پیمان شکنی کے باعث انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
”لعن “ لغت میں دھنکار نے اور دور کرنے کے معنی میں ہے تفسیر

اس سُورہ کی ابتداء میں ایفائے عہد کے مسئلہ کی طرف اشارہ ہوچکاہے۔ مختلف طریقوں سے اس کی تکرار بھی کی گئی ہے۔
مندرجہ بالا آیت بھی اسی مناسبت سے ہے شاید یہ پَے در پَے سب تاکیدیں جو ایفائے عہد کے بارے میں اور پیمان شکنی کی مذمّت کے لیے ہیں، پیمان ِ غدیر کی اہمیّت واضح کرنے کے لیے ہوں جن کا ذکر آیہ ۶۷ میں آئے گا ۔
زیر بحث آیت کی ابتداء میں ہے: ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ وہ ہمارے احکام پر عمل کریں اور اس پیمان کے بعد ہم نے ان کے لیے بارہ رہبر اور سرپرست بھیجے تا کہ ان میں سے ہر ایک بنی اسرائسل کے بارہ گروہوں میں سے ایک ایک کی سرپرستی کرے(وَ لَقَدْ اٴَخَذَ اللَّہُ میثاقَ بَنی إِسْرائیلَ وَ بَعَثْنا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقیباً ) ۔
”نقیب“ کا مادہ ہے ”نقب“ (بر وزن ”نقد“)جو بڑے سوراخوں اور خصوصاً زیر زمین راستوں کا معنی دیتاہے۔ کسی گروہ کے سر براہ اور رہبر کو اس لیے نقیب کہتے ہیں کہ وہ اس گروہ کے اسرار سے آگاہ ہوتاہے گویا اس نے بیچ میں ایک نقب لگائی ہے جس کی وجہ سے وہ اس گروہ کی وضع اور حالات سے آگاہ ہوگیاہے بعض اوقات ”نقیب“ ایسے شخص کو کہا جاتاہے جو کسی گروہ کا سردار نہیں ہوتا اور صرف ان کی پہچان کا ذریعہ ہوتاہے ۔ فضائل کو بھی مناقب اسی لیے کہتے ہیں کہ ان سے آگاہی بھی جستجو اور تحقیق کرکے ہی حاصل کی جاتی ہے۔
بعض مفسرین نے زیر بحث آیت میں ”نقیب“ کا معنی آگاہ اور اسرار سے مطلع ہی کیا ہے لیکن یہ بہت بعید نظر آتاہے کیونکہ تاریخ و حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نقبائے بنی اسرائیل میں سے ہر ایک اپنے گروہ اور قبیلے کا سرپرست تھا تفسیر روح المعانی میں ابن عباس سے منقول ہے:
انہم کانوا وزراء و صاروا انبیاء بعد ذلک
یعنی……نقبائے بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وزیر تھے جو بعد میں منصب نبوّت پر فائز ہوئے۔۱
پیغمبر اسلام کے حالات میں مرقوم ہے کہ آپ نے شب عقبہ کو حکم دیا کہ نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق اپنے میں سے بارہ نقیب منتخب کرو۔ مسلماً ان کی ذمہ داری بھی یہ تھی کہ اس گر وہ کی رہبری کریں۔۲
یہ امر جاذبِ نظر ہے کہ طُرق اہل سنت سے بہت سی روایات ایسی وارد ہوئی ہیں جن میں پیغمبر اسلام کے بارہ خلفاء اور جانشینوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور ان کی تعداد کا تعارف نقبائے بنی اسرائیل کے تعداد کے حوالے سے کروایا گیاہے۔ ان میں سے بعض روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ اہل سنت کے مشہور امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں مسروق سے نقل کرتے ہیں وہ کہتاہے: میں نے عبد اللہ بن مسعود سے سوال کیا کہ اس اُمّت پرکتنے افراد حکومت کریں گے تو ابن مسعود نے جواب دیا:
لقد سئلنا رسول اللہ فقال اثنی عشر کعدة نقباء بنی اسرائیل
ہم نے پیغمبر خدا سے یہی مسئلہ پوچھا تھا، انھوں نے جواب میں فرمایا کہ بارہ افراد نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق۔3
۲۔ تاریخ ابن عساکر میں ابن مسعود سے منقول ہے وہ کہتے ہیں:
میں نے پیغمبر اسلام سے سوال کیا کہ اس اُمّت پر کتنے خلفاء حکومت کریں گے، تو آپ نے فرمایا:
ان عدة الخلفاء بعدی عدة نقباء موسیٰ
میرے بعد کے خلفاء کی تعداد نقبائے موسیٰ کی تعداد کے برابر ہے۔4
۳۔ منتخب کنز الاعمال میں جابر بن سمرہ سے منقول ہے:
نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر بارہ خلفاء اس امت پر حکومت کریں گے۔ 5
ایسی حدیث ینابیع المودة صفحہ ۴۴۵ اور البدایہ و النہایہ جلد ۶ صفحہ ۲۴۷ پر بھی منقول ہے۔
اس کے بعد بنی اسرائیل سے خدا کے وعدہ کی یوں وضاحت کرتاہے: خدا نے ان سے کہا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں گا اور تمھاری حمایت کروں گا (و قال اللہ انی معکم) لیکن اس کے لیے چند شرائط ہیں:
۱۔ بشرطیکہ تم نماز قائم کرو (لَئِنْ اٴَقَمْتُمُ الصَّلاةَ
۲۔ اور اپنی زکٰوة ادا کرو ( وَ آتَیْتُمُ الزَّکاةَ)،
۳۔ میرے پیغمبروں پر ایمان لے آؤ اور ان کی مدد کرو( وَ آمَنْتُمْ بِرُسُلی وَ عَزَّرْتُمُوہُمْ )6
۴۔ اور اس کے علاوہ مستحب مصارف اور انفاق جو خدا کو قرضِ حسنہ دینے کے مترادف ہیں سے احتراز نہ کرو ( وَ اٴَقْرَضْتُمُ اللَّہَ قَرْضاً حَسَناً)
اگر اس عہد و پیمان پر عمل کرو تو میں تمھارے گذشتہ گناہ بخش دوں گا( لَاٴُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ ) اور تمھیں ان باغاتِ بہشت میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں(وَ لَاٴُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ)لیکن جو لوگ کفر، انکار اور عصیان کی راہ اپنائیں ، مسلم ہے کہ وہ صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں(فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَواء َ السَّبیل) ۔
اس بارے میں کہ قرآن مجید میں انفاق کے لیے خدا کو قرض دینے کی تعبیر کیوں استعمال کی گئی ہے، ضروری وضاحت تفسیر نمونہ ج۲ ص۱۲۹پر (اُردو ترجمہ میں) کی جاچکی ہے۔
ایک سوال یہاں باقی رہ گیاہے اور وہ یہ کہ یہاں نماز اور زکٰوة کا ذکر حضرت موسٰی(علیه السلام) پر ایمان لانے کے ذکرسے کیوں مقدم کیا گیاہے جبکہ ان پر ایمان لانا عمل سے پہلے ضروری تھا ۔
بعض مفسرین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ”رسل“ سے مراد یہاں پر وہ انبیاء ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے نہ کہ خود حضرت موسٰی(علیه السلام) ۔ لہذا یہ حکم آئندہ سے متعلق تھا اس لیے نماز و زکٰوة کے عبد ہوسکتاہے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ ”رسل“ سے مراد نقبائے بنی اسرائیل ہی ہوں جن کے متعلق بنی اسرائیل سے عہد وفا لیا جا چُکاتھا (تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ بعض قدیم مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ نقبائے بنی اسرائیل خدا کے رسول تھے اور یہ احتمال ہماری مندرجہ بالا آیت کی تائید کرتاہے) ۔

 

۱۳۔فَبِما نَقْضِہِمْ میثاقَہُمْ لَعَنَّاہُمْ وَ جَعَلْنا قُلُوبَہُمْ قاسِیَةً یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِہِ وَ نَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ وَ لا تَزالُ تَطَّلِعُ عَلی خائِنَةٍ مِنْہُمْ إِلاَّ قَلیلاً مِنْہُمْ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَ اصْفَحْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنین-
ترجمہ
۱۲۔ پس ہم نے ان کی پیمان شکنی کے باعث انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں کو سخت کردیا (یہاں تک کہ) وہ (خدا کے) کلام میں تحریف کرتے تھے اور اس کے کچھ حِصّے کی جو ہم نے انھیں تعلیم دی تھی، اسے انھوں نے فراموش کردیا اور تمھیں ہر وقت ان کی کسی (نئی) خیانت کی خبر ملے گی مگر ان میں سے ایک چھوٹا سا گروہ (ایسا نہیں ہے) پھر بھی ان سے در گذر کرو اور صرف نظر کرو کیونکہ خدا نیک لوگوں کو پسند کرتاہے۔

 

 

 

 

 


 
۱ تفسیر روح المعانی جلد ۶ صفحہ ۴۸
۲ سفینة البحار (نقب)
3 مسند احمد ج۱ ص۳۹۸ طبع مصر ۱۳۱۳۔
4فیض القدیر شرح جامع الصغیر ج۲ ص۴۵۹۔
5 منتخب کنز العمال در حاشیہ مسند احمد ج۵ ص۳۱۲۔
6 ”عزرتموہم“کا مادہ”تعزیر“ ہے جو منع کرنے اور مدد دینے کے معنی میں ہے بعض اسلامی سزاؤں کو اسی لیے تعزیر کہتے ہیں کہ حقیقت میں وہ گنہ گار کی مدد ہے اور اسے گناہ سے باز رکھنے کی تدبیر ہے یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ اسلامی سزائیں انتقامی پہلو نہیں رکھتیں بکلہ تربیتی پہلو رکھتی ہیں اسی لیے ان کا نام تعزیر رکھا گیاہے۔

 

”لعن “ لغت میں دھنکار نے اور دور کرنے کے معنی میں ہے تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma