دعوت، زندگی کی طرف

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
شان نزولدو اہم نکات

گذشتہ آیات میں مسلمانوں کو علم، عمل، اطاعت اور تسلیم کی طرف دعوت دی گئی تھی، ان آیات میں اسی ہدف کو ایک اور انداز سے حاصل کیا گیا ہے۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان والو! خدا اور اُس کے پیغمبر کی دعوت کو قبول کرو، جب وہ تمھیں ایسی چیز کی طرف دعوت دیتا ہے جو تمھیں زندہ کرتی ہے (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ)۔
مندرجہ بالا آیت صراحت سے کہتی ہے کہ دعوتِ اسلام در اصل زندگی اور حیات کی طرف دعوت ہے، حیاتِ روحانی، حیاتِ مادّی، حیاتِ ثقافتی، حیاتِ اقتصادی، حیاتِ سیاسی، حقیقی مفہوم کے ساتھ حیاتِ اخلاقی اور حیاتِ اجتماعی غرض اسلام کی دعوت ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے حیات ہے۔
یہ مختصر ترین اور جامع ترین تعبیر ہے جو اسلام اور دینِ حق کے بارے میں آئی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ اسلام کا ہدف اور مقصد کیا ہے اور وہ ہمیں کیا دے سکتا ہے تو ایک ہی مختصر سے جملے میں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا ہدف اور مقصد تمام جہاتِ زندگی میں حیات عطا کرنا ہے اور یہی اسلام ہمیں عطا کرتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طلوع اسلام سے قبل اور دعوتِ قرآن سے پہلے مردہ تھے کہ قرآن انھیں دعوتِ حیات دیتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں، وہ اس حیات سے محروم تھے کہ جو حیات قرآن عطا کرتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ حیات کے کئی پہلو اور مراحل ہیں کہ قرآن جن سب کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
”زندگی“ کا مفہوم بعض اوقات سبزہ زار کی حیات کے معنی میں آیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
<اعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یُحْیِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا
جان لو کہ خدا زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے۔(حدید/۱۷)
کبھی حیاتِ حیوانی کے معنی میں آیا ہے، مثلاً:
<إِنَّ الَّذِی اٴَحْیَاھَا لَمُحْیِی الْمَوْتیٰ
وہ خدا کہ جس نے اس (زمین) کو زندہ کیا، مردوں کو بھی زندہ کرے گا۔(حم سجدہ/۳۹)
کبھی زندگی، فکری، عقلی اور انسانی حیات کا معنی لئے ہوئے ہوتی ہے، مثلاً:
<اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاٴَحْیَیْنَاہ---
وہ شخص جو مردہ اور گمراہ تھا، پس پھر ہم نے اس کی ہدایت کی، کیاوہ گمراہوں کی طرح ہے۔ (انعام/۱۲۲)
کبھی دوسرے جہان کی حیاتِ جاودان کے مفہوم میں ہے، مثلاً:
<یَالَیْتَنِی قَدَّمْتُ لِحَیَاتِی
اے کاش!آج (روز قیامت) کی زندگی کے لئے میں نے کوئی چیز آگے بھیجی ہوتی۔(فجر/۲۴)
اور کبھی زندگی لامحدود اور لامتناہی علم وتوانائی کے معنی میں ہوتی ہے، جیسا کہ خدا کے بارے میں ہے-
<ھُوَ الْحَیِّ الَّذِی لَایَمُوت
وہ ایسا زندہ ہے کہ جس کے لئے موت نہیں ہے۔
موت کی اقسام کے بارے میں جو کچھ ہم نے کہا ہے اس کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ زمانہٴ جاہلیت کے لوگ اگرچہ مادّی اور حیوانی زندگی کے حامل تھے لیکن وہ انسانی، معنوی اور عقلی زندگی سے محروم تھے ، قرآن آیا اور اس نے انھیں حیات اور زندگی کی دعوت دی۔
یہاں سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ جو لوگ دین ومذہب کو ایک خشک، بے روح، حدودِ زندگی سے ماوراء اور فکری واجتماعی پروگراموں سے الگ سمجھتے ہیں وہ کس قدر اشتباہ اور غلطی ہیں۔ ایک سچّا دین وہی ہوسکتا ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پہلوں میں حرکت پیدا کرے، روح پھونکے، فکر عطا کرے اور احساس ذمہ داری پیدا کرے، ہمیشگی، اتحاد، ارتقا اور تکامل ایجاد کرے اور تمام معانی کے لحاظ سے حیات آفریں ہو۔
ضمناً یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ جو لوگ اس آیت کی تفسیر صرف جہاد یا ایمان یا قرآن یا بہشت کے ساتھ کرتے ہیں اور ان امور کو حیات کے تنہا عامل کے طور پر پیش کرتے درحقیقت مفہوم آیت کومحدود کردیتے ہیں کیونکہ آیت کے مفہوم میں تویہ سب امور شامل ہیں اور ان سے بڑھ کر ہر چیز، ہر فکر، ہر پروگرام اور ہر حکم جو حیاتِ انسانی کی کوئی صورت پیدا کرے آیت کے مفہوم میں شامل ہے۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: جان لو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ کہ تم سب قیامت میں اس کے پاس جمع کئے جاوٴگے (وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہِ وَاٴَنَّہُ إِلَیْہِ تُحْشَرُونَ)۔
بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ یہ بندوں سے خدا کے نہایت قربت کی طرف اشارہ ہے گویا وہ خود انسان کی جان اور اس کے اندر موجود ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
<َنَحْنُ اٴَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ
ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہیں۔(ق/۱۶)
کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ اشارہ ہے کہ قلوب اور افکار کی گردش خدا کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ ہم دعا میں کہتے ہیں:
”یامقلّب القلوب والاٴبصار“
اے وہ کہ قلوب اور افکار کی گردش جس کے ہاتھ میں ہے۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر لطفِ خدا نہ ہوتا تو انسان ہرگز حق کی حقانیت اور باطل کے بطلان پر آگاہ نہ ہوپاتا۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک لوگوں کو موقع میسّر ہے اطاعتِ الٰہی اور نیک کاموں کی انجام دہی کے لئے کوشش کرتے رہیں کیونکہ خدا انسان اور اس کے درمیان موت کے ذریعے رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔
لیکن ایک عمومی حوالے سے ان تمام تفاسیر کو ایک ہی جامع تفسیر میںجمع کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ خدا ہر جگہ حاضر وناضر ہے اور تمام موجودات پر محیط ہے وہ ان موجودات میں سے نہیں لیکن ان سے ح۔جدا بھی نہیں۔ موت وحیات،علم وقدرت، امن وسکون اور توفیق وسعادت سب اس کے ہاتھ ہیں اور اس کے قبضہٴ قدرت میں ہیں، لہٰذا انسان نہ کوئی چیز اس سے چھپاسکتا ہے، نہ کوئی کام اس کی توفیق کے کرسکتا ہے اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ انسان اس کے علاوہ کسی کی طرف رخ کرے اور اُس کے غیر سے درخواست کرے کیونکہ وہی تمام چیزوں کا مالک ہے اور انسان کے تمام وجود پر محیط ہے۔
اس جملے کا گذشتہ جملے سے ربط اس لحاظ سے ہے کہ اگر پیغمبر زندگی اور حیات کی طرف دعوت دیتا ہے تو ایسی ہستی کا فرستادہ ہے کہ موت وحیات اور ہدایت وعقل سب جس کے قبضہٴ قدرت میں ہیں لہٰذا اس امر کی تاکید کے لئے ارشاد ہوتا ہے کہ تم نہ صرف آج اس کی قدرت کے احاطہ میں موجود ہو بلکہ جہان میں بھی اسی کی طرف جاوٴگے یہاں اور وہا ں سب اس کے سامنے موجود ہو۔
صرف ظالم ہی انجامِ بد سے دوچار نہیں ہوں گے
اس کے بعد خدا اور پیغمبر کی حیات بخش دعوت قبول نہ کرنے کے بُرے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: اس فتنے سے بچو جو تم میں سے سرف ظالموں ہی کو نہیں آلے گا بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا (وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَاتُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّةً)۔
لفظ ”فتنہ“ قرآن مجید میں مختلف مواقع پر استعمال ہوا ہے۔ کبھی آزمائش وامتحان کے میں اور کبھی بلا، مصیبت اور عذاب کے معنی میں۔ اصل میں اس لفظ کا معنی ہے سونے کو کٹھالی میں داخل کرنا تاکہ اس کا کھوٹا کھراپن واضح ہوجائے، بعد ازان یہ لفظ ایسی آزمائشوں میں استعمال ہونے لگا جو انسان کی صفاتِ باطنی کو ظاہر کردیتی ہیں اور اسی طرح ان سزاؤں کے بارے میں استعمال ہونے لگا جو روحِ انسانی کی سفائی یا اس کے گناہ کی تخفیف کا باعث ہوں۔
زیر بحث آیت میں یہ لفظ اجتماعی مصائب آلام کے مفہوم میں ہے کہ جو سب کو دامنگیر ہوں، اصلاح کی زبان میں جس میں خشک وتر سب جل جائیں۔
در حقیقت اجتماعی حوادث کی خاصیت یہی ہے کہ جب معاشرہ اشاعتِ حق اور رسالت کے بارے میں اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرے اور اس کوتاہی کے نتیجے میں قانون شکنیاں، ہرج ومرج اور بے امنی وغیرہ پیدا ہوجائیں تو نیک وبد سب اس کی آگ میں جلتے ہیں۔ یہ دراصل خداوندعالم کی طرف سے تمام مسلمانوں کے خطرے کے الارم ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ افرادِ معاشرہ نہ صرف اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اپنے فرائض ادا کریں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے وہ دوسروں کو بھی ان کے فرائض کی انجام دہی پر اُبھاریں کیونکہ اختلاف، انتشار اور عدم اتفاق اجتماعی پروگراموں کی شکست کا باعث ہوتے ہیں اور یہ دھواں سب کی آنکھوں میں پڑے گا۔ میں نہیں کہتا کہ چونکہ میں نے اپنی ذمہ داری نبھالی ہے لہٰذا ددوسروں کی فرض ناشناسی کے بُرے آثار سے بچ جاوٴں گا کیونکہ اجتماعی معاملات کو شخصی اور انفرادی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے دشمن کی طاقتور حملہ آور فوج کی تعدا ایک لاکھ ہو۔ اس کا حلہ روکنے کے لئے اگر پچاس ہزار افراد اپنی ذمہ داری بنھائیں تو مسلّم ہے کہ کافی نہیں ہوںگے اور شکست کے بُرے نتائج سے ذمہ دار اور غیر ذمہ دار سبھی دوچار ہوں گے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اجتماعی اور معاشرتی مسائل کی یہی صورت ہے۔
یہ حقیقت ایک اور طریقے سے بھی واضح کی جاسکتی ہے کہ اور وہ یہ کہ معاشرے کے نیک لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بُروں کے مقابلے میں ہوکر نہ بیٹھ جائیں اگر انھوں نے سکوت اختیار کیا تو خدا کے ہاں وہ بھی بُروں کے انجام میں شریک قرار پائیں گے۔ جیسا کہ ایک مشہور حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
”انّ اللّٰہ عزّوجلّ لایعذّب العامّة بعمل الخاصّة حتّیٰ یروا المنکر بین ظھرانیھم وھم قادون علیٰ اٴن ینکروہ فاِذا فعلوا عذّب اللّٰہ الخاصّة والعامّة-
خداوندعزوجل عام لوگوں کے عمل کی سزا کسی خاص گروہ نہیںدے گا مگر اس صورت میں کہ جب منکرات اور خداکی نافرمانیاں ان کے درمیان ہورہی ہوں اور وہ ان کے افکار اور ممانعت کی قدرت رکھتے ہوئے سکوت اور خاموشی اختیار کریں، اس صورت میں خداتعالیٰ اس خاص گروہ کو اور معاشرے کے تمام افراد کو سزادے گا۔(۱)
جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے یہ حکم خدا کی بنیادی اور اُخروی دونوں سزاوٴں پر صادق آتا ہے اور اسی طرح ایک گروہ یا سب کے اعمال نتائج اور آثار کے سلسلے میں بھی صادق آتا ہے(۲)
آیت کے آخر میں تہدید آمیز لہجے میں کہاگیا ہے : جان لو کہ خدا کا عذاب وعقاب سخت ہے (وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ)۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کا لطف ورحمت انھیں غافل کردے اور خدائی عذاب وسزا کی شدت کو فراموش کردیں اور فتنے انھیں دامنگیر ہوجائیں جیسے اسلامی معاشرے کو دامنگیر ہوئے ہیں اور ان خدائی سنتوں کو بھول جانے کی وجہ سے وہ پیچھے کی طرف اُلٹے پاوٴں چلے گئے ہوں۔
اگر ہم اپنے دَور کے اسلامی معاشروں پر ایک نظر ڈالیں توہم دیکھیں گے کہ دشمن کے مقابلے میں وہ پے درپے شکست کہ شکار ہورہے ہیں۔ استعمار، یہودیت اور صیہونیت ان کے خلاف کامیابی سے مصروف عمل ہے۔ انحطاط، پستی اور علمی پسماندگی کے مفاسد دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال آیت کی حقیقت اور اس کے مفہوم کی تصویر کشی کررہی ہے کس طرح ان فتنوں نے چھوٹے بڑے، نیک وبد اور عالم وجاہل کو گھیر رکھا ہے اور یہ اسی طرح جاری وساری رہیں گے یہاں تک کہ مسلمانوں میں اجتماعی رُوح بیدار ہوجائے اور ہر کوئی معاشرے میں اپنی اجتماعی ذمہ داری کو قبول کرلے اور اسلام کی طرف سے عائد دو فرائض امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قطعی، حتمی اور تخلف ناپذیر صورت اختیار کرلیں۔
قرآن مسلمانوں کا ہاتھ پکڑکر انھیں ایک مرتبہ پھر ان کی گذشتہ تاریخ کی طرف پلٹاتا ہے اور انھیں سمجھاتا ہے کہ تم کس درجے میں تھے اور اس وقت کس مقام پر کھڑے ہو تاکہ جو درس انھیں گذشتہ آیات میں دیا گیا ہے اس کا اچھی طرح ادراک کرلیں۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب تم ایک چھوٹاسا ناتواں گروہ تھے اور دشمنوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ تمھیں ضعف وناتوانی کی طرف کھینچ لے جائیں (وَاذْکُرُوا إِذْ اٴَنْتُمْ قَلِیلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِی الْاٴَرْضِ)۔ ”اس طرح کہ تم ڈرتے تھے کہ کہیں مشرکین اور مخالفین تمھیں اُچک نہ لیں“ (تَخَافُونَ اٴَنْ یَتَخَطَّفَکُمْ النَّاسُ)۔
یہ ایک لطیف تعبیر ہے جو اُس دور کے مسلمانوں کی انتہائی کمزوری قوتکی کمی کو واضح کرتی ہے جیسے کوئی چھوٹا سا جسم ہوا میں معلّق ہو کہ دشمن جسے آسانی سے اُچک سکتا ہے، یہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جب کہ ان کا دشمن وہاں بہت طاقتور تھا یا پھر ہجرت کے بعد کے دور کی طرف ایران اور روم کی عظیم طاقتوں کے مقابلے میں ان کی حالت کی طرف اشارہ ہے۔
”لیکن خدا نے تمھیں پناہ دی“ (فَآوَاکُمْ )۔ ”اور اپنی مدد سے تمھیں تقویت دی“ (وَاٴَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہِ)۔ ”اور تمھیں پاکیزہ رزق سے بہرہ مند کیا“ (وَرَزَقَکُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ)۔ ”شاید اس کی نعمت کا شکر بجالاوٴ“ (لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ)۔

 

۲۷- یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا اٴَمَانَاتِکُمْ وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
۲۸- وَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا اٴَمْوَالُکُمْ وَاٴَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ وَاٴَنَّ اللهَ عِنْدَہُ اٴَجْرٌ عَظِیمٌ
ترجمہ
۲۷۔ اے ایمان والو! خدا اور رسول سے خیانت نہ کرو (نیز) اپنی مانتوں میں خیانت روا نہ رکھو جب کہ تم متوجہ ہو اور جانتے ہو۔
۲۸۔ اور جان لو کہ تمھارے اموال اور اولاد آزمائش کا ذریعہ اور خدا کے ہاں (ان کے لئے) اجر عظیم ہے (جو امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔

 


۱۔ تفسیر المنار، ج۹، ص۶۳۸-
۲۔ مفسّرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ”لا تصیبن“ نفی کا صیغہ ہے یا نہیں کا۔ بعض نے نہی کا قرار دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ فتنوں سے بچو کیونکہ یہ صرف ظالموں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیں گے اور دیگر نے اسے نفی کا صیغہ سمجھا ہے لیکن چونکہ عربی ادب کے علماء کے نظریے کے مطابق نون تاکید سوائے نہی کے اور جواب قسم کے نہیں آتی لہٰذا جواب قسم قرار دیتے ہیں گویا آیت میں قسم مقدر ہے۔

 

شان نزولدو اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma