تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیربری مجلس میں نہ بیٹھو

منافقین کی صفات
زیر نظر آیت اور اس کے بعد کی کچھ آیت میں منافقین کی صفات اور ان کے افکار پریشان کا تذکرہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : منافق وہ ہیں جو ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر پیش آنے والے واقعہ سے مفاد اٹھائیں اگر تو تمہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو فوراً اہل ایمان کی صفوں میں آکھڑا ہوتے ہیں او ر کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے کیا بھاری امداد اس کامیابی میں تمہارے کام نہیں آئی لہٰذا ہم بھی ان تمام فوائد میں او رمادی و معنوی منافع میں تمہارے شریک اور حصہ دار ہیں ( الَّذینَ یَتَرَبَّصُونَ بِکُمْ فَإِنْ کانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِنَ اللَّہِ قالُوا اٴَ لَمْ نَکُنْ مَعَکُمْ ) ۔
لیکن اگر کامیابی اسلام کے دشمنوں کو ہوئی تو فوراً اپنے کو ان کے قریب کرلیتے ہیں اور اس پر اپنی خوشی کا اظہار کرے ہیں او رکہتے ہیں : یہ ہم ہی تھے جو تمہیں مسلمانوں سے جنگ کرنے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے اس لئے ہم بھی تمہارے ان کامیابیوں میں حصہ دار ہیں ( وَ إِنْ کانَ لِلْکافِرینَ نَصیبٌ قالُوا اٴَ لَمْ نَسْتَحْوِذْ ۱
عَلَیْکُمْ وَ نَمْنَعْکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنینَ) ۔
اس طرح یہ لوگ اپنے موقع پر ستی کے ذریعے چاہتے ہیں کہ مومنین کی کامیابی کی صورت میں افتخار و اعزاز پائیں یہاں تک کہ مال ِ غنیمت میں بھی حصہ دار بنیں اور ان پر احسان جتلائیں اور دوسری طرف کفار کی کامیابی پربھی خوش ہوتے ہیں انھیں کفر میں پختہ تر کرتے ہیں مسلمانوں کے خلاف ان کے حق میں جا سوسی کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کی راہ ہموارکرتے ہیں گویا وہ ” رفیق قافلہ “ بھی ہیں اور شریک راہزن “ بھی “ وہ اپنی زندگی اسی دوسرے کھیل میں گزار دیتے ہیں ۔ قرآن ایک مختصر سے جملے میں ایسے لوگوں کا انجام بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : آخر کار ایک دن آہی جائے گا جب پر دے اٹھ جائیں گے اور ان کے برے چہروں سے نقاب پلٹ دئیے جائیں گے ہاں ” قیامت کے دن تمہارے درمیان خدا فیصلہ کرے گا “ فَاللَّہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ ) ۔
لہٰذا حقیقی مومنین کو چاہئیے کہ ان سے مرعوب نہ ہوں ۔
آیت کے آخر میں مزید کہتا ہے : کبھی خدا مومنین پر کافروں کے تسلط کی را ہ نہیں بناتا( وَ لَنْ یَجْعَلَ اللَّہُ لِلْکافِرینَ عَلَی الْمُؤْمِنینَ سَبیلاً ) ۔
کیا اس جملے سے مراد یہ ہے کہ منطق و استدلال کے لحاظ سے کفارکبھی مومنین پر غلبہ نہیں پائیں گے یااس سے فوجی کامیابی یا ایسی کوئی او رکامیابی مراد ہے اس سلسلے میں ہم بعض پہلووٴں کا جائزہ لیتے ہیں ۔
لفظ ” سبیل “ اصطلاح کے مطابق ” نکرہ سیاق نفی میں “ کے قبیل سے ہے جو کہ عمومیت کے معنی دیتا ہے لہٰذا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف منطق و استدلال سے بلکہ سیاسی ، فوجی ثقافتی ، اقتصادی غرض کسی لحاظ سے بھی کفار اہل ایمان پر غالب نہیں آئیں گے آج مختلف میدانوں میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کفارمسلمانوں پر غالب ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے بیشتر مسلمان حقیقی مومن نہیں ہیں ۔ آج مسلمان ایمان کے تقاضے، اپنی ذمہ داریاں ، اپنا حقیقی طرز عمل اور اسلامی افکار سب کچھ فراموش کرچکے ہیں نہ ان میں اتحاد اور اخوت اسلامی کی کوئی خبر ہے نہ حقیقی معنی میں جہاد کرتے ہیں اور نہ وہ علم و آگہی کے حامل ہیں ، حالانکہ اسلام نے ان سب پر حصولِ علم لمحہ دلادت سے لے کر لحظہ موت تک لازم قرار دے رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ ایسی زندگی بسر کررہے ہیں ۔
بعض فقہا نے حقوق اور حکم کے حوالے سے مختلف مسائل میں مومنین پر کفار کے عدم تسلط کے لئے اس آیت سے استدلال کیا ہے ۔ آیت کی عمومیت کے پیش نظر یہ بات زیادہ بعید نظر آتی ( غور کیجئے گا) ۔
یہ امر قابل غور ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کی کامیابی کے لئے ” فتح“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ کفار کی کامیابی کے لئے ” نصیب “ استعمال ہواہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر کفار کو کچھ کامیابیاں نصیب ہوں تو وہ محدود ، وقتی اورنا پائیدار ہوں گی آخری فتح تو اہل ایمان ہی کو حاصل ہو گی ۔

۱۴۲۔إِنَّ الْمُنافِقینَ یُخادِعُونَ اللَّہَ وَ ہُوَ خادِعُہُمْ وَ إِذا قامُوا إِلَی الصَّلاةِ قامُوا کُسالی یُراؤُنَ النَّاسَ وَ لا یَذْکُرُونَ اللَّہَ إِلاَّ قَلیلاً ۔
۱۴۳۔مُذَبْذَبینَ بَیْنَ ذلِکَ لا إِلی ہؤُلاء ِ وَ لا إِلی ہؤُلاء ِ وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ سَبیلاً ۔
ترجمہ
۱۴۲۔ منافقین اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ انھیں دھوکا دیتا ہے ( یعنی ان کا فریب باطل کردیتا ہے )اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ سستی او رکسالت کے ساتھ ، لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہیں اور خدا کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا سا۔
۱۴۳۔ وہ بے ہدف افراد ہیں نہ ان کی طرف مائل ہیں نہ ان کی طرف ( نہ اہل ایمان کی صف میں ہیں نہ کافروں کی قطار میں ) اور جسے خدا گمراہ کردے اس کے لئے تمہیں کوئی راہ نہ ملے گی ۔

 


۱”استحوذ“کا مادہ ” حوذ“ ہے یہ رانوں کے پچھلے حصے کو کہتے ہیں ۔ سار بان جب اونٹ کو نیز چلانا چاہتا ہے تو اس کے پیچھے ہوکراس کی رانوں اور پشت پر مارتا ہے لہٰذا ”استحوذ“ چالانے اور متحرک کرنے کے حوالے سے تسلط و غلبہ کا مفہوم دیتا ہے ۔ مندرجہ بالاآیت بھی اسی معنی میں ہے ۔ 

 

تفسیربری مجلس میں نہ بیٹھو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma