ایک مشہور اور جعلی روایت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
تفسیرایک اہم سوال کا جواب

ایک مشہور اور جعلی روایت

اہل سنّت کی بعض کتب میں اور کچھ غیر معتبر کتب میں مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے جو انبیاء(علیه السلام) کے بارے میں اسلامی عقائد سے کسی لحاظ سے بھی مناسبت نہیں رکھتی اور وہ یہ ہے:
سمرہ بن جندب، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے حوالے سے بیان کرتا ہے:
”لمّا ولدت حوّاء طاف بھا ابلیس وکان لایعیش لھا ولد فقال سمیہ عبدالحارث فعاش وکان ذٰلک من وحی الشیطان واٴمرہ.
یعنی جب حوّا کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو شیطان اس کے چکر لگانے لگا اور اس سے پہلے حوّا کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا، شیطان نے حوّا سے کہا: اس کا نام عبدالحارث رکھو (کیونکہ حارث شیطان کے ناموں میں سے ہے لہٰذا عبدالحارث کا معنی ہے شیطان کا بندہ) حوّا نے ایسا کیا اور وہ بچہ زندہ رہ گیا اور ایسا شیطان کی وحی اور حکم سے ہوا ۔ (1)
اسی مضمون کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت آدم(علیه السلام) بھی اس بات پر راضی ہوگئے تھے ۔
اس روایت کا راوی چاہے مشہور گذّاب سمرہ بن جندب یا کعب الاحبار اور وہب بن منبہ جیسے افراد جو یہودیوں کے مشہور لوگوں میں سے تھے اور پھر مسلمان ہوگئے اور بعض علماء اسلام کے نظریے کے مطابق تورات اور بنی اسرائیل کی خرافات یہی دونوں مسلمانوں میں لائے، بہرحال جو بھی ہو رایات کا مضمون خود ہی اس کے بطلان کی دلیل ہے کیونکہ آدم(علیه السلام) جو خلیفة الله اور خدا کے عظیم پیغمبر تھے اور علم الاسماء کے حامل تھے ۔ اگرچہ وہ ترک اولیٰ کی وجہ سے جنت سے زمین پر آئے تاہم وہ ایسی شخصیت نہ تھے کہ شرکِ کی راہ انتخاب کرتے اور اپنے بیٹے کا نام ”بندہٴ شیطان“ رکھتے، ایسا کام توصرف کسی بت پرست، جاہل، نادان اور بے خبر ہی کے شایانِ شان ہوسکتا ہے ۔
سا سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں شیطان کا معجزہ اور کرامت بیان کی گئی ہے کہ اس بچّے کا نام جب اُس کے نام پر رکھا گیا تو گذشتہ تمام بچوں کے برخلاف زندہ رہا ۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ بعض گذشتہ مفسرین ایسی روایات سے اتنے متاٴثر ہوئے کہ انھیں تفسیر کے طورپر بیان کردیا ۔ بہرکیف یہ روایت چونکہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور عقل کے بھی لہٰذا اسے کسی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے ۔
اس واقعہ کے بعد قرآن بت پرستی کی دوبارہ سخت الفاظ میں مذمّت کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے: کیا یہ لوگ کچھ ایسے موجودات کوخدا کا شریک قرار دیتے ہیں جو کوئی چیز پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے بلکہ وہ خود اس کی مخلوق ہیں (اٴَیُشْرِکُونَ مَا لَایَخْلُقُ شَیْئًا وَھُمْ یُخْلَقُونَ) ۔ علاوہ ازیں یہ جعلی معبود پیدا اپنے بچاریوں کی کسی بھی مشکل میں مدد نہیں کرسکتے یہاں تک کہ وہ مشکلات میں خود اپنی مدد نہیں کرسکتے (وَلَایَسْتَطِیعُونَ لَھُمْ نَصْرًا وَلَااٴَنفُسَھُمْ یَنصُرُونَ) ۔
یہ معبود ایسے ہوتے ہیں کہ ”اگر تم انھیں ہدایت کرنا چاہو تو وہ تمھاری پیروی نہیں کریں گے یہاں تک کہ اس کا شعور بھی نہیں رکھتے“ (وَإِنْ تَدْعُوھُمْ إِلَی الْھُدیٰ لَایَتَّبِعُوکُمْ) ۔ جو ہادیوں کی پکار اور ندا کو بھی نہیں سنتے اور وہ دوسروں کی ہدایت کیسے کرسکتے ہیں ۔
بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کے کے لئے ایک اور احتمال ذکر کیا ہے اور یہ کہ ”ھُمْ “کی ضمیر بت پرستوں اور مشرکوں کے لئے ہے یعنی ان میں سے ایک گروہ اس قدر ہٹ دھرم اور متعصّب ہے کہ انھیں جتنی بھی توحید کی دعوت دی جائے وہ اسے تسلیم اور قبول نہیں کرتے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہو کہ اگر تم ان سے ہدایت کا تقاضا کرو تو اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا، بہرحال ”تمھارے لئے برابر ہے کہ انھیں دعوت حق دو یا خاموش رہو، دونوں صورتوں میں ہٹ دھرم بت پرست اپنے رویّے سے دست بردار نہیں ہوںگے (سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ اٴَدَعَوْتُمُوھُمْ اٴَمْ اٴَنْتُمْ صَامِتُونَ) ۔
دوسرے احتمال کے مطابق اس جملے کا معنی یہ ہے کہ: تمھارے لئے برابر ہے، چاہے بتوں سے کسی چیز کا تقاضا کرو چُپ رہو دونوں صورتوں میں نتیجہ منفی ہے کیونکہ بت کسی کی تقدیر میں کوئی اثر نہیں رکھتے اور کسی کی خواہش پوری کرسکتے ۔
فخرالدین رازی اس آیت کی تفسیرز میں لکھتے ہیں:
مشرکین جب کسی مشکل میں پھنس جاتے تھے تو بتوں کے سامنے فریاد کرتے اور جب انھیں کوئی مشکل درپیش نہ ہوتی تو خاموش رہتے، قرآن ان سےکہتا ہے: چاہے ان کے سامنے تضرع وزاری کرو یا چُی رہو، دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

 

۱۹۴ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ عِبَادٌ اٴَمْثَالُکُمْ فَادْعُوھُمْ فَلْیَسْتَجِیبُوا لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ.
۱۹۵ اٴَلَھُمْ اٴَرْجُلٌ یَمْشُونَ بِھَا اٴَمْ لَھُمْ اٴَیْدٍ یَبْطِشُونَ بِھَا اٴَمْ لَھُمْ اٴَعْیُنٌ یُبْصِرُونَ بِھَا اٴَمْ لَھُمْ آذَانٌ یَسْمَعُونَ بِھَا قُلْ ادْعُوا شُرَکَائَکُمْ ثُمَّ کِیدُونِی فَلَاتُنظِرُونِِ.
ترجمہ
۱۹۴۔ جنھیں وہ خدا کے علاوہ پکارتے ہیں (اور جن کی پرستش کرتے ہیں) تمھاری طرح کے بندے میں، اگر سچّے ہو تو انھیں پکارو تو انھیں چاہیے کہ وہ تمھیں جواب دیں (اور تمھارے تقاضوں کو پورا کریں) ۔
۱۹۵۔ کیا وہ (کم ازکم خود تمھاری طرح) پاؤں رکھتے ہیں کہ جن کے ساتھ چلیں پھریں یا ہاتھ رکھتے ہیں کہ جن چیز اٹھا سکیں (اور کوئی کام انجام دے سکیں) یا کیا وہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھ سکیں یا ان کے کان ہیں کہ ان سے سن سکیں (نہیں ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں) کہہ دو: (اب جبکہ ایسا ہے تو) ان بتوں کو جنھیں تم نے خدا کا شریک بنارکھا ہے، (میرے برخلاف) انھیں پکارو اور میرے خلاف سازش اور مکروفریب کرو اور لحظہ بھر کی مہلت نہ دو (تاکہ تمھیں معلوم ہوجائے کہ ان سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا) ۔

 


1۔ المنار، ج۹، بحوالہٴ مسند احمد.


 

تفسیرایک اہم سوال کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma