پڑتا ہے ۔ چاہے وہ سچ مچ دوست ہوں رفیق کا ر ہوں ، اس کے پاس آنے والے ہوں، شاگرد ہوں ، مشورہ لینے والے ہوں یا خدمت گزار ہوں ۔ کچھ روایات میں صاحب بالجنب کی تفسیر بیوی سے کی گئی ہے چنانچہ المنار، روح المعانی اور قرطبی کے موٴلفین آیت کے ذیل میں حضرت علی(ع) سے یہی معنی نقل کرتے ہیں لیکن کچھ بعیدنہیں کہ اس کا مقصد آیت کے ایک مصداق کا تذکرہ ہو۔
۹۔وَ ابْنِ السَّبیلِ ۔
یہاں ایک اور گروہ کے بارے میں سفارش کی گئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو با جودیکہ اپنے وطن اور شہر میں صاحبِ حیثیت اور کھاتے پیتے ہوں لیکن عالم سفر میں ، اجنبی شہر میں کسی وجہ سے محتاج ہو جائیں اور ” ابن سبیل “ کی عمدہ تفسیر ( راستے کا بیٹا)بھی اسی وجہ سے ہے کہ ہم ان سے کسی قسم کی جان پہچان نہیں رکھتے کہ انہیں کسی قبیلے ، کنبے یا شخص سے نسبت دے سکیں صرف اس حکم کی بناپر کہ وہ حاجت مند مسافر ہیں انہیں مدد کا مستحق قرار دیں ۔
۱۰۔وَ ما مَلَکَتْ اٴَیْمانُکُمْ ۔
آخری مرحلہ میں غلاموں سے نیکی کرنے کی وصیت کی گئی ہے اور حقیقت میں آیت خدا کے حق سے شروع ہوتی ہے اور غلاموں کے حقوق پر ختم ہوتی ہے کیونکہ یہ حقوق ایک دوسرے سے جد انہیں ہیں ۔ صرف یہی آیت نہیں کہ جس میں غلاموں کے متعلق وصیت کی گئی ہے بلکہ دوسری آیتوں میں بھی اس سلسلے میں بحث کی گئی ہے ۔ اسلام نے ضمنی طور پر غلاموں کی تدریجی آزادی کے لئے ایک اچھا پرگرام مرتب کیا ہے جو ان کی مطلق آزادی پر جاکر ختم ہوتا ہے ۔ انشاء اللہ ہم اس سلسلے میں متعلقہ آیتوں کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کریں گے ۔
إِنَّ اللَّہَ لا یُحِبُّ مَنْ کانَ مُخْتالاً فَخُوراً ۔
خدا وند عالم آیت کے آخر میں اس جملہ کے ساتھ ” خدا تکبر کرنے والے اور گھمنڈ کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا“ خبر دار کررہا ہے کہ جو شخص خدا کے حکم سے رو گردانی کرے اور تکبر کی وجہ سے رشتہ داروں ، ماں باپ ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور دوستوں کے حقوق کا خیال نہ رکھے ۔ وہ محبوب خدا اور بندہٴ خد انہیں ہو سکتا اور جو لطف و کرم الہٰی کا مستحق نہ ہو وہ ہر خیر و برکت خوش قسمتی اور نیکی سے محروم ہے ۔ اس معنی کی گواہی وہ روایت دیتی ہے جو ا آیت کے ذیل میں بیان کی گئی ہے جو یہ ہے :
ایک صحابی رسول کہتے ہیں میں نے حضرت رسول اکرم (ص) کے سامنے اسی آیت کو تلاوت کی تو حضور نے تکبر کی برائیاں اور اس کے نتائج اتنے بیان فرمائے کہ میں رونے لگا ۔ اس پر آپ نے فرمایا:کیوں رو رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرا لباس عمدہ اور خوبصورت ہوتو اب مجھے ڈر ہے کہ اس عمل کی وجہ سے میں تکبر کرنے والوں کی صف میں نہ ہو جاوٴں ۔ فرمایا: نہیں تو اہل جنت میں سے ہے اور یہ اہل تکبر کی علامت نہیں ہے ۔ تکبریہ ہے کہ انسان حق کے مقابلے میں عاجزی اور انکساری سے کام نہ لے ، اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بلند تر سمجھے اور ان کی تحقیر کرے ( اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے روگردانی کرے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے آخری جملے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شرک اور لوگوں کے حقوق کی پامالی غرور و تکبر کا سر چشمہ ہیں ۔ مندرجہ بلاحقوق اور خصوصاًغلاموں ، یتیموں اور محتاجوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے انتہائی تواضع اور عاجزی کی ضرورت ہے ۔ 4

 

 

 

۳۷۔الَّذینَ یَبْخَلُونَ وَ یَاٴْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَکْتُمُونَ ما آتاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ وَ اٴَعْتَدْنا لِلْکافِرینَ عَذاباً مُہیناً ۔ / ۳۸۔وَ الَّذینَ یُنْفِقُونَ اٴَمْوالَہُمْ رِئاء َ النَّاسِ وَ لا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ لا بِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ مَنْ یَکُنِ الشَّیْطانُ لَہُ قَریناً فَساء َ قَریناً ۔
۳۹۔وَ ما ذا عَلَیْہِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ اٴَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقَہُمُ اللَّہُ وَ کانَ اللَّہُ بِہِمْ عَلیماً ۔

ترجمہ
۳۷۔ وہ ایسے لوگ ہیں جو بخل کرتے ہیں ۔ اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور جو کچھ خدا ند عالم نے اپنے فضل و کرم سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ( حقیقت میں ان کے اس عمل کا سر چشمہ کفر ہے ) اور ہم نے کافروں کے لئے ذیل و خوار کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
۳۸۔ وہ ایسے لو گ ہیں ۔ جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور خدا اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ( کیونکہ شیطان ان کا دوست اور ساتھی ہے ) اور جس کا ساتھی شیطان ہو اس نے بر ا ساتھی چنا ہوا ہے ۔
۳۹۔ کیا اچھا ہوتا اگر وہ خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لے آتے اور خدا ند عالم نے جو روزی انہیں عطا فرمائی ہے ( اس میں سے اس کی راہ میں) خرچ کرتے اور خدا تعالیٰ ان سے آگاہ ہے ( اور انہیں پوری طرح سزا دے گا)۔

 


۱- بقرہ ۸۳، انعام ۱۵۱، اسرا۲۳ اور زیر نظر آیت۔
2- نور الثقلین ، جلد اول صفحہ ۴۸۰۔
۳-المنار جلد پنجم صفحہ ۹۲ طبع بیروت۔
4- یاد رہے کہ مختار مادہ خیال سے اس معنی میں ہے کہ کوئی شخص بعض خیالات کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھے ۔ گھوڑے کو اس وجہ سے ” خیل“ کہا جاتا ہے کہ وہ دوڑتے ہوئے متکبر وں کی طرح قدم اٹھاتا ہے اور ”فخور“ ”فخر“ کے مادے سے اس شخص کے معنی ہے جو فخر اور گھمنڈ کرتا ہو۔ اسی بناپر یہاں ان دونوں لفظوں میں یہ فرق ہے کہ ایک معنی ایسے تکبر کے ہیں جن میں ذہن گھمنڈ سے بھرا ہوا ہو اور دوسرے کے معنی خارجی تکبر کے ہیں ، یعنی اعمال و کردار سے تکبر ٹپکتا ہو۔
 

 

دکھلاوا اور رضا ئے الٰہی شان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma