تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 67 - 78 سوره حج / آیه 63 - 66

تفسیر
کائنات میں الله کی نشانیاں


گذشتہ آیتوں میں الله کی لامتناہی طاقت اور اس کی حقانیت مطلقہ کا ذکر تھا، زیرِ بحث آیتوں میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس کی طاقت اور اختیار کی مختلف علامتوں کا ذکر کیا جارہا ہے، ارشاد ہوتا ہے: کیا تو نے ملاحظہ نہیں کیا کہ الله نے آسمان سے پانی برسایا، اور اس سے خشک اور مردہ زمین کو سرسبز وشاداب کیا (اٴَلَمْ تَریٰ اٴَنَّ اللهَ اٴَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْاٴَرْضُ مُخْضَرَّةً) ۔ یعنی وہ زمین جس سے زندگی کے آثار معدوم ہوگئے تھے، چٹیل، سیاہ، اور کریہہ المنظر ہوگئی تھی، وہ بارش کے حیات بخش قطروں سے زرخیز ہوگئی، اس میںزندگی عود کر آئی اور لہلہانے لگی، بیشک اتنی آسانی سے زندگی کو وجود میں لانے والا الله لطیف وخبیر ہے (إِنَّ اللهَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ) ۔
”لَطِیف“ ”لطف“ کے مادہ سے نہایت عمدہ اور باریک کام کو کہتے ہیں، الله کی خاص رحمتوں کو بھی ”لطف“ اس کی عمدگی اور باریکی کی وجہ سے کہا جاتا ہے ۔
”خَبِیر“ اسے کہتے ہیں جو گہرے اور باریک مسائل سے آگاہ ہو۔
الله کا ”لطیف“ ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے منوں مٹی میں دبے ہوئے ننّھے ننّھے نباتی بیجوں کی نشو ونما کرے قانون کشش ثقل کے برعکس ان کو۔ گہری تاریک مٹی سے نہایت بینی باریک اور لطف سے اوپر مٹی کی سطح کی طرف بھیجے ۔ اور سورج گرم اور روشن شعاعوں، ہوا کے جھونکوں کے سامنے پھیلائے اور یوں آخرکار ایک بار اور سرسبزپودے، یا تنومند درخت بنادے ۔
اگر الله بارش نہ برساتا اور بیج کے ارد گردکی مٹی نرم اورملائم نہ ہوجاتی تو وہ ہرگز نشو نما نہ پاتا، مگر اس نے بارش کے ذریعے سخت زمین کو نرم ولطیف بنایا اور کمزور اور نازک بیج کی پرورش کی تمام ضروریات مہیّا ہوسکیں اور وہ مٹی کی تہوں میں بیج کی ضرورت سے لے کر شکوفے کی صورت میں زمین سے نکلنے تک ہر مرحلے سے باخبر ہے، الله کے ”لطیف“ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ بارش برسائے مگر ”خبیر“ ہونے کا تقاضا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایسا کرے ، یعنی اگر بارش زیادہ برسے تو سیلاب بن جائے اور اگر کم برسے تو خشک سالی کا وبال، یہ ہے اس کے لطیف وخبیر ہونے کا مفہوم سورہٴ مومنون آیت نمبر ۸میں ہے:
<وَاٴَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَاٴَسْکَنَّاہُ فِی الْاٴَرْضِ۔
”ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے مطابق پانی نازل کیا پھر اسے حسب مصلحت) زمین میں ٹھہرائے رکھا“۔
اس کا مفہوم بھی یہی ہے ۔(۱)
اپنی بے پایاں طاقت اور اختیار کی دوسری علامت بیان کرتے ہوئے الله ارشاد فرماتا ہے: آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اسی کا تو ہے (لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ) ۔ سب کا خالف ومالک وہی ہے، اس وجہ سے سب پر مکمل اختیار رکھتا ہے، اس کائنات میں وہی اکیلا، بے نیاز وتونگر ہے اور ہر طرح کی تعریف وستائش کا مستحق بھی ٹھہرتا ہے (وَإِنَّ اللهَ لَھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ) ۔
”غنی“ اور ”حمید“ کی دوصفات بہت مربوط طریقے سے استعمال کی گئی ہیں، کیونکہ۔
۱) بہت سے لوگ متموّل اور مالدار ہیں، مگر کنجوس، استحصان ذہن کے مالک، دولت کو اپنے تک محدود رکھنے والے اور متکبّر اور اپنی عیش وعشرت میں مست ہیں، چنانچہ کسی کا غنی ہونا گویا مذکورہ بالا صفات سے متصف ہونا بھی ہے مگر الله نے غنی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بندوں کے لئے صاحب لطف وعنایت، فیّاض، فیض رساں اور سخی وجواد بھی ہے جو اسے حمدوستائش کا مستحق ٹھہراتا ہے ۔

ب) امیر لوگوں کی دولت وثروت ظاہری ہے، اگر وہ ساتھ ساتھ سخی بھی ہوں تو بھی وہ اپنا مال و دولت تو کسی کو نہیں دیتے کیونکہ درحقیقت تمام ثروت اور مال الله کا دیا ہوا ہے اور چونکہ اصلی اور ذاتی طور پر صاحب ثروت ودولت صرف الله ہی کی ذات ہے، لہٰذا حمد وثنا کا مستحق بھی دراصل وہی ہے ۔
ج) امیر و دولت مند لوگ اگر کوئی کام کرتے ہیں تو اس کی منفعت عام طور پر انہی کے حاصل ہوتی ہے، یہ صرف الله ہی ہے کہ جو بے حساب دیتا ہے اور کسی قسم کا نفع خود اسے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا جود وسخا اس کے بندوں کے لئے ہے، اسی سبب سے وہی سب سے زیادہ تعریف اور حمد وثنا کے لائق ہے ۔
اس کے بعد اپنی لامتناہی طاقت سے کائنات کو انسان کے لئے مسخر کرنے کے بارے میں ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے: کیا تونے ملاحظہ نہیں کیا الله نے زمین کی ہر ایک چیز تمھارے زیرِ تسلط قرار دی ہے اور تمام قدرتی وسائل طرح طرح کی نعمتیں اور چیزیں سب کی سب تمھارے اختیار میں دے دی گئی ہیں تاکہ جس طرح چاہو ان سے فائدہ اٹھاوٴ (اٴَلَمْ تَریٰ اٴَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ) ۔ اس طرح الله کے حکم سے سمندروں میں چلنے والے اور پانی کا سینہ چیز کر سوئے منزل بڑھنے والے جہاز بھی زیرِ تسلط قرار دے دیئے گئے (وَالْفُلْکَ تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِاٴَمْرِہِ) ۔ علاوہ ازیں ”الله آسمان کو اس کی جگہ پر روکے ہوئے ہے اور اس کی بلا اجازت زمین پر نہیں گرسکتا“ (وَیُمْسِکُ السَّمَاءَ اٴَنْ تَقَعَ عَلَی الْاٴَرْضِ إِلاَّ بِإِذْنِہِ) ۔
ایک طرف تو قوت دافعہ وجاذب مدار CENTRIFUGAL FORCESاور CENTRIRCTAL کے باقاعدہ متوازن نظام کے تحت اجرام فلکی کو اپنے اپنے مدار پر رہنے اور ایک دوسرے سے نہ ٹکرانے کا پابند کررکھا ہے، دوسرف طرف زمین کے گرد ہوا کا اس طرح غلاف لپیٹ رکھّا ہے تاکہ فضا میں منتشر پتھر زمین سے ٹکرا نہ سکیں اور اہلِ زمین کے لئے تکلیف اور پریشانی کا سبب نہ بنیں ۔
بیشک اپنے بندوں پر یہ اس کی رحمت، لطف اور کرم ہے کہ یُوں زمین کو ہر قسم کے خطرات سے خالی امن کا گہوارہ بنادیا تاکہ وہ انسان کے لئے پُرسکون اور آسائش کا مرکز بنی رہے، نہ پتھر اس سے ٹکرائیں اور نہ کوئی آسمانی کرّہ چنانچہ آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے، بیشک الله بندوں پر بڑا مہربان اور رحیم ہے (إِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَئُوفٌ رَحِیمٌ) ۔
زیربحث آخری آیت میں الله کے لئے پایاں اختیار کے حوالے سے زمین پر اہم ترین مسئلے یعنی ”موت وحیات“ کے بارے میں فرمایا گیا ہے: وہ وہی ہے کہ جس نے تمھیں زندگی دی (تم بے جان مٹی تھے، تم میں حیات کی رُوح پھونکی) (وَھُوَ الَّذِی اٴَحْیَاکُمْ) ۔ پھر زمانہٴ حیات کے بعد تمھیں موت دیتا ہے (اور جس مٹی سے تم اٹھے تھے واپس اسی میں چلے جاوٴ گے) (ثُمَّ یُمِیتُکُمْ)، پھر روز قیامت ایک نئی زندگی ملے گی (مردہ مٹی سے نکلو گے اور حساب اور جزاء وسزا کے لئے آوٴگے) (ثُمَّ یُحْیِیکُمْ) ۔ زمین وآسمان میں الله نے یہ تمام نعمتیں انسان کے لئے مخصوص کی ہیں، لیکن اس کے باوجود انسان بہت ناشکرا ہے، واضح اور کھلی نشانیاں کے باوجود الله کے وجود کا انکاری ہے (إِنَّ الْإِنسَانَ لَکَفُورٌ)

 

 

 

 

۱۔ اسی تفسیر کی جلد ۵ میں سورہٴ انعام آیت ۱۰۳ کی تفسیر کے ذیل میں الله کے لطیف ہونے کے بارے میں بڑی قابل توجہ بحث کی گئی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
 


چند اہم نکات
۱۔ پروردگار عالم کی خاص صفات


مندرجہ بالا آیتوں اور اسے پہلے کی دو آیتوں میں ایک خاص ترتیب کے ساتھ ساتھ چودہ مختلف صفات کا ذکر کیا گیا ہے، ہر آیت کے آخر میں دو صفات کا ذکر ہے:
۱۔ علیم وحلیم ۲۔عفو وغفور ۳۔سمیع وبصیر ۴۔علی وخبیر ۵۔لطیف وخبیر ۶۔غنی وحمید ۷۔روٴف ورحیم
ان میں ایک صفت دوسری کی تکمیل کرتی ہے: عفو، غفران کے ساتھ، سمیع بصیر کے ساتھ ساتھ رفعت وبلندی بڑائی کے ساتھ، لطیف ہونا مکمل اطلاع وآگاہی کے ساتھ ساتھ بے نیازی قابل ستائش ہونے کے ساتھ اور روٴف ہونا رحیم ہونے کے ساتھ، یہ سب صفات ایک دوسری سے ہم آہنگ اور مربوط ہیں ۔ علاوہ ازین ہر صفت اس مفہوم سے متعلق ہے جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں، لہٰذا اعادہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔


۲۔ ان آیتوں کا ایک استدلالی پہلو


اجس طرح مندرجہ بالا آیتیں الله کی قدرت کی نشاندہی کرتی ہیں اور اپنے ذاتِ اقدس کی حقانیت پر بھی دال ہیں، نیز توحید، معاداور قیامت کا بھی ثبوت ہیں، بارش کے اثر سے مردہ زمینوں کا سرسبز وشاداب ہوجانا، اسی طرح انسان کی پہلی حیات وموت کا تذکرہ اس کی قدرت کا بیّن ثبوت ہے کہ وہ انسان کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے، قرآن مجید کی اور بہت سب آیتیں انہی امور کے ذریعے مسئلہ معاد وقیامت پر استدلال کرتی ہے ۔
ضمنی طور پر یہ بھی بیان ہوجائے کہ ”إِنَّ الْإِنسَانَ لَکَفُورٌ“میں ”لَکَفُور“ مبالغے کا صیغہ ہے اور انسان کی بڑھتی ہوئی ہٹ دھرمی اور کفر وضلالت پر دلالت کرتا ہے، یعنی انسان اس قدر ناشکرا اور کفران نعمت کرنے والا ہے، الله تعالیٰ کی ان تمام آیات عظمت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود راہِ انکار اختیار کرتا ہے، یا یہ اس قسم کے افراد کے ناشکرے ہونے کی طرف اشارہ ہے، جو سرتا پرا اس کی نعمتوں سے سرشار ہونے کے باوجود نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں ۔


۳۔ کائنات کا انسان کے لئے مسخر ہونا


ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ کائنات کے لئے انسان کے لئے مسخر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کائنات انسان کی خدمت گزار ہے اور اس کے مفاد کے لئے ہے (سورہٴ نحل کی آیت نمبر ۱۲ تا نمبر ۱۴کی تفسیر کے ذیل میں اسی تفسیر کی جلد نمبر ۱۱، اور جلد نمبر۱۰ میں سورہٴ رعد آیت نمبر۲ کی تفسیر کے ذیل میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔
دُنیا کے بے شمار نشانیوں اور نعمتوں میں سے سمندر میں چلنے والے جہاز کا خاص طور سے اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ ماضی اور موجودزمانے میں انسانوں کے روابط اور میل جول اور ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل ونقل کا بہترین ذریعہ یہی بحری جہاز اور کشتیاں ہیں، ان کے علاوہ حمل ونقل کا کوئی ذریعہ زیادہ رواج نہیں پاسکا، یہ بات یقینی ہے کہ اگر ایک دن سمندر میں چلنے والے تمام کے تمام راستے سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی برّی راستے اتنے مفید سمجھے جاتے ہیں، خصوصاً آج ہمارے دور میں جبکہ صنعت وحرف کی شہ رگ تیل ہے، اور تیل کی نقل وحرکت کے لئے اہم ترین ذریعہ یہی بحری جہاز ہیں ۔ اس طرح بحری جہازوں کی اہمیت کتنے گنا بڑھ جاتی ہے، جتنا تیل ایک بڑے تیل بردار جہاز کے ذریعے لے جایا جاسکتا ہے ۔ اتنا تیل دس ہزار ٹرک بھی نہیں لے جاسکتے اور پائپ لائنوں کے ذریعے بھی ایک محدود علاقوں میں ہی نقل کی جاسکتی ہے ۔


۶۷ لِکُلِّ اٴُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا ھُمْ نَاسِکُوہُ فَلَایُنَازِعُنَّکَ فِی الْاٴَمْرِ وَادْعُ إِلَی رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلیٰ ھُدًی مُسْتَقِیمٍ
۶۸ وَإِنْ جَادَلُوکَ فَقُلْ اللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ
۶۹ اللهُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا کُنْتُمْ فِیہِ تَخْتَلِفُونَ
۷۰ اٴَلَمْ تَعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ إِنَّ ذٰلِکَ فِی کِتَابٍ إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیرٌ

 

سوره حج / آیه 67 - 78 سوره حج / آیه 63 - 66
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma