ایک سوال اور اس کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
شان نزول شان ِ نزول

یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے ا س کے بارے میں مفسرین نے بہت کم ہی کہیں جامع بحث کی ہے سوال یہ ہے کہ اس گروہ میں اور اس گروہ میں جس کی حالت اسی سورہ کی آیہ ۱۰۲ میں گذر چکی ہے کیا فرق ہے دونوں گروہ گنہ گار تھے اور دونوں نے اپنے گناہ سے توبہ کی۔ پہلے گروہ نے اپنے گناہ کا اعترافکرکے پشمانی کا اظہار کیا ااور دوسرے گروہ کے بارے میں ” امایتوب علیھم “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی توبہ کی ۔ اسی طرح دونوں گروہ رحمت الہٰی کی توقع رکھتے تھے ۔ اور دونوں خوف و رجاء کے درمیان تھے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم دو طریقوں سے ان دونوں گروہوں میں فر ق کرسکتے ہیں ۔
۱۔ پہلے گروہ نے فوراً توبہ کی اور کھلے بندوں پشیمانی کی علامت کے طور پر آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا
جیسے ابو لبابہ کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں ۔مختصر یہ کہ انھوں نے اپنی ندامت کا اظہار صراحت کے ساتھ کیا او ربدنی اور مالی طور پر ہر قسم کی تلافی کے لئے اپنی آمادگی ظاہر کردی ۔
جبکہ دوسرے گروہ کے افراد ایسے تھے جنھوں نے اپنی پشیمانی کی ابتداء میں اپنی کیفیت ظاہرنہیں کی اگر چہ وہ دل میں پشیمان ہوئے تھے اور انھوں نے گزشتہ کی تلافی کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔ حقیقت میں وہ چاہتے تھے کہ ساد گی اور آسانی سے اپنے گناہوں سے گذر جائیں ۔ ان کی واضح مثال وہ تین افراد تھے جن کی طرف سطور بالا میں اشارہ ہوا ہے ۔ ان کی حالت کی وضاحت عنقریب آئے گی یہ لوگ خوف و رجاء کے درمیان تھے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ نے حکم دیا کہ لوگ ان سے علیحدہ رہیں اور ان سے روابط منقطع رکھیں ۔، اس طرح وہ معاشرے کے شدید دباوٴ کا شکار تھے اور آخر کار وہ مجبور ہوئے کہ پہلے گروہ کا ساراستہ اختیار کریں ۔
ایسے اشخاص کی توبہ کی قبولیت کا اعلان چونکہ آیت نازل ہو نے کی صورت میں ہوا لہٰذا پیغمبر اکرم اس مدت تک وحی کے انتظار میں تھے یہاں تک کہ پچاس دنوں میں یا اس سے کم مدت میں ان کی تو بہ قبول ہو ئی اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے گروہ کے بارے میں جبتک انھوں نے اپنی روش کو تبدیل نہیں کیا ” واللہ علیم حکیم “کا جملہ آیا ہے ۔ کہ جس میں توبہ قبول ہونے کی کوئی بات نہیں ہے ۔
البتہ باعث تعجب نہیں کہ بڑے بڑے گناہوں کے بارے میں خصوصاً نزول آیات کے زمانے میں صرف ندامت و پشیمانی توبہ قبول ہونے کے لئے کافی نہ ہو ۔ بلکہ تلافی کے لئے اقدام ، واضح طور پر گناہ کا اعتراف اور اس کے بعد آیت کا نزول توبہ قبول ہو نے کے لئے شرط ہو۔
۲۔ دوسرا فرق جو ممکن ہے دونوں گروہوں کے درمیان ہو یہ ہے کہ پہلے گروہ نے اگر چہ ایک عظیم اسلامی فریضہ یعنی جہاد سے تخلف کیا تھا یا بعض جنگی اسرار دشمن کو بتائے تھے تا ہم ان کے ساتھ سید الشہداء حمزہ کے قتل جیسے عظیم گناہوں سے آلودہ نہ تھے اس لئے ان کی توبہ او رتلافی کے لئے آمادگی کے بعد خدا تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی لیکن جناب حمزہ کا قتل ایسا گناہ نہ تھا ج سکی تلافی ہو سکے ۔ اس لئے اس گروہ کی نجات حکم ِ خدا سے وابستہ تھی کہ وہ انھیں اپنی عفو بخشش سے نوازتا ہے یا انھیں سزا اور عذاب میں مبتلا کرتا ہے ۔
بہر حال پہلا جواب آیت کی شان نزول کے بارے میں مروی ان روایات سے مطابقت رکھتا ہے جو محل بحث آیت کو جنگ تبوک سے متخلف تین افراد کے ساتھ ربط رکھتی ہیں دوسرا جواب ان روایات سے موافقت رکھتا ہے جو طرق اہل بیت(ع) سے پہنچی ہیں اور جن میں ہے کہ یہ آیت حمزہ ، جعفر او راس قسم کے دیگر افراد کے بارے میں ہے ۔ ۱
اگر صحیح غور و فکر کیا جائے تو یہ دونوں جوابات ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ آیت کی تفسیر میں دونوں ہی مراد ہوں ۔

 

۱۰۷۔ وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا وَتَفْرِیقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُولَہُ مِنْ قَبْلُ وَلَیَحْلِفُنَّ إِنْ اٴَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَی وَاللهُ یَشْہَدُ إِنّھُمْ لَکَاذِبُونَ ۔
۱۰۸۔ لاَتَقُمْ فِیہِ اٴَبَدًا لَمَسْجِدٌ اٴُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ اٴَوَّلِ یَوْمٍ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَقُومَ فِیہِ فِیہِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ اٴَنْ یَتَطَھرُوا وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطّھِّرِینَ ۔
۱۰۹۔ اٴَفَمَنْ اٴَسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلَی تَقْوَی مِنْ اللهِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌ اٴَمْ مَنْ اٴَسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلَی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہِ فِی نَارِ جَہَنَّمَ وَاللهُ لاَیَھْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ۔
۱۱۰۔ لاَیَزَالُ بُنْیَانُھُمْ الَّذِی بَنَوْا رِیبَةً فِی قُلُوبِھِمْ إِلاَّ اٴَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُھُمْ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ۔

ترجمہ
۱۰۷۔ (مزید بر آں ) وہ لوگ ہیں جنھوں نے ( مسلمانوں کو ) نقصان پہنچائے اور کفر ( کوتقویت دینے ) کے لئے اور مومنین میں تفرقہ ڈالنے کی خاطر ایسے افراد کے لئے کمین گاہ مہیا کرنے کے جنھوں نے پہلے ہی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی ہے ، مسجد بنائی ہے وہ قسم کھاتے ہیں کہ ہمرا مقصد سوائے نیکی ( اور خدمت) کے اور کچھ نہیں لیکن خدا گوہای دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ۔
۱۰۸۔ اس میں ہر گز قیام ( او رعبادت ) نہ کرنا ۔ وہ مسجد جو روز اول سے تقویٰ کی بنیاد پربنی ہے زیادہ حق رکھتی ہے کہ تم اس میں قیام ( اور عبادت ) کرو ۔اس میں ایسے مرد ہیں جو پاک او رپا کیزہ رہنا پسند کرتے ہیں اور خدا پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
۱۰۹۔ کیا وہ شخص جس نے اس کی بنیادتقویٰ الٰہی اور اس کی خوشنودی پر رکھی ہے بہتر ہے یاوہ شخص جو نے اس کی بنیاد گرنے والی کمزور جگہ پررکھی ہے کہ جو اچانک جہنم کی آ گ میں گرجائے گی اور خدا کی ظالم گروہ کو ہدایت نہیں کرتا ۔
۱۱۰۔ (لیکن ) یہ بنیاد جو انھوں نے رکھی ہے، اس کے دلوں میں ہمیشہ شک اور تردد کے ذریعے کے طور پر باقی رہے گی۔ مگر یہ کہ ان کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں(اور وہ مر جائیں ورنہ چیز ان کے دلوں سے نہیں نکلے گی ) اور خدا دانا و حکیم ۔

 


۱۔ ان روایات کو جاننے کے لئے تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص ۲۶۵ اور تفسیر بر ہان جلد۲ ص ۱۰۶ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
 
شان نزول شان ِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma