تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
مقصدِ جہاد اور ایک بشارتچند اہم نکات

ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی روش ہے کہ وہ بشارت اور انذار کو اکھٹا کردیتا ہے یعنی جیسے دشمنانِ حق کو سخت اور دردناک عذاب کی تہدید کرتا ہے اسی رح لوٹ آنے کا راستہ بھی ان کے لئے کُھلا رکھتا ہے۔
محل بحث آیات میںسے پہلی آیت بھی قرآن کے اسی طریقے کے مطابق ہے۔ اس میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو حکم دیا گیا ہے کہ: جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر وہ مخالفت، ہٹ دھرمی اور سرکشی سے باز رہیںاور دینِ حق کی طرف پلٹ آئیں تو ان کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے (قُلْ لِلَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ یَنتَھُوا یُغْفَرْ لَھُمْ مَا قَدْ سَلَفَ)۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے لینے سے گذشتہ دور میں جو کچھ بھی ہوا ہو اُسے بخش دیا جاتا ہے اور یہ بات اسلامی روایات میں ایک عمومی قانون کے طور پر بیان کی گئی ہے جیسے کہا گیا ہے:
”اٴَلاِسْلَام یَجُبُّ مَا قَبْلَہُ“-
اسلام اپنے ماقبل کو چھپا دیتاہے۔
اسی طرح اہلِ سنّت کے طرق سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے منقول ہے:
”انّ السلام یھدم ماکان قبلہ، وانّ الھجرة تھدم ماکان قبلھا وانّ الحج یھدم ما کان قبلہ“-
اسلام سے پہلے جو کچھ ہوا اسلام اُسے ختم کردیتا ہے اور ہجرت اپنے ماقبل کو مٹادیتی ہے اور اسی طرح خانہٴ خدا کا حج بھی اپنے ماقبل کو محو کردیتا ہے۔(۱)
مراد یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کے غلط اعمال وافعال یہاں تک کہ فرائض وواجبات کا ترک کرنا اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے ختم ہوجاتا ہے اور اس قانون کا عطف اور ربط گذشتہ سے نہیں ہے۔ اسی لئے کتبِ فقہِ اسلامی میں ہے کہ مسلمان ہونے والے شخص کے لئے گذشتہ عبادات کی قضا تک ضروری نہیں ہے۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : لیکن اگر وہ اپنی غلط روش سے باز نہ آئیں ”اور اگر وہ سابقہ اعمال کی پلٹ جائیں تو جو خدائی سنّت گذشتہ لوگوں کے لئے رہی ہے ان کے لئے بھی انجام پائے گی“ (وَإِنْ یَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ)۔ اور اس سنّت سے مراد وہی انجام ہے جس سے دشمنانِ حق انبیاء کے مقابلے میں اور خود مشرکینِ مکّہ تک جنگ بدر میںپیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے مقابلے میں دوچار ہوئے ہیں۔
سورہٴ غافر کی آیت ۵۱ میں ہے:
<إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْاٴَشْھَادُ
ہم اپنے رسولوں کی اور مومنین کی دنیاوی زندگی اور روزِ قیامت کہ جس میں گواہ کھڑے ہوںگے، مدد کریںگے۔
اسی طرح سورہٴ بنی اسرائیل کی آیت ۷۷ میں ہے:
<وَلَاتَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا
یہ ہماری سنت گذشتہ پیغمبروں کے بارے میں ہے اور یہ سنت کبھی تبدیل نہیں ہوگی۔
گذشتہ آیت میں چونکہ دشمنوں کو حق کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دی جاچکی ہے اور ممکن تھا کہ یہ عوت مسلمانوں میں یہ فکر پیدا کردیتی کہ اب جہاد کا دور ختم ہوگیا ہے اور انعطاف اور نرمی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں لہٰذا اس اشتباہ کو دور کرنے کے لئے مزید فرمایا گیا ہے: ان سخت ترین دشمنوں کے ساتھ جنگ کرو اور اس جنگ کو جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور سارے کا سارا دین الله کے لئے ہوجائے

 (وَقَاتِلُوھُمْ حَتَّی لَاتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلّٰہِ)۔
جیسا کہ ہم سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۳ کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں کہ لفظ ”فتنہ“ کا ایک وسیع مفہوم ہے جس میںہر قسم کے دباوٴ ڈالنے والے اعمال شامل ہیں، اس لئے کبھی یہ لفظ قرآن میں شرک وبت پرستی کے معنی میں استعمال ہوتاہے جوکہ معاشرے کے لئے بہت سی رکاوٹیں اور دباؤ پیدا کرتی ہے، اسی طرح ایسے دباوٴ کے مفہوم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو دعوتِ اسلام کے پھیلاوٴ کو روکنے کے لئے اور حق طلب لوگوں کی آواز دبانے کے لئے ہو، یہاں تک کہ مومنین کو کفر کی طرف پلٹانے کے لئے ڈالے جانے والے دباوٴ پر بھی ”فتنہ“ کا اطلاق ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا آیت میں بعض مفسّرین نے ”فتنہ“ کو شرک کے معنی میں لیا ہے، بعض نے دشمنوں کی مسلمانوں سے فکری واجتماعی آزادی سلب کرنے کی کوششوں کے معنی میں لیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ آیت کات مفہوم وسیع ہے، اس سے مراد شرک بھی ہے اور (”وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلّٰہِ“ کے قرینہ سے)دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں پر وارد ہونے والے ہر قسم کے دباوٴ بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔

 


۱۔ صحیح مسلم، طبق نقل المنار، ج۹، ص۶۶۵-
مقصدِ جہاد اور ایک بشارتچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma