چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
ہجرت. اسلام کا ایک اصلاحی حکم شانِ نزول

۱۔ روح کی استقامت
اس آیت میں موت کی بجائے” توفیّٰ“ کا لفظ حقیقت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ موت کا معنی نابود او رفنا ہونا نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی” فرشتوں کی ایک جماعت اور روح انسانی کو پالینا“ ہے یعنی وہ اس کی روح کو جوکہ اس کے وجود کا سب سے بنیادی حصہ ہے نکال کر ایک دوسرے جہان میں لے جاتے ہیں ایسی تعبیر جو قرآن میں بار ہا آئی ہے در اصل قرآن مجید کا اس امر کی طرف ایک واضح ترین اشارہ ہے کہ موت کے بعد باقی رہتی ہے اس کی تفصیل مختلف آیات میں مناسب موقع پر آتی رہے گی یہ جواب ان لوگوں کے لئے ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن نے روح کا کہیں ذکر نہیں کیا۔
۲۔ روح قبض کرنے والے ، ایک یا ایک ست زائد فرشتے
قرآن میں کئی ایک مقامات ( ۱۲ مقامات) ہیں جن میں ”توفیّٰ“ ۱
اور موت کا تذکرہ ہے اس کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے کے لئے ایک ہی فرشتہ متعین نہیں کیا گیا بلکہ بہت سے فرشتوں کے ذہ یہ کام ہے جو لوگوں کی ارواح کو اس جہاں سے دوسرے جہان میں لیجانے پر مامور ہیں ۔ درج بالا آیت میں فرشتوں کا ذکر جمع کے صیغے( الملائکہ ) کے ساتھ آیا ہے ۔
یہ بھی اس امر کا گواہ ہے سورہ انعام کی آیت ۶۱ میں ہے :
حتی اذا جاء احدکم الموت توفتہ رسلنا
” جب تم میں سے کسی ایک کی موت کا وقت آتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے ( فرشتے) اس کی روح قبض کرتے ہیں “۔
اب اگر ہم دیکھیں کہ بعض آیات میں یہ امر ملک الموت( موت کا فرشتہ) سے منسوب کیا گیا ہے ۲
تو وہ اس مفہوم میں ہے کہ وہ ان تمام فرشتوں کو سر دار ہے جو ارواح قبض روح کرنے پر مامور ہیں اور اسی فرشتے کو احادیث میں ” عزرائیل“ کے نام سے یا کیا گیا ہے اس بناپر جب لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایک فرشتہ کس طرح ایک ہی وقت میں تمام مقامات پر حاضر ہو کر انسانوں کی روح قبض کرتا ہے تو اس کا جواب اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے ۔
اس کے علاوہ اگر فرض کریں کہ اور فرشتے نہیں ہیں اور صرف ایک فرشتہ ہے پھر بھی کوئی مشکل پید انہیں ہوتی کیونکہ اس کا اکیلا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا دائرہ کا ر بہت وسیع ہے کیونکہ ایک ایسا وجود جو مادے سے نہ بنا ہو اس کا میں مادی اشیاء کی نسبت وسیع احاطہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ملک الموت کے بارے میں امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے کہ جب پیغمبر اکرم نے ملک الموت سے اس جہان پر احاطہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا:
مالدنیا کلھا عندی فیما سخرھا اللہ لی ومکنتی علیھا الاکلدرھم فی کف الرجل یقبلہ کیف یشائ
یہ جہاں اور جو کچھ اس میں ہے اس تسلط اور احاطہ کے لحاظ سے جو خدا نے مجھے بخشا ہے میرے نزدیک اس درہم ( روپیہ) کی مانند ہے جو کسی شخص کے ہاتھ میں ہو کر کہ جس طرح چاہے الٹ پھیر کردے ۔ 3
بعض آیات میں روح قبض کرنے کا تعلق خداسے وابستہ کیا گیا ہے ۔ مثلاً
” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا“
” خدا موت کے وقت جانوں کو قبض کرتا ہے “ ( سورہٴ زمر ۴۲)
یہ گذشتہ آیات سے متضاد نہیں کیونکہ جن معاملات میں کام واسطوں کے ذریعے ہوتے ہیں وہاں بعض اوقات کاک کی نسبت وسیلوں کی طرف دی جاتی ہے او رکبھی اس طرف کہ جا اسباب اور وسیلے پیدا کرتا ہے دونوں نسبتیں صحیح ہیں بہتر نظریہ یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے حوادث کی نسبت قرآن مجید میں فرشتوں کی طرف دی گئی ہے جو خدا کی جانب سے عالم ہستی میں مامور ہیں ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ فرشتہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اس مفہوم میں عاقل مجرد موجودات سے لے کر طبعی توانائیاں تک شامل ہیں ۔
۳۔ مستضعف کون ہے ؟
آیات قرآن اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو افراد فکری ، جسمانی یا اقتصادی طور پر اتنے ضعیف او رکمزور ہوں کہ حق و باطل میں تمیز نہ کر سکیں یا جو با وجود صحیح عقیدہ کھنے کے جسمانی یا مالی طور پر کمزوری کے باعث یا معاشرے کی نارواپابندیوں کے سبب اپنے فرائض ادا نہ کرسکتے ہوں اور نہ ہی ہجرت کے قابل ہوں انھیں مستضعف کہتے ہیں ۔ حضرت علی (علیه السلام) سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
ولا یقع اسم الاستضعاف علی من بلغة الحجة فسمعتھا اذنہ ووعا ھا قلبہ۔
” وہ شخص مستضعف نہیں ہے جس پر حجت تمام ہو چکی ہو اس نے حق کو سنا ہو اور اس کے ذہن نے اس کا ادراک کیا ہو“۔4
امام موسی ٰ بن جعفر (علیه السلام) سے پوچھا گیا: مستضعف کون ہے ؟ امام نے اس سوال کے جواب میں تحریر فرمایا:
الضعیف من لم ترفع لہ حجة ولم یعرف الاختلاف فاذا عرف الاختلاف فلیس بضعیف۔
مستضعف وہ شخص ہے جس تک حجت اور دلیل نہ پہنچی ہو او روہ ( مذاہب اور عقائد کے بارے میں ) موجود اختلاف کو نہ سمجھ سکا ہو (جوکہ محرک تحریک ہے)اور اس چیز کو سمجھ چکا ہو وہ مستضعف نہیں ہے “۔( نور الثقلین جلد اول صفحہ ۵۳۹)
واضح ہے کہ اوپر والی دونوں احادیث میں مستضعف فکری اور عقیدہ کے لحاظ سے ہے لیکن زیر بحث آیت میں او راسی سورہ کی آیہ ۷۵ میں جو بیان ہو چکی ہے مستضعف سے مراد عملی مستضعف ہے یعنی وہ شخص جس نے حق کی تشخیص کرلی ہو لیکن ماحول کا جبر اور گھٹن اسے عمل کی اجازت نہ دیتا ہو ۔

۱۰۰۔وَ مَنْ یُہاجِرْ فی سَبیلِ اللَّہِ یَجِدْ فِی الْاٴَرْضِ مُراغَماً کَثیراً وَ سَعَةً وَ مَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہاجِراً إِلَی اللَّہِ وَ رَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اٴَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ وَ کانَ اللَّہُ غَفُوراً رَحیماً ۔
ترجمہ
۱۰۰۔ اور جو شخص راہ خدا میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے اور وسیع امن کے خطے پالے گا او رجو شخص اپنے شہر سے خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرے پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر و ثواب خد اپر ہے اور خدا بخشنے والا او رمہر بان ہے ۔
تفسیر

 


۱”توفیّ“ کے معنی کے سلسلہ میں تفسیر نمونہ جلد دوم صفحہ ۳۴۱ کی طرف مراجعہ فرمائیں اردو ترجمہ
۲۔سورہٴ سجدہ آیت ۱۱
3۔تفسیر برہان جلد ۲ صفحہ ۲۹۱ آیت ۱ سورہ اسرا کے ذیل میں ۔
4۔نو ر الثقلین جلد اول صفحہ ۵۳۶۔
 
ہجرت. اسلام کا ایک اصلاحی حکم شانِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma