شیطانی وسوسے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
جامع اخلاقی ترین آیتبے وقعت ’معبود‘

شیطانی وسوسے

ان آیات میں تبلیغ اور لوگوں کی رہبری و پیشوائی کی شرائط جاذب نظر طریقے سے اور جچے تلے انداز میں بیاں کی گئی ہیں ۔ ان آیات کا مفہوم گذشتہ آیات سے بھی مناسبت رکھتا ہے جو کہ مشرکین کے لئے تبلیغ کے طور پر ہی تھیں ۔
پہلی آیت میں رسول خدا سے خطاب کی صورت میں رہبروں اور مبلغوں کے فرائض کے تین حصوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: لوگوں سے سخت گیری نہ کرو اور ان سے نرمی برتو، ان کے عذر قبول کرو اور وہ جتنی قدرت رکھتے ہیں ان سے اس سے زیادہ خواہش نہ کرو ( خُذْ الْعَفْوَ ) ۔
”عفو“ بعض اوقات کسی چیز کی اضافی مقدار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کبھی ”حدوسط“ کے مفہوم کے لئے آتا ہے، کبھی خطا کاروں کے عذر قبول کرنے اور انھیں بخش دینے کا معنی دینا ہے اور کبھی کاموں کو آسان سمجھنے کامفہوم لئے ہوتا ہے ۔
آیات کے قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ زیر نظر آیت بعض مفسرین کے قول کے برخلاف مالی مسائل اور لوگوں کے مال سے اضافی مقدار لینے سے کوئی ربط نہیں رکھتی بلکہ یہاں اس کے لئے مناسب مفہوم آسان سمجھنا، درگزر کرنا اور حدّوسط انتخاب کرنا ہی ہے ۔ (۱)
واضح ہے کہ رہبر اور مبلغ اگر سخت گیر شخص ہوتو بہت جلد لوگ اس کے گردا گرد سے منتشر ہوجائیں گے اور دلوں میں اس کا نفوذ ختم ہوجائے گا ۔ جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے:
<وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِک
اگر تم سخت گیر، بد اخلاق اور سنگدل ہوتے تو مسلم ہے کہ لوگ تمھارے ارد گرد پراگندہ ہوجاتے ۔ (آل عمران۔۱۵۹)
اس کے بعد دوسرا حکم دیا گیا ہے: لوگوں کو نیک کاموں کا اور وہ کہ جنہیں عقل و خرد شائستہ قرار دے اور خدا ان کی نیکی اور اچھائی کے طور پر تعارف کروائے ، حکم دو ( وَاٴْمُرْ بِالْعُرْفِ) ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سخت گیری نہ کرنے مطلب ”سب اچھا“ اور خوشامد نہیں بلکہ رہبر اور مبلغ کو چاہیے کہ وہ حقائق پیش کرے اور لوگوں کو حق کی دعوت دے اور کوئی چیز فروگذاشت نہ کرے ۔
تیسرے مرحلے میں جاہلوں کے مقابلے میں تحمل وبردباری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جاہلوں سے رُخ موڑلو اور ان سے لڑو جھگڑو نہیں

 (وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْجَاھِلِینَ) ۔
جب کسی رہبر اور مبلغ کو ہٹ دھرم متعصب، جاہل اور کوتاہ فکر اور پست اخلاق افراد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو گالیاں سننا پڑتی ہیں تہمتیں لگتی ہیں، اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں اور اس پر پتھر پھینکے جاتے ہیں ایسی صورت حال میں کامیابی کا طریقہ یہ نہیں کہ جاہلوں سے دست وگریباں ہوا جائے بلکہ بہترین راہ تحمل، حوصلہ اور چشم پوشی ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ جاہلوں کی بیداری اور ان کے غضب، حس اور تعصّب کی آگ خاموش کرنے کے لئے یہ بہترین طریقہ ہے ۔
بعد والی آیت میں ایک اور حکم دیا گیا ہے جس میں در حقیقت رہبروں اور مبلغوں کے لئے ان کی چوتھی ذمہ داری بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ مقام ومنزلت، مال ودولت اور خواہشات وشہوت وغیرہ کی صورت میں شیطانی وسوسے ہمیشہ ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں، شیطان اور شیطان صفت لوگ ان وسوسوں کے ذریعے انھیں ان کے راستے سے منحرف کرنے کے درپے رہتے ہیں ۔ قرآن حکم دیتا ہے: اگر شیطانی وسوسوے تیرا رخ کریں تو اپنے آپ کو خدا کی پناہ میں دے دے، خود کو اُ س کے سپرد کردے اور اسی کے لطف سے مدد طلب کر کیونکہ وہ تیری بات سنتا ہے، تیرے اسرارِ نہاں سے آگاہ ہے اور شیطانوں کے وسوسوں سے باخبر ہے (وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ إِنَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ) ۔ (2)

 


۱۔ لفظ ”عفو“ کی مزید و وضاحت کے لئے تفسیر نمون جلد دوم (ص ۷۳۔ ۷۴ اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں ۔
2۔ ”یَنزَغَنَّکَ“ کا ”نزَغَ“ (بروزن ”نزَعَ“) ہے، اس کامعنی ہے کسی کام میں خرابی پیدا کرنا یا اس کی تحریک دین.

 

جامع اخلاقی ترین آیتبے وقعت ’معبود‘
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma