دوست اور دشمن کے درمیان فیصلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیرشان نزول

زیر نظر آیات اور بعد کی چند آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے قاضی حق رکھتے ہیں کہ مخصوص شرائط کے ساتھ غیر مسلموں کے مقدمات کابھی فیصلہ کریں ، تفصیل آیات کے ذیل میں بیان کی جائے گی ۔
زیر نظر آیات میں سے پہلی آیت یا ایھا الرسول ( اے بھیجے ہوئے)سے شروع ہوتی ہے ۔ قرآن میں یہ تعبیر صرف دو جگہ پر نظر آتی ہے ایک اس مقام پر اور ایک اسی سورہ کی آیہ ۶۷ میں جہاں ولایت و خلافت کے مسئلے پر گفتگو کی گئی ہے ، معاملہ چونکہ اہم ہے اور دشمن کا خوف بھی ہے لہٰذا چاہتا ہے کہ پیغمبرمیں احساس مسئولیت کو اور متحرک کرے اور ان کے ارادے کو تقویت پہنچائے یہ کہتے ہوئے کہ تو صاحب ِ رسالت ہے اور رسالت بھی ہماری  اس لئے حکم بیان کرنے میں استقامت اور مامردی سے کام لو۔
اس کے بعد پیغمبر کی دلجوئی اور تسلی کےلئے بعد والے حکم کی تمہید کے طور پر فرمایا گیا ہے ۔ جو لوگ زبان سے ایمان کے دعویدار ہیں اور ان کا دل ہرگز ایمان نہیں لایا اور کفر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں وہ تمہارے غم و اندوہ کا سبب نہ بنیں ( کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے )
(لاَیَحْزُنْکَ الَّذِینَ یُسَارِعُونَ فِی الْکُفْرِ مِنْ الَّذِینَ قَالُوا آمَنَّا بِاٴَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُہُمْ )
بعض کا نظریہ ہے کہ”یُسَارِعُونَ فِی الْکُفْر“ ِ ” یُسَارِعُونَ اِلیٰ الْکُفْرِ“میں فرق ہے کیونکہ پہلا جملہ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے جو کافر ہیں اور کفر کے اندر غوطہ زن ہیں اور کفر کے آخری مرحلہ تک پہنچنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوشان ہیں لیکن دوسرا جلہ ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو باہر سے کفر کی چار دیواری کی طرف حر کت میں ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت کررہے ہیں۔ 1
منافقین اور داخلی دشمنوں کی کارستانیوں پر ان کی حوصلہ شکنی کے بعد خارجی دشمنوں اور یہودیوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ ارشاد ہ وتا ہے : اسی طرح یہودیوں میں سے بھی جو لوگ اس راہ پر چل رہے ہیں وہ بھی تمہارے لئے حزن و ملال کا باعث نہ ہوں (وَمِنْ الَّذِینَ ھَادُوا ) ۔
اس کے بعد ان منافقانہ افعال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : وہ تمہاری باتوں کو بڑے غور سے سنتے ہیں لیکن ان کی یہ توجہ اطاعت کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ انھیں تمہاری تکذیب کے لئے اور تم پر افترا باندھنے کے لئے کوئی عذر ہاتھ آجائے (سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ ) ۔
اس جملے کی ایک اور تفسیر بھی ہے اور وہ یہ کہ : وہ اپنے گذشتہ لوگوں کے جھوٹ اور افتراء کی طرف زیادہ کان دھرتے ہیں ، لیکن بات قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ 2
ان کی ایک اور صفت یہ ہے کہ یہ نہ صرف جھوٹ باندھنے کے لئے تمہاری مجلس میں آتے ہیں بلکہ جو لوگ تمہارے پاس نہیں آتے ان کے جاسوس کا کردار بھی ادا کرتے ہیں (سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَاٴْتُوکَ ) ۔
دوسری تفسیر کے مطابق وہ اپنے گروہ کے حکم پر کان دھرتے ہیں ان کا طریقہ یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی حکم اپنی منشاء کے مطابق سن لیں تو اسے قبول کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حکم ان کے میلانِ طبع کے خلاف ہے تو اس کی مخالفت کرتے ہیں لہٰذا وہ اپنے بڑون کافرمان سنتے ہیں اور ان کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ تمہاری ۔ ان حالات میں ان کی مخالفت تمہارے لئے باعث ِ غم اندوہ نہیں ہونا چاہئیے ، کیونکہ وہ ابتداء سے ہی تمہارے پاس قبولِ حق کی غرض سے نہیں آئے ۔ ان کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کلام ِ الہٰی میں تحریف کرتے ہیں ( چاہے تحریف ِ لفظی ہو یا تحریف معنوی) جس حکم کو وہ اپنے مفاد اور ہواو ہوس کے خلاف سمجھتے ہیں اس کی کوئی توجیہ کرلیتے ہیں یا سے بالکل مسترد کردیتے ہیں ۔
(یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہِ) ۔3
زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ تمہارے پاس آنے سے پہلے ہی پختہ ارادہ کرلیتے ہیں ۔ ان کے بڑوں نے انھیں حکم دیا ہے کہ اگر محمد کوئی حکم ہماری خواہش کے مطابق دے تو اسے قبول کرلو اور اگر ہماری خواہش کے خلاف ہو تو اس سے دور رہو(یَقُولُونَ إِنْ اٴُوتِیتُمْ ھَذَا فَخُذُوہُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوا ) ۔
وہ اس طرح سے گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اپنے ان افکار و نظر یات میں اتنے پختہ ہیں کہ بغیر کسی سوچ بچار اور تحقیق و مطالعہ کے جو کچھ بھی ان کے تحریف شدہ مطالب کے خلاف ہو اسے رد کردیتے ہیں اس طرح ان کی ہدایت کی کوئی امید نہیں اور خدا چاہتا ہے کہ اس ذریعے سے سزا دے کر انھیں رسوا کرے اور جس کی سزا اور رسوائی کا خدا ارادہ کرلے تو تم ہر گز اس کا دفاع نہیں کر سکتے۔(وَمَنْ یُرِدْ اللهُ فِتْنَتَہُ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہُ مِنْ اللهِ شَیْئًا ) ۔
وہ اس قدر آلودہ ہیں کہ ان کی آلودگی دھلنے کے قابل نہیں ہے وہ ایسے لوگ ہیں کہ خدا ان کے دلوں کو پاک نہیں کرنا چاہتا(اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ لَمْ یُرِدْ اللهُ اٴَنْ یُطَہِّرَ قُلُوبَہُمْ) ۔
کیونکہ خدا کا کام ہمیشہ حکمت آمیز ہوتا ہے اور وہ لوگ جو اپنے ارادے سے زندگی کا ایک حصہ کجروی میں گزار چکے ہیں اور نفاق ، جھوٹ، مخالفتِ حق اور قوانین ِ الہٰی میں تحریف کا جرم کرچکے ہیں ان کے لئے پلٹنا عادتاً ممکن نہیں ہے ۔
اور آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : وہ اس دنیا میں میں بھی رسوا ہوں گے اور آخرت میں بھی انھیں عذاب عظیم ہوگا ۔
( لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَہُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ) ۔
دوسری آیت میں قرآن دوبارہ تاکید کرتا ہے کہ ان کے سننے والے کان تو تمہاری بات سن کر اس کی تکذیب کرنے کے لئے ہیں ( یا پھر وہ اپنے بڑوں کے جھوٹ سننے کے لئے گوش ِ شنوا رکھتے ہیں )( سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ) ۔یہ جملہ تاکید کے طور پر ہے اور اس بری صفت کے اثبات کے لئے تکرار ہے ۔
اس کے علاوہ وہ ناحق ، حرام اور رشوت زیادہ کھاتے ہیں ( اٴَکَّالُونَ لِلسُّحْت)4۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ایسے لوگ فیصلہ حاصلہ کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع کریں تو وہ احکام ِ اسلام کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرسکتے ہیں اور یہ بھی کہ ان سے منہ پھیر بھی سکتے ہیں ( فَإِنْ جَائُوکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اٴَوْ اٴَعْرِضْ عَنْہُمْ) ۔
البتہ یہاں یہ مراد نہیں کہ پیغمبر اکرم کسی ذاتی میلان کی بنیاد پر کوئی راستہ اپنالیں بلکہ مراد یہ ہے کہ حالات و اوضاع کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر مصلحت ہو تو حکم جاری کریں ورنہ صرفِ نظر کرلیں ۔
روح ِ پیغمبر کی تقویت کے لئے مزید فرمایا گیا ہے : اگر مصلحت اس میں ہو کہ ان سے منہ پھیر لو تو وہ تمہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے

(وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَضُرُّوکَ شَیْئًا) ۔
اور اگر ان کے درمیا ن فیصلہ کرنا چاہو تو یقینا تمہیں اصولِ عدالت کو ملحوظ رکھنا چاہئیے کیونکہ خدا، حق، انصاف اور عدالت کے مطابق فیصلہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ( وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ) ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت ِ اسلامی کو آج بھی یہ اختیار ہے کہ وہ غیر مسلموں کے بارے میں احکام ِ اسلام کے مطابق فیصلہ کردے یا فیصلہ کرنے سے اعراض کرے ۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔
بعض کا نظر یہ ہے کہ اسلامی ماحول میں جو شخص بھی زندگی بسر کرتا ہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ، حقوق اور جزا و سزا کے اسلامی قوانین سب کے بارے میں یکساں ہیں ۔ اس بناپر مندرجہ بالاآیت کا حکم یا تو منسوخ ہو چکا ہے یا غیر ذمی کفار سے مخصوص ہے ( یعنی وہ کفار جو ایک اقلیت کے طور پر اسلامی ملک میں زندگی بسر نہیں کرتے لیکن مسلمانوں کے ساتھ معاہدوں میں شریک ہیں اور ان سے میل جول رکھتے ہیں )
بعض دیگر حضرات کا نظریہ ہے کہ اسلامی حکومت اس وقت بھی غیر مسلموں کے بارے میں یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ حالات و اوضاع کو ملحوظ رکھتے ہوئے مصلحت سمجھے تو ان کے بارے میں احکامِ اسلام کے مطابق فیصلہ کرے اور یا انھیں ان کے اپنے قوانین کی طرف رجوع کرنے کی اجازتدے دے ( تفصیلی مطالعہ اور تحقیق کے لئے فقہی کتب میں قضاوت کی بحث سے رجوع کریں )

لام کی خدمت میں آئے تھے تو اس عورت اور مرد کو بھی ساتھ لائے تھے ۔

 

۴۳۔ وَکَیْفَ یُحَکِّمُونَکَ وَعِنْدَہُمْ التَّوْرَاةُ فِیہَا حُکْمُ اللهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَمَا اٴُوْلَئِکَ بِالْمُؤْمِنِینَ ۔
ترجمہ
۴۳۔وہ کس طرح تجھے فیصلہ کرنے کے لئے بلاتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات ہے اور اس میں خدا کا حکم موجود ہے ( اور پھر ) فیصلہ کے بعد انھوں نے چاہا کہ تجھ سے منہ پھیر لیں اور وہ مومن نہیں ہیں ۔

 

 


1۔ المنار ج۶ صفحہ۲۸۸۔
2۔ پہلی صورت میں ” للکذب“ کی لام ” لام تعلیل “ ہے اور دوسری صورت میں ” لام تعدیہ “ ہے ۔
3۔ تحریف کی کیفیت اور اقسام کے بارے میں اسی سورہ کی آیت ۱۳ کے ذیل میں بحث ہو چکی ہے ۔
4۔ ”سحت“ ( بر وزن جفت“ در اصل درخت کے چھلکے اتارنے اور شدید بھوک کے معنی میں ہے بعد ازاں ناجائز مال اور خصوصاً رشوت کے لئے بولاجانے لگا کیونکہ ایسا مال معاشرے سے تازگی، پاکیز گی اور برکت چھین لیتا ہے جیسے درخت سے چھلکے اتاردئیے جائیں تو اس پر پذمردگی چھا جاتی ہے اور وہ خشک ہو جاتا ہے اس بنا ہر ” سحت“ کا ایک وسیع معنی ہے اگر بعض روایات میں اس کا کوئی خاص مصداق بیان کیا گیا ہے تو وہ اختصاص کی دلیل نہیں ہے ۔
تفسیرشان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma