اہل کتاب کا کھانا کھانا اور ان میں شادی بیاہ کرنا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
جسم اور رُوح کی پاکیزگیحلال شکار

یہ آیت گذشتہ آیات کے مباحث کی تکمیل کرتی ہے، پہلے فرمایا: آج کے دن سے پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہوگئی ہیں اور اہل کتاب کے کھانے تمھارے لیے اور تمھارے کھانے ان کے لیے حلال ہیں (الْیَوْمَ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّباتُ وَ طَعامُ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ حِلٌّ لَکُمْ وَ طَعامُکُمْ حِلٌّ لَہُمْ) ۔
یہاں چند مطالب توجّہ طلب ہیں۔
۱۔ ”الْیَوْمَ“ (آج کا دن) سے مراد بعض مفسّرین کے مطابق عرفہ کا دن ہے اور بعض اسے فتح خیبر کا دن کہتے ہیں لیکن بعید نہیں کہ یہ یوم غدیر ہو کہ جب اسلام کو کفار پر مکمل کامیابی حاصل ہوئی تھی( اس بات کی وضاحت ہم عنقریب کریں گے) ۔
۲۔ طیبات تو اس دن سے پہلے بھی حلال تھے یہاں ان کی حلّت کا ذکر اہلِ کتاب کے کھانے کے بارے میں آنیوالے حکم کی تمہید کے طور پر ہے۔
۳۔ اہل ِ کتاب کا طعام جسے آیت میں حلال قرار دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں زیادہ تر مفسرین اور علماءِ اہلِ سنت کا نظریہ یہ ہے کہ اس میں ہر طرح کا کھانا شامل ہے، چاہے ان جانوروں کا گوشت ہو جو ان کے ہاتھ سے ذبح ہوئے ہوں۔
یا اس کے علاوہ کچھ ہو۔ لیکن شیعہ فقہاء اور مفسرین کی قطعی اکثریت کا یہ نظریہ ہے کہ اس سے مراد ان کے ہاتھوں ذبح شدہ جانوروں کے گوشت کے علاوہ ہے۔ چند شیعہ علماء پہلے نظریہ کے پیرو ہیں۔
ائمہ اہل بیت(علیه السلام) سے منقول متعدد روایات بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں کہ آیت میں طعام سے مراد اہلِ کتاب کے ذبیحہ کے علاوہ ہے۔
تفسیر علی بن ابراہیم میں امام صادق علیہ السلام سے زیر نظر آیت کے بارے میں منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”عنی بطعامہم ہٰہنا الحبوب و الفاکہة غیر الذبائح التی یذبحون فانہم لا یذکرون اسم اللہ علیہا“
اہل کتاب کے طعام سے مراد دانے اور میوے ہیں نہ کہ ان کے ذبح کیے ہوئے جانور، کیونکہ وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتے۔۱
دوسری متعدد روایات جو وسائل الشیعہ جلد ۱۶ ابواب اطعمہ و اشربہ کے باب ۵۱ صفحہ ۱،۲ پر مذکور ہیں نیز گذشتہ آیات میں وقت نظر سے معلوم ہوتاہے کہ اہلِ کتاب کے ذبح شدہ جانوروں کے علاوہ ان سے کھانا پینا حقیقت کے زیادہ نزدیک ہے، کیونکہ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے مذکورہ روایت میں نشاندہی فرمائی ہے کہ اہل کتاب ذبح کرنے میں زیادہ تر اسلامی شرائط کو ملحوظ نہیں رکھتے نہ وہ خدا کا نام لیتے ہیں اور نہ جانور کو رو بقبلہ ذبح کرتے ہیں، اسی لیے باقی شرائط بھی پوری نہیں کرتے تو کیسے ممکن ہے کہ گذشتہ آیات میں تو ایسا جانور صریحاً حرام قرار دیا گیا ہو اور اس آیت میں اسے حلال شمار کرلیاگیاہو۔
یہاں چند سوالات سامنے آتے ہیں:
پہلا سوال: اگر طعام سے مراد گوشت کے علاوہ دوسرے کھانے ہیں تو وہ تو پہلے بھی حلال تھے کیا اس آیت کے نزول سے قبل گندم اور ایسی دیگر اجناس اہلِ کتاب سے خرید نا ممنوع تھا، حالانکہ مسلمانوں اور ان کے در میان ہمیشہ کار و بار رہتا تھا ۔
آیت کی تفسیر میں ایک بنیادی نقطے کی طرف توجّہ کرنے سے اس سوال کا جواب مل جاتاہے اور وہ یہ کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب اسلام پورے جزیرہ ٴ عرب پر غالب آچکاتھا ۔ اور پورے جزیرةِ عرب میں اس کا وجود مسلّم ہوچکا تھا اب دشمنان اسلام مسلمانوں کو شکست دینے سے مایوس ہوچکے تھے اس موقع پر ان حد بندیوں کو برطرف کیا جانا چاہیے تھا جو پہلے کفار سے مسلمانوں کی معاشرت کے بارے میں تھیں، پہلے ان کے ہاں آنا جانا، انھیں مہمان بلانا، ان کے ہاں بطور مہمان جانا ممنوع تھا ۔ لہٰذا اس آیت نے بتایا کہ اب کے بعد جبکہ تم اپنی حیثیت اور مقام منوا چکے ہو اور ان سے تمھیں کوئی خطرہ نہیں رہا ان سے معاشرتی حد بندیوں میں کمی کر دی گئی ہے لہٰذا اب تم ان کے مہمان بن سکتے ہو اور انھیں بھے اپنے ہاں دعوت دے سکتے ہو اسی طرح ان میں شادی بھی کرسکتے ہو (لیکن ان سب امور کی اپنی اپنی شرائط ہیں جن کی طرف اشارہ کیا جائے گا) ۔
یہ بات بغیر کہے نہ رہ جائے کہ جو لوگ اہل کتاب کو پاک نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کھانا اس صورت میں کھایا جا سکتاہے جب غذا و غیرہ مرطوب نہ ہو یا مرطوب ہو تو ان کا ہاتھ اسے نہ لگاہو، لیکن ایسے محققین جو اہلِ کتاب کی طہارت کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ اگر ان کا کھانا ان کے ذبیحہ سے تیار نہ کیا گیا ہو اور نجاست عرضی کا یقین بھی نہ ہو ( مثلاً شراب یا آب جو و غیرہ سے نجس نہ ہوا ہو) تو پھر ان کے ساتھ کھانا کھایا جاسکتاہے۔
خلاصہ یہ کہ زیر بحث آیت کا مقصد در اصل اہلِ کتاب سے معاشرت کے سلسلے میں گذشتہ حد بندیوں کو برطرف کرناہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ فرمایا گیا ہے کہ تمھارا کھانا بھی ان کے لیے حلال ہے یعنی انھیں اپنے ہاں مہمان بلانے میں بھی کوئی حرج نہیں نیز اس کے فوراً بعد اہل کتاب کی عورتوں سی شادی کرنے کے بارے میں بھی حکم بیان کیا گیاہے۔
یہ امر واضح ہے کہ ایک حکومت اپنے پیروکاروں کو ایسا حکم دے سکتی ہے جب وہ اپنے ماحول پر پوری طرح سے کنٹرول حاصل کرلے اور اسے دشمن کا کوئی خوف نہ رہے ایسی صُورتِ حال در اصل یوم غدیر پر پیدا ہوچکی تھی ۔ بعض کے نزدیک یہ حجة الوداع کا روزِ عرفہ تھا یا فتح خیبر کے بعد کا موقع تھا اگرچہ غدیر خم کا دن اس بات کیلیے ہر لحاظ سے زیادہ سازگار معلوم ہوتاہے۔
دوسرا سوال: جو تفسیر المنار میں زیر بحث آیت کی تفسیر کے ضمن میں آیاہے یہ ہے کہ صاحب تفسیر کے مطابق لفظ”طعام“ بہت سی قرآنی آیات میں ہر قسم کی غذا کے لیے آیاہے یہاں تک کہ گوشت بھی اس میں شامل ہے اب کیسے ممکن ہے کہ زیر بحث آیت میں اسے غلّات اور میوہ جات و غیرہ میں محدود کردیاجائے۔ موصوف اس کے بعد لکھتے ہیں کہ میں نے یہ اعتراض ایک ایسی مجلس میں پیش کیا جس میں کچھ شیعہ علماء بھی موجود تھے( اور کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا) ۔
ہمارے نقطہ نظر کے مطابق اس اعتراض کا جواب بھی واضح ہے ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ لفظ”طعام“ کا ایک وسیع مفہوم ہے لیکن گذشتہ آیات جن میں مخلف طرح کے گوشت کے بارے میں بحث ہے اور خصوصاً ان جانوروں کو حرام قراردیا گیا ہے جنھیں ذبح کرتے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا، وہ اسم وسیع مفہوم کی تخصیص کرتی ہیں اور اسے ایسے گوشت کے علاوہ میں محدود کردیتی ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہر عام اور مطلق قابِل تخصیص ہے اور اسے بعض شرائط کا پابند کیا جاسکتاہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اہل کتاب ذبیچہ پر نامِ خدا لینے کے پابند نہیں ہیں اور اس کے علاوہ وہ دیگر شرائط کا بھی لحاظ نہیں رکھتے جو سنت سے ثابت ہیں۔
تیسرا سوال: کتاب کنز العرفان میں اس آیت کی تفسیر میں ایک اور اشکال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”طیبات“ کا ایک وسیع مفہوم ہے اور اصطلاح کے مطابق عام ہے لیکن ” طَعامُ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ “ خاص ہے اور عموماً عام کے بعد خاص کے ذکر میں کوئی نکتہ ہونا چاہیے مگر یہاں کوئی واضح نکتہ نہیں ہے اسکے بعد مصنّف اس اُمیّد کا اظہار کرتا ہے کہ خدا اس کی اس علمی مشکل کو حل کردے۔2
مندرجہ بالاسطور میں اس سلسلے میں جو کچھ بیان کیا جاچکاہے اسے پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب بھی معلوم ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ طیّبات کے حلال ہونے کا ذکر اہلِ کتاب سے میل جوں پر عائد پابندی ختم کرنے کے لیے مقدمہ و تمہید کے طور پر آیا ہے حقیقت میں آیت کہتی ہے کہ ہر پاکیزہ چیز تمھارے لیے حلال ہے اسی وجہ سے اہلِ کتاب کا (پاکیزہ) کھانا بھی تمھارے لیے حلال ہے اور ان سے معاشرت کے بارے میں جو پابندیاں پہلے عائد تھیں آج تمہیں میسر کا میابیوں کے باعث کم کردی گئی ہیں (غور کیجیے گا) ۔
غیر مُسلم عورتوں سے شادی
اہل کتاب کے کھانے کی حلیت کا حکم دینے کے بعد آیت میں پاکدامن مسلمان اور پاکدامن اہلِ کتاب عورتوں سے شادی بیاہ کے بارے میں فرمایا گیاہے: تمھارے لیے مسلمان اور اہلِ کتاب پاکدامن عورتیں حلال ہیں اور تم ان سے شادی کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کا حق مہر انھیں ادا کردو ( وَ الْمُحْصَناتُ مِنَ الْمُؤْمِناتِ وَ الْمُحْصَناتُ مِنَ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ إِذا آتَیْتُمُوہُنَّ اٴُجُورَہُنَّ )اور یہ بھی شرط ہے کہ شادی مشروع اور جائز طریقے سے ہونہ کہ کُھلے بندوں زنا ہو یا مخفی طور پر یاری لگاتے پھرو(مُحْصِنینَ غَیْرَ مُسافِحینَ وَ لا مُتَّخِذی اٴَخْدانٍ) ۔3
در حقیقت آیت کا یہ حصّہ بھی غیر مسلم عورتوں سے مسلمانوں کی شادی بیاہ کے سلسلے میں پابندیوں میں کمی کے لیے ہے۔ اس میں اہلِ کتاب عورتوں سے مسلمان مردوں کی شادی کو مشروط طور پر جائز قرار دیا گیاہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا اہلِ کتاب عورتوں سے ہر طرح کی دائمی و موقت شادی جائز ہے یا صرف ازدواج موقت یعنی متعہ جائز ہے فقہائے اسلام میں اس سلسلے میں اختلاف ہے علمائے اہل سنت ان دو طرح کی تزویج میں فرق کی قائل نہیں ان کا نظریہ ہے کہ مندرجہ بالا آتی عمومیّت کی حامل ہے لیکن بعض شیعہ فقہاء کے نزدیک یہ آیت صرف موقت ازدواج کی اجازت دیتی ہے۔ آئمہ اہلِ بیت علیہم السلام سے منقول بعض روایات بھے اس نظرئیے کی تائید کرتی ہیں اور آیت میں بھی بعض ایسے قرائن موجود ہیں جنھیں اس نظریئے پر شاد ہد قرار دیا جاسکتاہے۔
پہلا قرینہ یہ ہے کہ فرمایا گیاہے: إِذا آتَیْتُمُوہُنَّ اٴُجُورَہُنّ… بشرطیکہ ان کی اُجرت انھیں ادا کرو… یہ درست ہے کہ ”اجر“ عقد دائمی اور عقد موقت دونوں کے حق مِہر کے لیے استعمال ہوتاہے لیکن زیادہ تر ازدواج موقت کیلیے استعمال ہوتاہے یعنی زیادہ تر اسی سے مناسبت رکھتاہے۔
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ فرمایا گیاہے :غَیْرَ مُسافِحینَ وَ لا مُتَّخِذی اٴَخْدان۔زنا اور پوشیدہ طور پر غیر شرعی یاری دوستی کے طور پر نہ ہو…-یہ تعبیر بھے موقت ازدواج سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے کیونکہ دائمی شادی زنا اور پوشیدہ دوستی سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی کہ اس سے منع کیا جاتا لیکن بعض اوقات نادان اور بے خبر لوگ ازدواجِ موقت کو زنا یا پوشیدہ دوستی سے تشبیہ دیتے ہیں۔
اس سب باتوں سے قطع نظریہ تعبیرات سورةِ نساء کی آیت ۲۵ میں دکھائی دیتی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ آیت ازدواجِ موقت کے بارے میں ہے۔
ان تمام امور کے با وجود بعض فقہا اہلِ کتب سے مطلق ازدواج کو جائز سمجھتے ہیں اور مذکورہ قرآئن کو آیت کی تخصیص کے لیے کافی نہیں سمجھتے اور اس سلسلے میں بعض روایات سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں زیادہ تفصیل فقہی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ بات بنا کہے نہ رہ جائے کہ آج جبکہ زمانہ جاہلیّت کی بہت سی رسمیں زندہ ہوچکی ہیں یہ نظریہ بھی وجود میں آچکاہے کہ غیر شادی شدہ افراد کیلیے عورت یا مرد سے دوستانہ تعلّقات میں نہ صرف مخفی صورت میں بلکہ کُھلے بندوں بھی کوئی حرج نہیں۔
در حقیقت آج کی دنیا نے گناہ اور جنسی بے راہ روی میں زمانہ جاہلیّت سے بھی قدم آگے بڑھالیا ہے کیونکہ اس دور میں تو مخفی تعلقات کو جائز سمجھا جاتا تھا لیکن آج علی الاعلان ایسی دوستی کو جائز قرار دیا جاتاہے یہاںتک کہ انتہائی بے شرمی سے اس پر فخر بھی کیاجاتاہے یہ رسوا کن رسم جو واضح اور شرمناک بدکاری ہے مغرب کی طرف سے مشرق کے لینے منحوس سوغات ہے ہی بہت سی بدبختیوں اور جرائم کا سرچشمہ ہے۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اہل کتاب کے طعام کے بارے میں (مذکورہ شرائط کے ساتھ) اجازت دی گئی ہے کہ ان سے کھانا کھایا بھی جاسکتاہےاور انھیں کھلایا بھی جاسکتاہے، لیکن شادی بیاہ کے سلسلے میں صرف ان سے رشتہ لینا جائز ہے، مسلمان عورتوں کے لیے کسی طرح کوئی اجازت نہیں کہ وہ اہلِ کتاب کے مردوں سے شادی کریں۔ اس کا فلسفہ کہے بغیر واضح ہے کہ عورتیں نسبتاً نرم دل ہوتی ہیں اور ممکن ہے کہ برخلاف مرد کے عورت بہت جلد اپنے شوہر کا عقیدہ قبول کرلے۔
مندرجہ بالا سہولتیں جو کہ اہلِ کتاب سے معاشرت اور ان کی عورتوں سے ازدواج کرنے۔ کے بارے میں ہیں جن سے ممکن ہے کہ بعض لوگ غلط فائدہ اٹھائیں اور شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کی طرف کھنچے چلے جائیں، لہٰذا آیت کے آخر میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جو شخص ان چیزوں سے کفر اختیار کرے کہ جن پر ایمان لانا چاہیے اور مؤمنین کا راستہ چھوڑ کر کفّار کی راہ اختیار کرلے اس کے اعمال برباد ہوجائیں گے اور آخرت میں وہ زیاں کاروں میں سے ہوگا(وَ مَنْ یَکْفُرْ بِالْإیمانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَ ہُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرین) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مذکورہ سہولتیں تمام تمھارے زندگی کی کشائش و آرام کے علاوہ اس چیز کا باعث بننا چاہیں کہ تم ان بے گانوں میں اثر و نفوذ پیدا کر و نہ یہ کہ تم ان کے زیر اثر ہوجاؤ اور اپنے دین سے دستبردار ہوجاؤ، کیونکہ اس صُورت میں تمھارے سزا بہت سخت ہوگی ۔ 4
آیت کے اس حِصّے کی تفسیر کے سلسلے میں چند روایات اور مذکورہ شانِ نزول کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ احتمال بھی ہے کہ اس آیت کے نزول اور اہلِ کتاب کے ساتھ کھانے اور ان کی عورتوں کی حلیّت کے بعد بھی بعض مسلمان اسے ناپسند کرتے تھے لہٰذا قرآن نے انھیں تنبیہ کی کہ اگر انھیں خدا کے نازل کردہ احکام پر اعتراض ہے اور وہ اس کا انکار کرتے ہیں تو ان کے اعمال برباد ہوجائیں گے اور وہ خسارے میں رہیں گے۔

 

یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَ اٴَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ اٴَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ إِنْ کُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّہَّرُوا وَ إِنْ کُنْتُمْ مَرْضی اٴَوْ عَلی سَفَرٍ اٴَوْ جاء َ اٴَحَدٌ مِنْکُمْ مِنَ الْغائِطِ اٴَوْ لامَسْتُمُ النِّساء َ فَلَمْ تَجِدُوا ماء ً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوہِکُمْ وَ اٴَیْدیکُمْ مِنْہُ ما یُریدُ اللَّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَ لکِنْ یُریدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (6)
ترجمہ
۶۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو تو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو اور سراور پاؤں کا مفصّل (یا ابھری ہوئی جگہ تک) مسح کرو اور اگر حالتِ جنب میں ہو تو غسل کرو اور اگر بیمار ہو یا مسافر ہو یا تم میں سے کوئی (قضائے حاجت کی) پست جگہ سے آیاہے یا عورتوں سے (مباشرت کیلیے)لمس کیا ہو اور (غسل یا وضو کیلیے) پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو اور اس (مٹی) سے چہرے کے اوپر (پیشانی بہ) اور ہاتھوں پر مسح کرو۔ خدا نہیں چاہتا کہ تمھارے لیے مشکل پیدا کرے بلکہ وہ چاہتاہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کرے شاید تم اس کا شکر ادا کرو۔

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

۱- وسائل الشیعہ ، جلد ۱۶ صفحہ ۲۹۱
2- کنز العرفان، جلد۲ صفحہ ۳۱۲
3- جیسا کہ اس تفسیر کی جلد ۳ میں سورہ نساء کی آیت ۲۵ کے ذیل میں وضاحت کی جاچکی ہے کہ ”اخذان“، ”الخذن“ (بر وزن ”اذن“) سے دوست اور رفیق کے معنی میں ہے لیکن عام طور پر جنس مخالف سے غیر شرعی طور پر پوشیدہ دوستی کے لیے استعمال ہوتاہے۔
4- حبط اور احباط کے لیے تفسیر نمونہ جلد دوم سورہٴ قرہ آیة ۲۱۷ کے ذیل میں ص۶۶(اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں) ۔
جسم اور رُوح کی پاکیزگیحلال شکار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma