غُسل کا فلسفہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
خدا سے باندھے گئے پیمانوضو اور تیمم کا فلسفہ

بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ حالت جنب کے لیے اسلام غسل کا حکم کیوں دیتاہے جبکہ ایک خاص حصّہ آلودہ ہوتاہے۔ پیشاب کرنے اور مَنی خارج ہونے میں کیا فرق ہے؟ جب کہ ایک میں تو فقط اس جگہ کو دھونے کا حکم ہے اور دوسرے میں سارے بدن کو دھونے کا ۔
اس سوال کا ایک جواب اجمالی ہے اور دوسرا تفصیلی ۔
اجمالی جواب یہ ہے کہ اخراج منی پیشاب اور دیگر فضلات کی طرح کسی ایک حِصّے کا عمل نہیں ہے کیونکہ اس کا اثر سارے بدن پر ہوتاہے۔ بدن کے تمام فلیے اس کے اخراج کے بعد ایک خاص سُستی میں ڈوب جاتے ہیں جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کام سارے بدن کے اعضاء پر اثر انداز ہوتاہے اس کی وضاحت کچھ یوں ہے:
سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں نباتی اعصاب کے دو سلسلے ہیں جو بدن کی تمام فعالیت کو کنٹرول کرتے ہیں ایک سمپاتھیک اور دوسرا پیرا سمپاتھیک سارے انسانی بدن میں اور اس کی مشینریوں میں یہ سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔ سمپاتھےک (sympathetic) اعصاب کی ذمہ داری ہے ”تیز کرنا“ اور بدن مختلف مشینریوں کو فعالیت پرا بھار نا اور پیرا سمپاتھیک(parasympathetic)کا کام ہے ان کی فعالیت کو سست کرنا ۔ در حقیقت ان میں ایک گاڑی کے لیے گیس یا پٹرول کی حیثیت رکھتاہے اور دوسرا بر یک کا کام کرتا ہے ان دو طرح کے نباتی اعصاب کی فعالیت کے اعتدال سے جسم کا کارخانہ معتدل طور پر کام کرتا رہتاہے۔
بعض اوقات انسانی بدن میں اس طرح کے حوادث نمودار ہوتے ہیں جو اس اعتدال کو درہم برہم کردیتے ہیں ۔ جنسی لذّت کا عروج پر پہنچنا(climax) بھی ایسے حوادث میں سے ہے جو عام طور پر منی کے اخراج کی صورت میں ظہور پذیر ہوتاہے اس موقع پر پیرا سمپاتھیک(parasympathetic) کا سلسلہ سمپاتھیک (sympathetic) اعصاب پر سبقت حاصل کرلیتاہے اور اعتدال منفی شکل میں بدل جاتاہے۔
یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ سمپاتھیک(sympathetic) اعصاب کو کام پر ا بھار نے اور بدن کے اعتدال کو واپس لانے کے لیے بدن سے پانی کا مَس کرنا بھی مؤثر ہے اور چونکہ جنسی لذت کا عروج (climax)تمام اعضائے بدن پر حسی طور پر اثر انداز ہوتاہے اور اعصاب کے ان دونوں سلسلوں کا اعتدال سارے بدن میں ٹوٹ جاتاہے لہٰذا حکم دیا گیاہے کہ جنسی ملاپ یا اخراج منی کے بعد سارے بدن کو پانی سے دھویا جائے تا کہ اس کا حیات بخش اثر پورے جسم میں اعصاب کے اعتدال کے بحالی کی صورت میں ظاہر ہو۔
امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے منقول ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
ان الجنابةخارجة من کل جسد فلذٰلک وجب علیہ تطہیر جسدہ کلہ
جنابت سارے بدن سے خارج ہوتی ہے لہٰذا پورے بدن کو دھویا جائے۔ (وسائل الشیعہ ج۱ ص۴۶۶)
یہ روایت بھی گویا اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔
البتہ غسل کا بس یہی فائدہ نہیں بلکہ یہ غسل ایک طرح کی عبادت بھی ہے جس کے اخلاقی اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اسی لیے قصد قربت اور فرمانِ خدا کی اطاعت کی نیّت بغیر ایسا غسل صحیح نہیں ہے۔ در حقیقت جنسی ملاپ اور اخراج منی کے وقت روح بھی متاثر ہوتی ہے اور جسم بھی ۔ روح مادی شہوات کی طرف کھینچتی ہے اور جسم سستی کا شکار ہوتاہے۔ جسم کو چونکہ قصد قربت سے دھویا جاتاہے لہٰذا یہ ایک طرح سے غُسِل روح بھی ہے۔ اس طرح سے روح خدا اور معنویت کی طرف مائل ہوتی ہے اور جسم پاکیزگی، نشاط اور فعالیت کی طرف۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر، زندگی بھر غسلِ جنابت کا وجوب بدن کی نگہداشت اور صحت کی حفاظت کے لیے ایک لازمی اور ضروری اسلامی حکم ہے۔ کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنی نظافت اور سُترائی سے غافل رہتے ہیں لیکن یہ اسلامی حکم مختلف وقتی فاصلوں پر انھیں نہانے اور بدن کو پاک رکھنے پر ابھارتاہے۔ یہ امر گذشتہ زمانے کے لوگوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ خود ہمارے زمانے میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو جسم کی نظافت اور صفائی سے مختلف وجوہ کی بناپر غافل رہتے ہیں (البتہ یہ حکم کُلی اور عمومی ہے یہاں تک کہ اس شخص کے لیے بھی ہے جس نے ابھی تازہ غسل کیاہے)
مذکورہ بالا تینوں وجہ مجموعی طور پر واضح کرتی ہیں کہ نیند یا بیداری کی حالت میں اخراج منی اور جنسی ملاپ کی صورت میں اگرچہ منی خارج نہ ہو سارے بدن کو کیوں لازمی طور پر دھونا چاہیے۔
آیت کے آخر میں یہ بات واضح کرنے کے لیے کہ مذکورہ احکام میں کوئی سختی نہیں ہے بلکہ وہ سارے احکام مصلحتوں اور حکمتوں کی بناپر نافذ کیے گئے ہیں، فرمایا گیاہے: خدا نہیں چاہتا کہ تمھیں مشقت اور زحمت میں ڈال دے بلکہ وہ چاہتاہے کہ تمھیں پاک و پاکیزہ رکھے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے تا کہ تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو(ما یُریدُ اللَّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَ لکِنْ یُریدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ) ۔
در اصل اس جملے میں اس حقیقت کی تاکید کی گئی ہے کہ تمام خدائی احکام اور اسلامی پروگرام لوگوں کی خاطر اور انہی کے فائدے میں ہیں اور ان سے کچھ اور مقصود نہیں، خدا چاہتاہے کہ ان احکام کے ذریعے لوگوں کو روحانی اور جسمانی طور پر پاکیزہ رکھے۔
ضمناً اس طرف بھی توجہ رہے کہ خدا نہیں چاہتا کہ تمھارے دوش پر کوئی طاقت فرسا اور مشکل ذمہ داری ڈال دے یہ بات اگرچہ غسل، وضو اور تیمم سے مربوط احکام کے ضمن میں آئی ہے لیکن یہ ایک عمومی قانونی بھی بیان کررہی ہے کہ احکام الٰہی کسی موقع پر بھی طاقت فرسا اور قُوّت سے بڑھ کر نہیں ہیں۔
اس لیے جب کوئی حکم یا ذمہ داری کسی کے لیے سخت مشکل اور ناقابل برداشت ہوجائے تو اس کے پیشِ نظر وہ اس سے ساقط ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی بوڑھے مرد یا بوڑھی عورت کے لیے روزہ رکھنا باعثِ مشقت ہوجائے تو اسی آیت کی بناپر ان پر واجب نہیں رہتا ۔
یہ بات فراموش نہیں کی جانا چاہیے کہ بعض احکام ذاتی طور پر مشکل ہیں اور اہم مقاصد اور مصلحتوں کے پیش نظر ایسی مشکلات کو برداشت کرنا چاہیے۔ مثلاً دشمنانِ حق کے خلاف جہاد ۔
اس آیت سے فِقہ اسلام میں ایک بنیادی اصول ”قاعدہ لاحرج--“ حاصل کیا گیاہے اور فقہاء بہت سے مواقع پر احکام کے استنباط میں اس سے استناد کرتے ہیں۔

۱۔ لمبائی میں چہرے کی حد بالوں کے اگنے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی تک ہے اور چوڑائی میں وہ حِصِہ جو در میانی انگلی اور انگو ٹھے کے در میان آجائے۔

2-سیبویہ عربی لغت کا مشہول ماہر اور علم نحو کا عالم تھا وہ کہتاہے کہ جہاں کہیں لفظ ”الی“ کا مابعد اور ماقبل ایک جنس سے ہوں تو ما بعد قبل کے حکم میں ہوتاہے اور اگر وہ جنسوں سے ہوں تو پھر خارج ہوتاہے( مثلاً اگر کہا جائے کہ دن کی آخری گھڑی تک روزہ رکھو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آخری گھڑی میں بھی روزہ رکھو اور اگر کہاجائے کہ ابتدائے رات تک روزہ رکھو تو اس کا معنی یہ ہے کہ ابتدائے رات حکم میں داخل نہیں ہے) ۔ (المنارج۶ ص۲۲۳)

3اس میں شک نہیں کہ ”وجوہکم “اور”ارجلکم“ میں بہت فاصلہ ہے لہٰذا اس پر عطف کرنا بہت بعید نظر آتاہے۔ علاوہ ازیں بہت سے قاریوں نے ’ارجلکم“ کو امام کی زیر کے ساتھ پُرھاہے۔

 


۷۔ وَ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ وَ میثاقَہُ الَّذی واثَقَکُمْ بِہِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنا وَ اٴَطَعْنا وَ اتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ عَلیمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ۔
ترجمہ

۷۔ اپنے اور پر خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اس عہد و پیمان کو (بھی یاد کرو) جو اس نے تم سے لیا ہے۔ اس وقت جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو، کیونکہ خدا سینوں کے اندر کے حالات سے آگاہ ہے۔

  

خدا سے باندھے گئے پیمانوضو اور تیمم کا فلسفہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma