چند قابل توجہ نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
مومن کی پانچ خصوصیاتانفال کیا ہے؟

1۔ مندرجہ بالا آیت اگر چہ جنگی غنائم کے بارے میں ہے لیکن اس کا مفہوم کلی اور عمومی ہے اور یہ حکم تمام اضافی اموال، جن کا مالک مخصوص نہ ہو، کے بارے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ اہلِ بیت(علیه السلام) سے منقول روایات میں انفال کا ایک وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ معتبر روایات میں ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”انھا ما آخذ من دار الحرب من غیر قتال کالّذی انجلی عنھا اھلھا وھو المسمیٰ فیئاً ومیراث من لاوارث لہ، وقطائع الملوک إذا لم تکن مغضوبة والآجام، وبطون الا ودیعة، والمات، فإنّھا لِلّٰہ ولِرسولہ وبعدہ لمن قام مقامہ، یصرفہہ حیث یشاء من صالحہ ومصالح عیالہ“
انفال ان اموال کوکہتے ہیں جو دار الحرب سے جنگ کے بغیر حاصل ہوں، اسی طرح وہ زمین جس کے رہنے والے اسے چھوڑکر ہجرت کرگئے ہوں، اسے ”فیء“ کا نام دیا گیا ہے اور اس شخص کی میراث جس کا کوئی وارث نہ ہو اور وہ سرزمین تنگ راستے اور غیر آباد زمینیں یہ سب خدا اور پیغمبر کا مال ہیں اور پیغمبر کے بعد اس کا ہے جو ان کا قائم مقام ہو اور وہ اسے ہراس راہ میں کہ جس میں وہ اپنی اور ان لوگوں کی کہ جن کی وہ کفالت کرتا ہے مصلحت دیکھے صرف کرے گا۔(۱)
اگرچہ تمام جنگی غنائم کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر نہیں آیا لیکن ایک اور حدیث جو امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے اُس میں ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
ان غائم بدر کانت للنّبی خاصّة فقسمھا بینھم تفضلاً منہ-
جنگ بدر کا مالِ غنیمت سے مخصوص تھا لیکن آپ نے بخشش کے طور پر لشکرِ اسلام میں تقسیم کردیا(۲)
جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ انفال کے مفہوم میں نہ صرف غنائم جنگی شامل ہیں بلکہ ہر وہ مال انفال ہے جس کا کوئی مخصوص مالک نہ ہو او رایسے تمام اموال خدا، پیغمبر اور ان کے قائم مقام سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں اور تمام مسلمانوں کے مفاد میں صرف ہوتے ہیں۔
البتہ جنگی غنائم اور جو منقولہ اموال جنگ میں لشکرِ اسلام کے ہاتھ آئیں ان کے بارے میں قانون اسلام جس کی ہم اس سورہ میں کریں گے یہ ہے کہ پانچ حصّوں میں چار غازیوںکو دیئے جائیں گے اور یہ ان کی تشویق اور زحمات کی کچھ تلافی کے لئے ہے، ایک حصّہ خمس کے طور پر رکھ دیا جائے گا، اس خمس کے مصارف کے بارے میں آیت ۴۱ کے ذیل میں اشارہ کیا جائے گا، اسی طرح سے غنائم بھی انفال کے عمومی مفہوم میں شامل ہیں اور دراصل حکومت اسلامی کی ملکیت ہیں اور پانچ میں سے چار حصّے جو غازیوں کو بخشے گئے ہیں وہ عطیہ اور تفضّل کے طور پر ہے (غور کیجئے گا)۔
۲۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خیال پیدا ہو کہ زیر نظر آیت کہ جس کے مفہوم میں جنگی غنائم بھی شامل ہیں اسی سورہ کی آیت ۴۱ کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غنائم کا صرف پانچواں حصّہ (یعنی خمس) خدا، پیغمبر اوردیگر مصارف کے لئے ہے کیونکہ اس کا مفہوم تو یہ ہے کہ باقی چار حصّے جنگی سپاہیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن سطور بالا میںجو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ جنگی غنائم در اصل سب خدا اور رسول سے متعلق ہیں اور یہ ایک قسم کی بخشش اور تفضّل ہے کہ ان کے چار حصّے جنگی سپاہیوں کو دے دیئے گئے ہیں، بہ الفاظ دیگر حکومتِ اسلامی منقولہ غنائم میںسے اپنے حق کے چار حصّے مجاہدین پر صرف کرتی ہے۔ اس مفہوم کے پیش نظر دونوں آیات میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا۔
یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خمس والی آیت جیسا کہ بعض مفسّرین کا خیال ہے آیہٴ انفال کی ناسخ نہیں ہے بلکہ دونوں اپنی قوّت سے باقی ہیں۔
۳۔ جیسا کہ ہم شانِ نزول میں پڑھ چکے ہیں کہ بعض مسلمانوں کے درمیان جنگی غنائم کے بارے میں جھگڑا ہوگیا تھا۔ اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے اوّل تو غنیمت کے مسئلے کی جڑ ہی کاٹ دی گئی اور مالِ غنیمت کو مکمل طور پر پیغمبر کے اختیار اور ملکیت میں قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان اور ان افراد کے درمیان جن میں جھگڑا ہوا تھا، دوسروں کوصلح ومصالحت کروانے کا حکم دیا گیا۔
اصولی طور پر ”اصلاح ذات البین“ افہام وتفہیم، دشمنیوں اور کدورتوں کا خاتمہ اور نفرت کو محبت اور دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا اسلام کا ایک اہم ترین پروگرام ہے۔
ذات“ کا معنی کسی چیز کی خلقت، بنیاد اور اساس ”بین“حالت ارتباط کو اور دوشخصوں یا چیزوں کے درمیان پیوند قائم کرنے اور انھیں آپس میں ملانے کو کہتے ہیں، اس بناپر کا ”اصلاح ذات البین“مطلب ہے ارتباط کی بنیاد کی اصلاح، پیوند اور جوڑ کی تقویت اور پختگی اور درمیان میں سے تفرقہ ونفاق کے عوامل واسباب کا خاتمہ۔
تعلیماتِ اسلامی میں اس بات کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اسے بلند ترین عبادات میں سے قرار دیا گیا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی وصیوں میں جبکہ آپ(علیه السلام) بسترِ شہادت پر تھے، اپنے فرزند انِ گرامی سے فرمایا:
إنّی سمعت جدکما رسول اللّٰہ (ص) یقول: اصلاح ذات البین افضل من عامة الصلوٰة والصیام-
میں نے تمھارے نانا رسول الله کو یہ کہتے ہوئے سنا: لوگوں کے درمیان اصلاحِ رابطہ مختلف قسم کی مستحب نمازوں اور روزوں سے برتر وافضل ہے۔(۱)
کتاب کافی میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
صدقة یحبّھا اللّٰہ بین الناس إذا تفاسدوا وتقارب بینھم إذا تباعدو-
وہ عطیہ اور بخشش جسے خدا دوست رکھتا ہے وہ لوگوں کے درمیان صلح ومصالحت کروانا ہے جب وہ فسا کی طرف مائل ہوں اور انھیں ایک دوسرے کے قریب کرنا ہے جب کہ وہ ایک دوسرے سے دُور ہوں۔(۲)
نیز اسی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے اپنے صحابی ”مفضل“ سے فرمایا:
إذا راٴیت بین إثنین من شیعتنا منازعة فافتدھا من مالی-
جب ہمارے شیعوں میں سے دوافراد میں جھگڑا دیکھو (جو مالی امور سے متعلق ہو) تو میرے مال میں سے تاوان اور فدیہ ادا کرو (اور ان کی صلح کروادو۔(۳)
اسی بناپر ایک اور روایت میں ہے کہ مفضل نے ایک دن شیعوں میں سے دوآدمیوں کو میراث کے معاملے میں جھگڑتے ہوئے دیکھا تو انھیں اپنے گھر بلایا، ان میں چار سو درہم کا اختلاف تھا، وہ مفضل نے انھیں دے دیئے اور ان کا جھگڑا ختم کروادیا، اس کے بعد ان سے کہا کہ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ میرا مال نہیں تھا، بلکہ امام(علیه السلام) نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ ایسے موقع پر مالِ امام سے استفادہ کرتے ہوئے اصحاب کے درمیان صلح ومصالحت کروادوں۔(۴)
اجتماعی معاملات میں اس قدر تاکیدیں کیوں کی گئی ہیں، تھوڑا غوروفکر کیا جائے تو اس کا سبب واضح ہوجاتا ہے۔ کسی قوم کے عظمت، طاقت قدرت اور سربلندی باہمی افہام وتفہیم اور ایک دوسرے سے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات کی اصلاح نہ ہو تو عدو۔اوت ودشمنی کی جڑ آہستہ آہستہ دلوں میں اتر جاتی ہے اور ایک متحد قوم کو پراکندہ کرکے رکھ دیتی ہے۔
آسیب زدہ، ضعیف وناتواں اور زبوں حال گروہ ہر حادثے اور ہر دشمن کے مقابلے میں سخت خطرے سے دوچار ہوگا بلکہ اسی جمعیت میں تو نماز، روزہ جیسے اصول مسائل یا خود وجوِ قرآن بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اسی بناپر اصلاح ذات البین کے بعض مراحل شرعاً واجب ہیں حتّیٰ کہ انھیں انجام دینے کے لئے بیت المال کے وسائل سے استفادہ کرنا جائز ہے اور بعض دوسرے مراحل جو مسلمانوں کی سرنوشت کے حوالے سے زیادہ اہم نہیں مستحبّ موٴکد ہیں۔
 

۲- إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ آیاتُہُ زَادَتْھُمْ إِیمَانًَا وَعَلیٰ رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُونَ-
۳- الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنفِقُونَ-
۴- اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ-
ترجمہ
۲۔ مومن صرف وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کا نام لیا جائے تو ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہوجائے اور وہ صرف اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں۔
۳۔ وہ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
۴۔ حقیقی مومن وہ ہیں کہ جن کے لئے ان کے پروردگار کے پاپس (بے حد) درجات ہیں اور ان کے لئے مغفرت وبخشش ہے اور بے نقص اور بے عیب روزی ہے۔

 


۱ ۔ نہج البلاغہ-
۲۔ اصولِ کافی، باب اصلاح ذات البین، حدیث۱و۲-
۳۔ اصولِ کافی، باب اصلاح ذات البین، حدیث۱و۲-
۴۔ مدرک قبل-
مومن کی پانچ خصوصیاتانفال کیا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma