جسم اور رُوح کی پاکیزگی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
وضو اور تیمم کا فلسفہاہل کتاب کا کھانا کھانا اور ان میں شادی بیاہ کرنا

گذشتہ آیات میں جسمانی پاکیزگی اور مادی نعمات کے بارے میں بحثیں تھیں۔ زیر نظر آیت میں روحانی پاکیزگی سے متعلق گفتگو ہے اس میں ان امور کا تذکرہ ہے جو روحانی طہارت کا باعث ہیں۔ اس میں وضو، غسل اور تیمم کے احکام ہیں اور روح کی صفائی کا باعث ہیں پہلے تو اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے احکامِ وضو بیان کیے گئے ہیں: اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ،۱
۱ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول متعدد روایات میں ہے کہ قمتم (تم کھڑے ہو) سے مراد ہے نیند سے اٹھنا ۔ آیت کے مشتملات اور تمام حصوں پر غور کرنے سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ بعد میں تیمم کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے؛ اوجاء احد منکم من الغائط (یا کوئی تم میں سے قضائے حاجت سے لوٹے) ۔اگر آیت کا خطاب اصطلاحاً بے وضو افراد سے ہوتا تو اس جُملے کا عطف اور وہ بھی ”او“ کے ذریعے آیت کے ظاہری مفہوم سے مناسبت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ بھی بے وضو کے عنوان میں داخل ہے لیکن اگر آےت کے آغاز میں خطاب نیند سے اٹھنے والے لوگوں سے ہے اور اصطلاح کے مطابق صرف نیند کا حدث بیان کیاگیاہے تو پھر اس جملے کا مفہوم بھی مکمل ہوگا (غور کیجیے گا) ۔
تو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ اور سرکے ایک ایک حِصّے کا اور اسی طرح پاؤں کا مفصل (یا ابھری ہوئی جگہ تک) مسح کرو (یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَ اٴَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ اٴَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ) ۔
آیت میں وضو میں دھونے کے لیے چہرے کی حُدود کا ذکر نہیں، لیکن روایات ِ اہلِ بیت(علیه السلام) میں رسول اللہ کے وضو کرنیکا طریقہ تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔
در اصل یہ ”وجہ“ (چہرے) کے اس معنی کی وضاحت ہے جو عرف عام میں اس سے سمجھا جاتا ہے کیونکہ وجہ (چہرہ) وہی حِصّہ ہے جس کا انسان سے ملتے ہی”مواجہ“ (سامنا) ہوتاہے۔
۲۔ ہاتھ کی حد جو وضو میں دھوئی جانی چاہیے کہنی تک بیان ہوئی ہے کیونکہ ”مرفق“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ”کہنی“۔ جب کہا جائے کہ ہاتھ دھولو تو ممکن ہے ذہن میں یہ آئے کہ انھیں کلائی تک دھونا ہے کیونکہ عام طور پر یہی مقدار دھوئی جاتی ہے اس وہم کو دور کرنے کے لیے فرمایا گیاہے: کہنیوں تک دھوؤ (الی المرافق) اس سے واضح ہوجاتاہے کہ ”الٰی“ اس آیت میں فقط دھونے کی حد بیان کرنے کے لیے ہے نہ کہ کیفیت بیان کرنے کے لیے جیسا کہ بعض کو اس سے یہی گمان ہوا ہے ان کا خیال ہے کہ آیت کہتی ہے کہ ہاتھ کو انگلیوں کے سروں سے لے کر کہنی تک دھونا چاہیے (جیسا کہ اہل سنت کے ایک طبقے میں رائج ہے) ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ یہ بالکل اس طرح ہے کہ انسان کسی کا دیگر سے کہے کہ کمرے کی دیوار کو نیچے سے لے کر ایک میڑ اوپر تک رنگ کردو تو واضح ہے کہ مقصد یہ نہیں کہ دیوار کو نیچے سے اوپر کی طرف رنگ کرو بلکہ مراد یہ ہے کہ اتنی مقدار کو رنگ کرو اس سے زیادہ یا کم نہ ہو، اس لیے یہاں آیت میں بھی صرف ہاتھ کی وہ مقدار مقصود ہے جسے دھوناچاہیے۔ رہی ایسی کیفیت تو وہ سنتِ پیغمبر میں ہے جو ان کے اہل بیت(علیه السلام) کے وسیلے سے ہم تک پہنچی ہے اس کے مطابق کہنیوں سے لے کرانگلیوں کے سروں تک دھونا چاہیے۔
توجہ رہے کہ کہنی کو بھی وضو میں ساتھ دھونا چاہیے کیونکہ ایسے مواقع پر اصطلاح کے مطابق”غایت مغیا میں داخل ہے“ یعنی حد بھی حکم محدود میں شامل ہے۔2
2۔ کلمہٴ ”ب“ جو ”برء وسکم“میں ہے بعض روایات کے مطابق اور بعض اہلِ لغت کی تصریح کے مطابق تبعیض کے لیے ہے یعنی کچھ حِصّے کے مفہوم میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکے کچھ حِصّے کا مسح کرو جسے ہماری اصطلاح میں سرکے اگلے حِصّے سے محدود کیا گیا ہے اور اس کے لیے سرکے چوتھائی یا کچھ کم حِصّے پر ہاتھ سے مسح کیاجاتاہے اس لیے جو اہل سنت کے بعض گروہوں میں مروّج ہے کہ وہ پورے سرکا یہاں تک کہ کانوں کا بھی مسح کرتے ہیں وہ آیت کے مفہوم سے مناسبت نہیں رکھتا ۔
۴۔ ”ارجلکم“”برء وسکم“کے ہم پہلو آیاہے یہ اس بات پر شاہد ہے کہ پاؤں کا بھی مسح کیاجائے نہ کہ اسے دھو یا جائے۔ ”ارجلکم“کی لام پر زبر اس وجہ سے ہے کہ اس کا عطف ”برء وسکم“کے ساتھ ہے نہ کہ یہ ”وجوہکم “ پر عطف ہے۔3
۵۔ ”کعب“ نعت میں پاؤںکے اوپر کی ابھری ہوئی جگہ اور مفصل کے معنی میں آیاہے یعنی وہ مقام جہاں پاؤں کی بڈی سے پنڈلی کہ ہڈی مل جاتی ہے۔۳
۳ قاموس میں ”کعب“ کے تین معنی مذکور ہیں۔ ۱۔ پشت پاکی ابھری ہوئی جگہ، ۲۔ مفصل اور ۳۔ ٹخنے جو پاؤں کے دو طرف ہیں لیکن صفت میں جو وضاحت کی گئی ہے اس میں یہ بات مسلّم ہے کہ اس سے ٹخنے مراد نہیں، لیکن اس بات میں فقہا میں اتفاق نہیں کہ آیا یہ پاؤں پر کی ابھری ہوئی جگہ ہے یا پاؤں اور پنڈلی کا جوڑ (مفصل) بہرحال احتیاط یہی ہے کہ جوڑتک ہی مسح کیاجائے۔
اس کے بعد غسل کے بارے میں حکم ہے ، فرمایا گیاہے: اگر مجنب ہو تو غسل کرو ( و ان کنتم جنباً فاطہروا)واضح ہے کہ ”فاطہروا“سے مراد پورے جسم کا دھونا ہے کیونکہ اگر کسی مخصوص حصِّے کا دھونا مطلوب ہوتا تو اس کا نام لیا جانا ضروری تھا اس لیے جب یہ فرماتاہے کہ اپنے آپ کو دھولو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ سارے بدن کو دھولو۔ اس کی نظیر سُورةِ نساء آیة ۴۳ میں بھی موجود ہے، جہاں فرمایاگیاہے:
حتی تغتسلوا
جیسا کہ تفسیر نمونہ جلد ۲ میں سُورةِ نسآء آیة ۴۳ کے ضمن میں نشاندہی کی جاچکی ہے کہ لفظ ”جنب“ مصدر ہے جو اسم فاعل کے معنی میں آیاہے در اصل اس کا مطلب ہے”دور ہونے والا“ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجنب کو اس حالت میں نماز کی ادائیگی، مسجد میں توقف اور اس طرح کے دیگر کاموں سے دوری اختیار کرنا چاہیے۔ اور لفظ ”جنب“ مفرد، جمع، مذکر اور مونث سب کے لیے بولاجاتاہے”جار جنب“ کا اطلاق دور کے ہمسایوں پر بھی اسی مناسبت سے ہے۔
قرآن مندرجہ بالا آیت میں کہتاہے: نماز کے وقت مجنب ہوجاؤ تو غسل کرو، ممکن ہے اس سے یہ بھی اخذ کیاجاسکے کہ غسلِ جنابت، وضو کا بھی جانشین ہے۔
اس کے بعد تیمم کا حکم بیان کیاگیاہے: اگر نیندسے اُٹھے ہو اور نماز کا ارادہ رکھتے ہو اور بیمار یا مسافر ہو یا قضائے حاجت سے لوٹے ہو یا عورتوں سے جنبی ملاپ کرچکے ہو اور پانی تک تمھارے رسائی نہیں ہے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو (وَ إِنْ کُنْتُمْ مَرْضی اٴَوْ عَلی سَفَرٍ اٴَوْ جاء َ اٴَحَدٌ مِنْکُمْ مِنَ الْغائِطِ اٴَوْ لامَسْتُمُ النِّساء َ فَلَمْ تَجِدُوا ماء ً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً) ۔
یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ ”اٴَوْ جاء َ اٴَحَدٌ مِنْکُمْ مِنَ الْغائِطِ “ اور ”اٴَوْ لامَسْتُمُ النِّساء َ “کا عطف جیسا کہ اشارہ کیاجاچکا ہے آیت کی ابتداء یعنی ”إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاةِ“پر ہے ۔ حقیقت میں آیت کی ابتداء میں نیند کے مسئلے کی طرف اشارہ ہے اور آیت کے ذیل میں دو مزید چیزوں کی طرف اشارہ ہواہے کہ جو وضو یا غسل کا سبب بنیتی ہیں اگر ان دونوں جملوں کا عطف ”علی سفر“پر کریں تو آیت میں کئی ایک اشکالات پیدا ہوں گے مثلاً قضائے حاجت سے لوٹنا ، بیماری اور مسافرت کے مقابل پر نہیں ہوسکتا لہٰذا ہم مجبور ہیں کہ ”اور“ کو ”واو“ کے معنی میں لیں (جیسا کہ بہت سے مفسرین نہ کہا ہے) اور یہ ظاہر کے بالکل خلاف ہے علاوہ ازیں یہ اشکال بھی ہے کہ وضو واجب کرنے والے امور میں سے صرف قضائے حاجت کا ذکر کرنا اس صورت میں بلا وجہ ہوگا، اگر اس طرح سے ہو جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں تو ان دونوں میں سے کوئی اعتراض لاحق نہ ہوگا(غور کیجیے گا) ۔
(بہت سے مفسرین کی طرح اگر چہ ہم بھی جلد ۳ میں نساء ۴۳ میں ”اور“ کو واو کے معنی میں ذکر کرچکے ہیں لیکن جو کچھ بیان کیاگیا ہے وہ زیادہ قرینِ نظر ہے) ۔
دوسری قابلِ توجہ یہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں مسئلہ جنابت کا دو مرتبہ ذکر آیاہے ممکن ہے یہ تاکید کے لیے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ”جنب“ جنابت اور نیند میں احتلام کے معنی میں ہو اور ”او لٰمستم النساء“ سے جنبی ملاپ والی جنابت سے کنایہ ہو نیز اگر ”قیام“ سے مراد ”نیند سے اٹھنا“ لیا جائے جیسا کہ روایات اہل بیت(علیه السلام) میں ہے اور محود آیت میں اس کا قرینہ موجود ہے تو یہ خود مسئلہ جنابت کے بارے میں کی گئی تفسیر پر شاہد ہوگا(غور کیجیے گا) ۔
اس کے بعد تیمم کا طریقہ بیان کیاگیاہے: اس کے ذریعے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو (فَامْسَحُوا بِوُجُوہِکُمْ وَ اٴَیْدیکُمْ مِنْہ) ۔
واضح ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ کچھ مٹی اٹھا لیں اور اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیں بلکہ مراد یہ ہے کہ پاک مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد چہرے اور ہاتھوں کا مسح کریں، لیکن بعض فقہاء نے لفظ ”منہ“ کی وجہ سے کہاہے کہ چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو غبار ہاتھ پر لگا ہونا چاہیے۔۱
اب ”صَعیداً طَیِّباً“ کی تفسیر باقی رہ گئی ہے بہت سے علما ء ِ لغت نے ”صَعید“کے دو معانی ذکر کیے ہیں ایک مٹی اور دوسرا وہ چیزیں جنھوں نے کرةِارض کی سطح کو ڈھانپ رکھاہے چاہے وہ مٹی ہو، ریت ہو یا پتھر و غیرہ۔ یہی بات فقہاء مین اس اختلاف نظر کا باعث بن گئی ہے کہ تیمم کس چیز پر جائز ہے، کیا صرف مٹی پر تیمم جائز ہے یا پتھر اور سنگریزوں پر بھی ہوجاتاہے لیکن ”صَعید“کے اصل لغوی معنی کی طرف توجہ کرتے ہوئے یعنی ”صعود اور اوپر ہونا“ دوسرا مفہوم ہی زیادہ قرین ذہن ہے۔
”طیب“ ایسی چیزوں کو کہا جاتاہے جو انسان کی طبیعت اور مزاج کے موافق ہوں، قرآن میں یہ لفظ بہت سی چیزوں کے ساتھ استعمال ہواہے، مثلاً : البلد الطیب، مساکن طیبة، ریح طیب، حیاة طیبة، و غیرہ۔ ہر پاکیزہ چیز کو بھی طیّب کہتے ہیں کیونکہ انسان کی طبیعت ذاتی طور پر ناپاک چیزوں سے نفرت کرتی ہے یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ تیمم کی مٹی پاک پاکیزہ ہونا چاہیے۔
ہادیانِ اسلام سے منقول روایات میں خصوصاً اس بات کا تذکرہ ہے، ایک روایت میں ہے:
نہی امیر المؤمنین ان تیمم الرجل بتراب من اثر الطریق۔
یعنی ……حضرت امیر المؤمنین (علیه السلام) نے گندی مٹی سے جو سُرکوں پر پڑی ہوتی ہے، تیمم کرنے سے منع فرمایاہے۔۲
توجہ رہے کہ قرآن و حدیث میں توتیمم اسی مخصوص اسلامی ذمّہ داری کے مفہوم میں آیاہے جس کی وضاحت کی جاچکی ہے لیکن لغت میں اس کا معنی ہے”قصد کرنا“ در حقیقت قرآن کہتاہے کہ جب تیمم کرنا چاہو تو زمین کے کسی پاک حِصّے کا قصد کرو یعنی تیمم کے لیے زمین میں سے مختلف حصوں میں سے ایسا حِصّہ منتخب کرو جو ”صعید“ کے مفہوم سے ہم آہنگ ہو جو ”صعود“ کے مادہ سے ہے زمین کے اوپر والا حصّہ جہاں بارش پڑتی ہو، سورج کی روشنی پڑتی ہو اور جس سے ہوائیں ٹکراتی ہوں ایسی مٹی جو ہاتھوں اور پاؤں سے روندی نہیں جاتی، ایسی مٹی سے استفادہ نہ صرف صحّت کے لیے مضر نہیں بلکہ جیسا کہ ہم تیسری جلد میں سورہٴ ِ نساء کی آیت ۴۳ کے ضمن میں بیان کرچکے ہیں، سائنس وانوں کی گواہی کے مطابق جراثیم کش اثرات کا بھی حامل ہے۔

 


1- احکام تیمم اور اس اسلامی حکم کا فلسفہ، اور یہ کہ ایسا کرنا نہ صرف صحت کے منافی نہیں بلکہ صحّت مندی کا پہلو مندی کا پہلو رکھتا ہے، اسی طرح لفظ ”غائط“ کا مفہوم اور اس طرح کے دیگر مسائل کی تفصیل کے لیے تفسیر نمونہ جلد ۳ سورہٴ نسآء کی آیت ۴۳ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
۲ وسائل الشیعہ ج۲ صفحہ ۹۶۹۔

 

وضو اور تیمم کا فلسفہاہل کتاب کا کھانا کھانا اور ان میں شادی بیاہ کرنا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma