تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
حقوق نسواں کے بارے میں مزید گفتگوسچے اور جھوٹے امتیازات

گذشتہ آیات میں ایمان و عمل کی تاثیر کے بارے میں گفتگو تھی ۔ ان میں بتا یا گیا تھا کہ کسی دین و آئیں سے منسوب ہوجانا ہی کافی نہیں لیکن زیر نظر آیت میں اس بنا پرکہ کہیں گذشتہ بحث سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو ۔ دین اسلام کی تمام ادیان پر برتری کا اظہار یوں کیا گیا ہے : کون سا دین اس شخص کے دین سے بہتر ہے جو بار گاہ الہٰی میں سر پا تسلیم ہو او رنیک عمل سے دستبردار نہ ہو او رابراہیم کے پاک اور خالص دین کا پیرو کا ر ہو

( وَ مَنْ اٴَحْسَنُ دیناً مِمَّنْ اٴَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلَّہِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ وَ اتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْراہیمَ حَنیفاً) ۔
البتہ آیت یہاں استفہامیہ صورت میں ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ سننے والے سے اس حقیقت کا اقرار لیاجائے ۔
اس آیت میں تین چیزوں کو نہترین دین کے مقیاس کے طور پر شمار کیاگیا ہے :۔
پہلی : پورے طور پر خدا کے حضور سپرد گی”اسلم وجھہ للہ“۱
دوسری : نیکو کاری( وھو محسن)یہاں نیکو کاری سے مراد دل ، زبان اور عمل سے ہر طرح کی نیکی ہے ، تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اسلام سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے جو اس سوال کے جواب میں ہے کہ احسان سے کیا مراد ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
ان تعبد اللہ کانّک تراہ فان لم تراہ فان یراک
(ا س آیت میں )احسان سے مراد یہ ہے کہ جو کام بھی عبادت ِ خدا کے لئے انجام دو وہ اس طرح ہو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور وہ تم پر شاہد و ناظر ہے ۔
تیسری : ابراہیم کے پاک دین و آئین کی پیروی کرنا( وابتع ملة ابراہیم حنیفاً) ۔2
حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو ادیان باطل چھوڑ کر حق کی طرف مائل ہو اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے ۔ اس کی تشریح جلد دوم میں کی جا چکی ہے (۳۶۹ ار دو ترجمہ )
خلیل کِسے کہتے ہیں ؟
ہو سکتا ہے ” خلیل“ ” خلت“ ( بروزن ” حجت“ ) کے مادہ سے ہو جس کا معنی ہے دوستی ۔ یا پھر ” خلّت“ ( بر وزن” ضربت“) کے مادہ سے ہو جس کا مطلب ہے نیاز و احتیاج۔
مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ زیر نظر آیت میں کون سا معنی آیت کے مفہوم کے زیادہ قریب ہے ۔
بعض کے خیال میں دوسرا معنی حقیقت آیت کے قریب تر کیونکہ ابراہیم اچھی طرح سے محسوس کرتے تھے کہ وہ بلااستثنا تمام چیزوں میں خدا کے محتاج ہیں لیکن اوپ والی آیت کہتی ہے کہ خدا نے خود ابراہیم (علیه السلام) کو یہ مقام دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد دوستی ہے کیونکہ اگر یہ کہیں کہ خدا نے دوست کی حیثیت سے ابراہیم کو منتخب فرمایا تو یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
دوسری صورت میں مفہوم ہوسکتا ہے کہ خدا نے ابراہیم (علیه السلام) کا انتخاب اپنے محتاج کی حیثیت سے کیا ہے جبکہ باقی تمام مخلوق بھی خدا تعالیٰ کی محتاج اور نیاز مند ہے لہٰذا یہ بات ابراہیم سے مخصوص نہیں ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے :
یا ایھاالناس انتم الفقراء الیٰ اللہ
یعنی .... اے لوگو! تم سب الہ کے محتاج ہو ۔ (فاطر.....۱۵)
امام جعفر صادق (علیه السلام) سے منقول ایک روایت میں ہے :خدا نے ابراہیم کو اپنا خلیل ( اور دوست) بنایا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ان کی دوستی کا محتاج تھا بلکہ یہ اس بنا پر تھا کہ خدا تعالیٰ کے مفید اور اس کی راہ میں کوشش کرنے والے بندے تھے ۔ 33
یہ روایت بھی اس بات کی شاہد ہے کہ زیر بحث آیت میں خلیل کا مطلب دوست ہی ہے ۔
رہا یہ سوال کی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو یہ مقام کن خصوصیات کی بنا پر عطا فر مایا ہے تو اس سلسلے میں روایات میں کئی ایک وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔ جو سب ابراہیم کے انتخاب کی دلیل بن سکتی ہیں ۔ ایک وجہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
انمااتخذ اللہ ابراہیم خلیلا لانہ لم یرد احداً ولم یسئل احداً اقط غیر اللہ۔
یعنی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خلیل اس لئے بنایا کیونکہ انھوں نے کبھی کسی سوال اور تقاضا کرنے والے کو محرام نہیں کیا اور کبھی کسی سے سوال اور تقاضا نہیں کیا۔ 4
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کو یہ مقام زیادہ سجدہ کرنے ، بھوکوں کو کھا نا کھلانے اور رات کی تاریکی میں نماز پڑھنے یا پروردگار کی طاعت کے لئے کوشان رہنے کی وجہ سے حاصل ہوا۔
اگلی آیت میں پروردگار کی مالکیت مطلقہ اور تمام اشیاء پر اس کے احاطے کا تذکرہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کی ملکیت ہے کیونکہ خدا تمام چیزوں پر محیط ہے (وَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُحیطاً ۔) یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا نے ابراہیم

 (علیه السلام) کو اپنا دوست اس وجہ سے نہیں بنایا کہ خدا کسی چیز کی ضرورت اور احتیاج تھی بلکہ خدا تو سب سے بے نیاز ہے ۔ یہ انتخاب تو ابراہیم (علیه السلام) کی خوبیوں اور بہترین صفات کی وجہ سے ہے ۔

۱۲۷۔ وَ یَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّساء ِ قُلِ اللَّہُ یُفْتیکُمْ فیہِنَّ وَ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ فی یَتامَی النِّساء ِ اللاَّتی لا تُؤْتُونَہُنَّ ما کُتِبَ لَہُنَّ وَ تَرْغَبُونَ اٴَنْ تَنْکِحُوہُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الْوِلْدانِ وَ اٴَنْ تَقُومُوا لِلْیَتامی بِالْقِسْطِ وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّہَ کانَ بِہِ عَلیماً ۔
ترجمہ
۱۲۷۔ تجھ سے عورتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ کہہ دو کہ خدا اس بارے میں تمہیں جواب دیتا ہے او رجو کچھ قرآن میں یتیم عورتوں کے متعلق ، جن کے حقوق تم ادا نہیں کرتے اور ان سے شادی کرلینا چاہتے ہو اور اسی طرح چھوٹے بچوں او رناتوانوں کے متعلق تمہارے لئے بیان ہوا ہے ( اس سلسلے میں خدا کی کچھ وصیتیں ہیں او رخدا یہ بھی سفارش کرتا ہے ) کہ یتیموں کے ساتھ عادلانہ بر تاوٴ کرو او رجو نیکیاں تم انجام دیتے ہو خدا ان سے آگاہ ہے (اور وہ تمہیں ان مناسب بدلہ دے گا ) ۔

 


۱ ”وجہ “ لغت میں چہرے کو کہتے ہیں اور انسان کا چہرہ چونکہ اس کے قلب و روح کا آئینہ ہوتا ہے اور انسان کو خارجی دنیا سے مربوط کرنے والے حواس تقریبا ً سب چہرے میں واقع ہیں اس لئے یہ لفظ کبھی کبھی ذات کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ سورہٴ قصص آیت ۸۸ میں ہے ” کل شیء ھالک الا وجھہ “ ذات خدا کے علاوہ سب چیزیں ہلاک ہوجائیں گی ۔
2- ”ملت“ کا معنی“ ” دین “ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ملت کی اضافت خدا کی طرف نہیں ہوتی مثلا!”ملة اللہ “ نہیں کہتے بلکہ پیغمبر کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے جبکہ لفظ دین کی اضافت اللہ کی طرف بھی ، پیغمبر کی طرف بھی اور دیگر افراد کی طرف بھی ہوتی ہے ۔
3- یہ حدیث مجمع البیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں بیا ن کی گئی ہے ۔
4۔تفسیر صافی اور تفسیر بر ہان ج۱ ، ص ۴۱۷، بحوالہ عیون الرضا ۔
 

 

حقوق نسواں کے بارے میں مزید گفتگوسچے اور جھوٹے امتیازات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma