ایک قابل توجہ بات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
چند سوالات کا جواب اولوالامر کون ہیں ؟

بعض مشہور علمائے اہل سنت نے بھی جن میں سے مشہور و معروف مفسر فخرالدین رازی بھی ہیں اس آیت کے بارے میں اپنی تحریر کے شروع میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں خدا وند عالم جس شخص کی اطاعت قطعی طور پر بے چون و چرا لازم قرار دے یقینا اسے معصوم ہونا چاہئیے کیونکہ اگروہ معصوم عن الخطا نہ ہوگا تو وہ خطا کرے گا اور خدا تعالیٰ نے اس کی طاعت لازم قرار دی ہے اور ا س کی پیروی خطا کے باوجود ضروری سبھی ہے تو اس سے خود حکم خدا وند عالم میں تضاد پیدا ہو تا ہے کیونکہ ایک طرف تو اس کا عمل کرنا حرام ہے اور دوسری طرف اولوالامر کی اطاعت واجب ہے ۔ اس طرح یہ حکم خدا امر و نہی کے اجتماع کا سبب بن جاتا ہے اس لئے کہ ایک طرف تو خدا وند عالم نے اولو الامر کے حکم کی اطاعت کسی شرط اور پابندی کے بغیر واجب قرار دی ہے ۔
دوسری طرف اگر اولوالامر معصوم نہ ہوتو اس قسم کا حکم ازروئے عقل سلیم صحیح نہیں ہے ۔ اس مقدمہ اور تمہید سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں ہ مندرجہ بالا آیت میں جن اولو الامر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے انہیں یقینا معصوم ہو نا چاہئیے۔ ۱
فخر الدین رازی اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ معصوم یا تو تمام امت ہے یا اس میں سے چند لوگ ۔ یہ دوسرے معنی بھی قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ ضروری ہے کہ ہم ان چند لوگوں کو پہچانیں اوران تک پہنچ سکتے ہوں جب کہ ایسا نہیں ہے ۔
جب یہ احتمال یا شک دور ہو جاتا ہے تو پہلا احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ تمام امت معصوم ہے او ریہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اجماع و اتفاقِ امت حجت اور قابل؛ قبول ہے اور یہ معتبر اور قابل َ اعتماد دلائل میں شمار کیا جاتا ہے ۔ ۲
۲تفسیر از فخرالدین رازی ، جلد۱۰ صفحہ ۱۴۴، طبع مصر ۱۳۵۷ھ ۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ باوجود اس کے کہ فخر رازی علمی مسائل میں اشکال تراشی کے لئے مشہور ہیں لیکن انہوں نے اس آیت کی اس دلالت کو امام معصوم ہونا چاہئیے ، بسر وچشم قبول کیا ہے ، اسی موقع پر زیادہ سے زیادہ یہی کہاجاسکتا ہے کہ چونکہ وہ مکتب اہل بیت (ع) اور اس کے معصوم اماموں اور رہبروں سے ناواقف تھے اس لئے انہوں نے اس بات کو قبول نہیں کیا کہ اولو الامر خدا کے مقرر کئے ہوئے افراد ہونے چاہئیں بلکہ وہ مجبور ہو گئے کہ اولو الامر تمام امت یا مسلمانوں کے تمام طبقات کے نمائندوں کو قرار دیں حالانکہ یہ معنی کسی طرح بھی قابل ِقبول نہیں ۔ جیسا کہ ہم تحریر کرچکے ہیں کہ اولو الامر تو وہ ہوگا جس اسلامی معاشرے کا رہبر ہو تاکہ اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی گوناگوں مشکلات اس کے ناخن تدبیر سے حل ہوتی رہیں ۔ کیونکہ ہم جاتے ہیں کہ تمام آراء کا حکومت یہاں تک کہ اس کے نمائندوں کا بھی عملی طور پر اتفاق نہیں ہوسکتا کیونکہ مختلف اجتماعی ، سیاسی، ثقافتی ، اخلاقی اور اقتصادی مسائل جن سے مسلمانوں کو سابقہ پڑتا ہے ان میں اکثر اوقات تمام امت کا یاان کے نمائندوں کے اتفاق رائے کاحصول ممکن نہیں ہے اور کثریت کی پیروی اولوالامر کی پیروی نہیں سمجھی جاسکتی۔ اس بناپر فخر رازی اور ہمارے معاصر علماء جو اس کے عقیدہ کے پیرو ہیں ان کی گفتگو کا عملی مقصد یہ ہے کہ اولوالامر کی اطاعت عملاًرہے یا ایک استثنائی حیثیت سے باقی رہے ۔ہم مندرجہ بالاتمام بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ آیت شریفہ صرف اور صرف معصوم پیشواوٴں کی رہبری ثابت کرتی ہے جو امت کی چند خاص
ہستیوں پر مشتمل ہیں ( غور فرمائیے گا )۔

 

چند سوالات کا جواب اولوالامر کون ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma