شانِ نزول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
منافقین کا خطر نا ک پرگرام یہ خوبی ہے عیب نہیں

بعض مفسرین کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ زیر نظر دونوں آیتیں گذشتہ آیت کی تکمیل کرتی ہیں او ریہ طبعا ً اور فطرتاً اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہیں ۔لیکن مفسرین کی ایک او رجماعت نے ان دونوں آیات کے بارے میں ایک اور شانِ نزول نقل کی ہے او روہ یہ ہے کہ جب جنگِ تبوک کی مخالفت کرنے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں کی مذمت میں آیات نازل ہوئیں تو منافقوں میں سے ایک نے کہا: خد اکی قسم ! یہ لوگ ہمارے بزرگ اور اشراف ہیں او رجو کچھ محمد ان کے بارے میں کہتا ہے سچ ہے تو پھر یہ چوپایوں سے بھی گئے گذرے ہیں ۔
ایک مسلمان نے یہ بات سن کر کہا : خدا کی قسم ! جو کچھ آنحضرت کہتے ہیں وہ حق ہے او رتو چوپائے سے بھی بد تر ہے ۔ جب یہ بات رسول اکرم کے پاس پہنچی تو آپ نے کسی کو اس منافق کو بلانے کے لئے بھیجا اور اس سے پوچھا کہ تونے یہ بات کیوں کہی ہے ؟ تو اس نے قسم کھا کر کہا : میں نے یہ بات نہیں کہی۔
وہ مرد مومن جو اس کے خلاف تھا اسی نے یہ بات جا کر حضور سے کہی تھی اس نے دعا کی :۔ تو خود سچے کی تصدیق او رجھوٹے کی تکذیب فرما۔
اس وقت یہ آیات ِ مندرجہ بالانازل ہوئیں اور دددھ کا دودھ او رپانی کا پانی کردیا۔

 

 

منافقین کی ایک نشانی

منافقین کی ایک اور کھلی نشانی اور عمل بد یہ ہے جس کی طرف قرآن اشارہ کررہا ہے کہ وہ اپنی بد کرداری کو چھپانے کے لئے اپنی بہت سی کرتوتوں کا انکار کر دیتے ہیں او رچاہتے ہیں اور چاہتے تھے کہ جھوٹ موٹ قسموں کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دیتے رہیں اور انھیں اپنے آپ سے راضی رکھیں ۔
مندرجہ بالا آیتوں میں ایک طرف قرآن اس بر عمل سے پر دہ اٹھا کر ان کو ذلیل کرتا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو بت ادیتا ہے کہ وہ ان کی جھوٹی قسموں میں نہ آئیں ۔ پہلے کہتا ہے : وہ تمہارے سامنے خدا کی قسم کھاتے ہیں تاکہ تمہیں خو ش رکھیں ( یَحْلِفُونَ بِاللهِ لَکُمْ لِیُرْضُوکُمْ )۔
ظاہر ہے کہ ان قسموں سے ان کا مقصد حقیقت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مکرو فریب سے حقیقت کا چہرہ تماہری نظروں میں مسخ کردیں او راپنا مقصد حاصل کرلیں ۔ اگر ان کا نصب العین او رمقصد یہ ہوتا کہ واقعاً سچے مومنین کو اپنے سے راضی کریں تو اس سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ وہ خدا اور اس کے پیغمبر کو راضی کرلیں ۔حالانکہ انھوں اپنے کردار او رعمل سے خدا و رسول کو سخت ناراض کیا ہے ۔ لہٰذا قرآن کہتا ہے : اگر وہ سچ کہتے ہیں اور ایماندار ہیں تو مناسب یہ ہے کہ وہ خدا اور پیغمبر کو راضی کریں (وَاللهُ وَرَسُولُہُ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُرْضُوہُ إِنْ کَانُوا مُؤْمِنِینَ )۔
قابل غور امر یہ ہے کہ اس جملے میں چونکہ خدا اور اس کے رسول کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے تو قاعدے کے لحاظ سے میر کو تثنیہ ہو نا چاہئیے لیکن اس کے باوجود ضمیر ” واحد “ استعمال ہو ئی ہے ( مراد یر ضوہ کی ضمیر ہے ) حقیقت میںاس تعبیر کا اشارہ اس طرف ہے کہ پیغمبر کی رضا اور خدا کی رضا جدا جدا نہیں ہے اور رسول اسی چیز کو پسند کرتے ہیں جسے خدا وند عالم پسند کرتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ ” توحید افعالی “ کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ خدا کے مقابلے میں اپنی طرف سے استقلال نہیں رکھتے ۔ ان کی خو شی او رنا راضی سب خدا کے لئے ہے ۔ ان کا سب کچھ اس کے لئے اور اس کی راہ میں ہے ۔
چند ایک روایات میں ہے کہ پیغمبر اکرم کے زمانے میں ایک شخص نے اثنائے گفتگو میں یوں کہا :
من اطاع اللہ ورسولہ فقد فازو من عصا ھما فقد غوی
جس نے خدا اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کی وہ کامیاب ہوا اور جس نے ان دونوں کی مخالفت کی وہ گمراہ ہوا
جب پیغمبر نے یہ بات سنی کہ اس نے خدا اور پیغمبر کو ایک درجے میں رکھا ہے اور تثنیہ کی ضمیر استعمال کی ہے تو آپ پریشان ہوگئے اور فرمایا :
بئس الخطیب انت ھلا قلت من عصی اللہ و رسولہ
تم برے خطیب ہو تم نے اس طرح کیوں نہیں کہا کہ جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے  ( بلکہ تم نے تثنیہ کی ضمیر استعمال کی ہے اور کہا ہے کہ جو ان دونوںکو حکم نہ مانے )۔۱
اس کے بعد کی آیت میں قرآن ایسے منافقوں کو سخت دھمکی دیتا ہے او رکہتا ہے :” کیا وہ نہیں جانتے کہ جو خدا اور اس کے رسول کی مخالفت اور دشمنی کرے اس کے لئے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّہُ مَنْ یُحَادِدْ اللهَ وَرَسُولَہُ فَاٴَنَّ لَہُ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدًا فِیہَا )۔اس کے بعد تاکید کے طور پر فرماتا ہے : یہ بڑی ذلت ورسوائی ہے (ذَلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیمُ)۔
” یحادو“ محادة “ کے مادہ سے ہے اور ” حد“ کی اصل سے ہے جو کنارہ ، طرف اور کسی چیز کی انتہا کے معنی میں آتا ہے ۔ چونکہ مخالفت اور دشمن افراد ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں اس لئے یہ ” محادہ “ کا مادہ عداوت اور دشمنی کا مفہوم رکھتا ہے جیسا کہ ہم روز مرہ کی گفتگو میں لفظ ” ظرفیت “ مخالفت اور دشمنی کے معنی میں بولتے ہیں ۔

 

۶۴۔ یَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ اٴَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُھُمْ بِمَا فِی قُوبِھمْ قُلْ اسْتَہْزِئُوا إِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ۔
۶۵۔ وَلَئِنْ سَاٴَلْتَہُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اٴَبِاللهِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ تَسْتَہْزِئُونَ ۔
۶۶۔ لاَتَعْتَذِرُوا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْکُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِاٴَنَّہُمْ کَانُوا مُجْرِمِینَ۔
ترجمہ
۶۴۔ منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی آیت کے خلاف نازل نہ ہوجائے جو ان کے دلوں کے بھید وں کی انھیں خبر دے دے ۔ کہہ دیجئے کہ ٓ
ا ستہزاء او رمذاق کرلو ۔ جس کا تمہیں ڈر ہے خدا اسے ظاہر کرے گا ۔
۶۵۔ اگر تم ان سے پوچھو ( کہ تم یہ برے کام کیوں کرتے ہو) تو وہ کہتے ہیں کہ ہم مذاق کرتے ہیں تو کہہ دو کہ کیاتم خدا ، اس کی آیات اور اس کے پیغمبر کامذاق اڑاتے ہو ؟
۶۶۔ ( کہہ دو) معذرت نہ کرو( کیونکہ وہ فضول ہے اس لئے کہ ) تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے ہو ۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو ( توبہ کرنے کی وجہ سے  معاف کر دیں تو دوسرے گروہ کو عذاب میں مبتلا کریں گے کیونکہ وہ مجرم تھے ۔

 


۱۔تفسیر ابو الفتح رازی ، آیہ مذکورہ کے ذیل میں ۔
 
منافقین کا خطر نا ک پرگرام یہ خوبی ہے عیب نہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma