تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
گوشت کے استعمال میں اعتدال ایک آیت میں آٹھ احکام

اس سورہ کی ابتداء میں چوپایوں کا گوشت حلال ہونے کا تذکرہ ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا تھا کہ اس سلسلے میں جن کے بارے میں استثناء ہے ان کا ذکر بعد میں آئے گا ۔
زیر بحث آیت میں در اصل وہی استثنائی حکم ہے جس کے بارے میں وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس میں گیارہ چیزوں کے حرام ہونے کا ذکر ہے ان میں سے بعض کے حرام ہونے کا حکم قرآن کی بعض دیگر آیات میں بھی آیا ہے یہاں ان کا تکرار تاکید کے طور پر ہے ۔
۱۔ پہلے فرماتا ہے : مردار تم پر حرام کیا گیا ہے (حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةُ) ۔
۲۔ اسی طرح خون بھی حرام ہے (وَ الدَّمُ ) ۔
۳۔سور کا گوشت بھی حرام ہے (وَ لَحْمُ الْخِنْزیرِ ) ۔
۴۔ اور وہ جانور جو زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق بتوں کے نام پر اور اصولی طور پر غیر خدا کے نام پر ذبح کئے جائیں، ان کا گوشت بھی حرام ہے ( وَ ما اٴُہِلَّ لِغَیْرِ اللَّہِ بِہِ ) ۔
ان چاروں چیزوں کی تحریم اور اس کے فلسفہ کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں ہم کافی بحث کرچکے ہیں ( اردو ترجمہ ص ۴۱۴) ۔
۵۔ نیز جانور بھی کہ جن کا گلا گھونٹ دیا جائے ، حرام ہیں ، چاہے خود بخود ایسا ہو یا پھندے کے سبب ہو یا کوئی انسان ایسا کام انجام دے ( جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ بعض اوقات کسی جانور کو دو لکڑیوں یا درخت کی دو شاخوں میں سختی سے دبا تے تھے یہاں تک کہ وہ مر جاتا تھا اورپھر اس کا گوشت استعمال کرتے تھے ) (وَ الْمُنْخَنِقَةُ ) ۔
بعض روایات میں ہے کہ خاص طور پر مجوسی ایسا کرتے تھے کہ جانور کا گلا گھونٹ کر مارتے اس کے بعد اس کا گوشت کھاتے لہٰذا ممکن ہے کہ آیت کا ان کے اس طریقے کی طرف بھی اشارہ ہو۔ ۱
۶۔ اور وہ جانور بھی حرام ہیں جو تشدد اور مار پیٹ سے مر جائیں یا بیماری کی وجہ سے مر جائیں ( وَ الْمَوْقُوذَةُ ) ۔۲
تفسیر قرطبی میں ہے کہ عربوں میں رواج تھا کہ وہ بعض جانوروں کو بتوں کی خاطر اس قدر مارتے کہ وہ مر جاتے ، اور وہ اسے ایک طرح کی عبادت سمجھتے تھے۔ ۳
۷۔ اور وہ جانور بھی حرام ہیں جو بلندی سے گر مر جائیں (وَ الْمُتَرَدِّیَةُ ) ۔
۸۔ نیزوہ جانور جو سینگ مارنے سے مر جائیں ان کا گوشت بھی حرام ہے ( وَ النَّطیحَةُ ) ۔
۹۔ اور وہ جانور بھی حرام ہیں جو درندوں کے حملے کی وجہ سے مرجائیں( وَ ما اٴَکَلَ السَّبُعُ ) ۔
ان آخر والے پانچ قسم کے جانوروں کے گوشت کی حرمت کا ایک فلسفہ ممکن ہے یہ ہو کہ ان سے کافی مقدار میں خون نہیں نکلتا ۔ کیونکہ جب تک گردن کی اصلی رگیں نہ کاٹی جائیں اس وقت تک خون کی کافی مقدار نہیں نکلتی اورہم جانتے ہیں کہ خون طرح طرح کے جراثیم کا مرکز ہوتا ہے اور جانور کے مرتے ہی سب سے پہلے خون میں بد بو پیدا ہوتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایسے گوشت میں ایک طرح کا زہر یلا پن زیادہ ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں ذبح کرنے میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور قبلہ رو ہو کر ذبح کیا جاتا ہے اس طرح سے جو معنوی پہلو پیدا ہوتا ہے وہ مذکورہ بالا صورتوں میں نہیں ہے ۔
لیکن جانور کے مرنے سے پہلے ان تک پہنچ جائیں اور آداب اسلامی کے مطابق اسے ذبح کرلیں اور اس کا خون کافی مقدار میں نکل آئے تو وہ حلال ہو جائے گا ۔ اسی لئے مندرجہ بالا مواقع کی حرمت کے بعد فرمایا گیا ہے : ( إِلاَّ ما ذَکَّیْتُمْ) ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ استثناء صرف آخری قسم یعنی ”وما اکل السبع “کے بارے میں ، لیکن اکثر مفسرین کا نظر یہ یہ ہے کہ تمام قسموں کے بارے میں ہے اور یہی بات زیادہ قرین ِ حقیقت ہے ۔
ممکن ہے سوال کیا جائے کہ جب تک آیت کی ابتداء میں ” میتة“کہہ دیا گیا ہے تو پھر ان مواقع کا ذکر کیوں کیا گیا ہے اور کیا یہ سب ” میتہ“ کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ فقہی اور شرعی لحاظ سے ” میتة “ کا ایک وسیع مفہوم ہے اس لحاظ سے جوبھی حیوان شرعی طریقے سے ذبح نہ ہووہ اس کے مفہوم میں داخل ہے لیکن لغت میں عموماً ” میتة “ اس جانور کو کہتے ہیں جو خود بخود مر جائے اس لئے مندرجہ بالا مواقع ” میتة “ کے لغوی معنی میں داخل نہیں ہیں اور نہیں تو کم از کم اس کا احتمال ہے کہ واخل نہ ہوں ۔
لہٰذا ان کی صراحت کی ضرورت تھی ۔
۱۰۔ زمانہ جاہلیت میں بت پرستوں نے کچھ پتھر خانہ کعبہ کے گرد نصب کررکھے تھے ان کی کوئی خاص شکل و صورت نہ تھی ۔ انھیں ” نصب “ کہتے تھے ۔ ان کے سامنے قربانی کرتے تھے اور قربانی کاخون ان پر مَل دیتے تھے ان کے اور دیگر بتوں کے درمیان فرق یہ تھا کہ دیگر بتوں کی کوئی مخصوص شکل ہوتی تھی لیکن ” نصب “ کو کوئی صورت نہ ہوتی تھی ۔ اسلام نے زیر نظر آیت میں ایسی قربانی کے گوشت کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے ( وَ ما ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ ) ۔واضح ہے کہ ایسے گوشت کی حرمت اخلاقی اور معنوی پہلو رکھتی ہے نہ کہ مادی اور جسمانی ۔ در حقیت یہ ”وما اھل لغیر اللہ بہ “ کی اقسام میں سے ہے۔
۱۱۔ جانوروں کی ایک اور طرح کی حرمت بھی زیر نظر آیت میں آئی ہے اور وہ ہے قسمت آزمائی کے طور پر ذبح ہونے والے جانور۔ ہوتا یہ تھا کہ دس آدمی آپس میں شرط لگاتے تھے اور ایک جانور خرید کر اسے ذبح کر دیتے تھے پھر تیر کی دس لکڑیاں جن میں سے سات پر ” کامیاب “ او رتین پر ” ناکام “ لکھا ہوتا تھا ایک مخصوص تھیلے میں رکھ دیتے تھے پھر قرعہ اندازی کی صورت میں ان دس آدمیوں میں سے ایک ایک کے نام پر تیر باہر نکالتے جن سات لکڑیوں پر ” کامیاب لکھا ہوتا وہ جس جس کے نام نکلتیں اسے دے دیتے اور وہ گوشت کا ایک حصہ اٹھا لیتا اور اسے اس کے بدلے کچھ نہ دیتا پڑتا ۔ دوسری طرف وہ تین افراد جن کے نام ” ناکام “ والی لکڑیاں نکلتیں ان میں سے ہر ایک کے لئے لازمی ہوتا کہ وہ اس جانور کی ایک تہائی قیمت ادا کرے ، جبکہ گوشت کا بھی اسے کوئی حصہ نہ ملتا ۔ان لکڑیوں کو ” ازلام “ کہتے ہیں ۔ ” ازلام “ ” زلم “ ( بر وزن ” قلم “ ) کی جمع ہے اسلام نے ایسے گوشت کا کھانا حرام قرار دے دیا ہے ۔ یہ حرمت اس بناپر نہیں کہ اصل گوشت حرام ہے بلکہ اس لئے کہ قمار بازی اور قسمت آز مائی ( لاٹری وغیرہ ) کاپہلو لئے ہو ہے قرآن فرماتا ہے : وَ اٴَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْاٴَزْلامِ ) ۔
واضح ہے کہ قمار بازی وغیرہ کی حرمت جانوروں کے گوشت سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ہرجگہ اور ہر صورت میں قمار بازی ممنوع ہے اور اس کے مفہوم میں تمام نقصان دہ امور، بے مقصد کام او ربیہودہ پرگرام شامل ہیں آخر میں ان احکام ِ حرمت کی تاکید کے لئے فرمایاگیا ہے : یہ تمام احکام فسق ہیں اور طاعت پر وردگار کی حدود سے خارج ہیں ( ذلِکُمْ فِسْقٌ ) ۔4

 


۱۔ وسائل الشیعہ، جلد ۱۶ صفحہ ۲۷۳۔
۲ ” موقوذة “ کا مادہ ہے ” وقذ“ ( بر وزن ” نقص“) یہ ایسی سخت مار پیٹ کے معنی میں ہے کہ جو موت تک پہنچادے یا سخت بیماری جو جانور کو موت کے کنارے لے جائے بعض اوقات ایسا تشدد اور ایسی بیماری کو بھی ” وقذ“ کہتے ہیں جو موت تک نہ پہچائے بہر حال اس آیت میں پہلا معنی ہی مراد ہے ۔
۳ تفسیر قرطبی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
4 ”’ ذٰلکم “اگر چہ اسم اشارہ مفرد ہے کہ جس میں خطاب جمع کے صیغے سے کیا گیا ہے اور قاعدةً اسے مفرد کی طرف لوٹنا چاہئیے لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفرد اشارہ اس مجموعے کے لئے جو مفرد فرض کیا گیا ہو، کوئی اشکال نہیں رکھتا ۔
گوشت کے استعمال میں اعتدال ایک آیت میں آٹھ احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma