چند قابل توجہ باتیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیرروایات ِ اسلامی اور توسل

۱۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ توسل سے مراد یہ نہیں کہ کوئی شخص پیغمبر یا آئمہ (علیه السلام) سے حاجت طلب کرے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے مقام و منزلت کو بار گاہ ِ خدا میں رابطے کا وسیلہ قرار دے یہ در حقیقت خدا کی طرف ہی توجہ کرنا ہے کوینکہ پیغمبر کا احترام بھی اس بنا پر ہے کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے تھے اور انھوں اسی راہ میں قدم بڑھا یا ہے ہمیں ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ جو اس قسم کے توسل کو شرک کی ایک قسم خیال کرتے ہیں حالانکہ شرک تو یہ ہے کہ خدا کی صفات اور افعال میں کسی کو خدا کا شریک سمجھا جائے لیکن ایساتوسل جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کسی طرح سے بھی شرک سے مشابہ نہیں ہے ۔
۲۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم اور آئمہ کی حیات اور وفات میں فرق کریں حالانکہ مذکورہ روایات میںسے اکثر وفات کے بعد کے زمانے سے مربوط ہیں سے قطع نظر بھی ایک مسلمان کی نظر میں انبیاء اور آئمہ علیہم السلام وفات کے بعد بر زخ میں ایسی حیات رکھتے ہیں جیسی قرآن نے شہداء کے بارے میں بیان کی ہے اور کہا ہے : انھیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ۔( آل عمران  ۱۶۹)
۳۔ بعض پیغمبراکرم سے دعا کی درخواست کرنے اور خدا کو ان کے مقام کی قسم دینے میں بھی فرق پر اصرار کرتے ہیں وہ دعا کی درخواست کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ کو ممنوع سمجھتے ہیں حالانکہ منطقی طور پر ان میں کوئی فرق نہیں ۔
۴۔ اہل سنت کے بعض مولفین اور علماء خصوصاً وہابی حضرات بڑی ہٹ دھرمی سے توسل کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات کو ضعیف ثابت کرنے کے در پے رہتے ہیں ۔ وہ فضول اور بے اعتراضا ت کے ذریعے انھیں طاق نسیان کردیا چاہتے ہیں ۔ ان کی بحث اس طرح سے ہوتی ہے کہ ایک غیر جانب دار شخص محسوس کرتا ہے کہ عقیدہ انھوں نے پہلے بنا لیا ہے اور پھر اپنے عقیدے کو رویات ِ اسلامی پر ٹھونسنا چاہتے ہیں اور جو کچھ ان کے عقیدے کے خلاف ہے اسے راستے سے ہٹا دینا چاہتے ہیں حالانکہ ایک محقق ایسی غیر منطقی اور تعصب آمیز بحث کو ہر گز قبول نہیں کرسکتا ۔
۵۔جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں توسل والی روایات حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں یعنی اس قدر زیادہ ہیں کہ ہمیں اسناد کی تحقیق سے بے نیاز کردیتی ہیں ۔ علاہو ازیں ان میں صحیح روایات بھی بہت سی ہیں لہٰذا بعض دیگرکی اسناد میں ردو قدح کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
۶۔ جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ رویات جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں ہے کہ پیغمبر اکرم لوگوں سے فرماتے تھے کہ خدا سے میرے لئے وسیلہ کی دعا کرو ۔ یاکتاب کافی میں حضرت علی (علیه السلام) کا یہ فرمان کہ ” وسیلہ “ جنت میں بالاترین مقام ہے  ایسی روایات آیت کی مذکورہ بالا تفسیر کے منافی نہیں کیونکہ جیسے ہم نے بار ہا نشاندہی کی ہے ، وسیلہ میں تقرب ِ پر وردگار کا ہر مفہوم شامل ہے اور خدا سے پیغمبر اکرم کا تقرب اور جنت میں بلند ترین درجہ اس کا ایک مقام ہے ۔

 

۳۶۔ إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ اٴَنَّ لَہُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لِیَفْتَدُوا بِہِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ۔
۳۷۔ یُرِیدُونَ اٴَنْ یَخْرُجُوا مِنْ النَّارِ وَمَا ہُمْ بِخَارِجِینَ مِنْہَا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُقِیمٌ۔
ترجمہ
۳۶۔جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ، اگر روئے زمین میں جو کچھ ہے اس کے برابر ان کے پاس ہو اور وہ روز قیامت سزا سے نجات کے لئے فدیہ کے طور پر دے دیں تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا ۔
۳۷۔ وہ ہمیشہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل آئیں لیکن وہ اس سے نکل نہ پائیں گے ، اور ان کے لئے پائیدارعذاب ہوگا ۔

 

 

تفسیرروایات ِ اسلامی اور توسل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma