ہ آیت لفظ ” انما“ سے شروع ہوتی ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
اعتراضات کا جواب آیہٴ ولایت

یہ آیت لفظ ” انما“ سے شروع ہوتی ہے ۔ یہ لفظ لغتِ عرب میں حصر و انحصار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : تمہارے ولی ، سر پرست اور تمہارے امور میں حق تصرف رکھنے والی تین ہستیاں ہیں ۔ خدا ، اس کا رسول اور وہ جو ایمان لائے ، نماز قائم کی او رحالت ِ رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں

 ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ) ۔
اس میں شک نہیں کہ لفظ” رکوع“اس آیت میں نماز کے رکوع کے معنی میں ہے نہ کہ خضوع و خشوع کے معنی میں کیونکہ عرفِ شریعت اور اصطلاح ِ قرآن میں جب رکوع کہا جائے تو اسی مشہور معنی میں یعنی نماز کے رکوع کے معنی میں ہوگا ۔
نیز آیت کے شان ِ نزول اور متعدد روایات جو حضرت علی (علیه السلام) کے حالت ِ رکوع میں انگوٹھی عطا فر مانے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ جھنیں ہم تفصیل سے ذکر کریں گے کے علاوہ ” یقیمون الصلٰوة “ بھی اس بات پر شاہد ہے ۔ قرآن میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ جس میں یہ ہو کہ زکوٰة خضوع سے ادا کرو بلکہ زکوٰة کو خلوص نیت سے اور احسان جتلائے بغیر ادا کرنا چاہئیے۔
اسی طرح اس میں بھی شک نہیں کہ لفظ ” ولی “ اس آیت میں دوست یا مدد گار کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ دوستی اور مدد کرنے کے معنی میں ولایت نماز پڑھنے والوں اور حالت ِ رکوع میں زکوٰة ادا کرنے والوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک عمومی حکم ہے جو تمام مسلمانوں پر محیط ہے ۔ تمام مسلمانو ں کو چاہئیے کہ وہ ایک دوسرے سے دوستی رکھیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ یہاں تک وہ بھی جن پر زکوٰة واجب نہیں ہے او رجن کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس پر زکوٰة ادا کریں چہ جائیکہ وہ حالت رکوع میں زکوٰة ادا کریں انھیں بھی چاہئیے کہ ایک دوسے کے دوست اور مدد گار ہوں۔
یہاں اسے واضح ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں” ولی“سے مراد ولایت بمعنی سر پرستی ، تصرف اور مادی و روحانی رہبری اور قیادت ہے خصوصاً جبکہ یہ ولایت ِ الہٰی اور ولایت پیغمبر کے ہم پلہ قرار پائی ہے اور تینوں کو ایک ہی لفظ کے تحت بیان کیا گیا ہے ۔
اس طرح سے یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو حضرت علی (علیه السلام) کی امامت و ولایت پر نص ِ قرآنی کی حیثیت سے دلالت کرتی ہیں ۔
اس موقع سے متعلق کچھ اہم بحثیں ہیں جن پرہم علیحدہ علیحدہ تحقیق کرتے ہیں ۔
احادیث ، مفسرین اور موٴرخین کی شہادت
جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ بہت سے اسلامی کتب او راہل سنت کے منابع میں اس ضمن میں متعدد رویات موجود ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ان میں سے بعض روایات میں حالتِ رکوع میں انگوٹھی دینے کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ جب کہ بعض میں اس کا تذکرہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس آیت کے حضرت علی (علیه السلام) کی شان میں نازل ہونے کا ہی مذکور ہے ۔
اس روایت کو ابن عباس ، عمار ابن یاسر ، عبد اللہ بن سلام ، سلمہ بن کہیل ، انس بن مالک ، عتبہ بن حکیم ، عبد اللہ ابی ، عبد اللہ بن غالب ، جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو ذر غفاری نے بیان کیا ہے ۔ ۱
ان مذکورہ دس افراد کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں یہ روایت خود حضرت علی (علیه السلام) سے بھی نقل ہو ئی ہے ۔ ۲
یہ امر قابل توجہ ہے کہ کتاب غایة المرام میں اس بارے میں ۲۴ احادیث کتب اہل سنت سے اور ۱۹/ احادیث طرق ِ شیعہ سے نقل کی گئی ہیں ۔3
مشہور کتب جن میں یہ حدیث نقل ہو ئی ہے تیس سے متجاوز ہیں جو کہ سب اہل سنت کے منابع و مصاد میں سے ہیں ، ان میں سے یہ بھی ہیں :
۱۔ ذخائرہ العقبیٰ ص ۸۸ از محب الدین طبری ۔
۲۔ تفسیر فتح القدیر ج۲ ص ۵۰ از علامہ قاضی شوکانی ۔
۳۔ جامع الاصول ج ص ۴۷۸۔
۴۔ اسباب النزول ص ۱۴۸۔ از واحدی ۔
۵۔ لباب النقول ۹۰ از سیوطی
۶۔ تذکرة ص ۱۸ از سبط جوزی
۷۔ نور الابصار ص ۱۰۵ از شبلنجی
۸۔ تفسیر طبری ص ۱۶۵ ۔
۹۔ الکافی الشاف ص ۵۶ از ابن حجر عسقلانی ۔
۱۰۔مفاتیح الغیب ج۳ ص ۴۳۱ از رازی ۔
۱۱۔ در المنثور ج۲ ص ۳۹۳ از سیوطی ۔
۱۲۔ کنزالعمال ج۶ ص ۳۹۱۔
۱۳۔ مسند ابن مردویہ۔
۱۴۔ مسند ابن الشیخ۔
۱۵۔ صحیح نسائی ۔
۱۶۔ الجمع بین الصحاح الستہ۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب میں اس ضمن میں احادیث موجود ہیں ۔ 4
ان حالات میں کیسے ہو سکتا ہے کہ ان تمام احادیث کی پر واہ نہ کی جائے جب کہ دیگر آیات کی شانِ نزول کے لئے ایک یا دو روایاتپر قناعت کرلی جاتی ہے لیکن شاید تعصب اجازت نہیں دیتا کہ اس آیت کی شان نزول کے لئے ان سب روایات اور ان سب علمماء کی گواہیوں کی طرف توجہ دی جائے۔
اگر بنا یہ ہو کہ کسی آیت کے سلسلے میں اس قدر روایات کی بھی پر واہ نہ کی جائے تو پھر ہمیں قرآنی آیات کی تفسیر میں کسی بھی روایت کی طرف توجہ نہیں کرنا چاہئیے، کیونکہ بہت کم آیات ایسی ہیں جن کی شان ِ نزول میں اس قدر روایات وارد ہوئی ہوں۔
یہ مسئلہ اس قدر واضح و آشکارتھا کہ زمانہ ٴ پیغمبر کے مشہور شاعر حسّان بن ثابت نے حضرت علی (علیه السلام) کی شان میں روایت کے مضمون کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے :
فانت الذی اعطیت اذکنت راکعاً زکاتاً فدتک النفس یا خیر راکع فانزل فیک اللہ خیر ولایة و بینھا فی محکمات الشرایع ۔
یعنی آپ وہ ہیں کہ جنھوں نے حالتِ رکوع میں زکوٰة دی ۔ آپ پر جان فدا ہو۔ اے بہترین رکوع کرنے والے ۔
اور اس کے بعد خدا نے بہترین ولایت آپ کے بارے میں نازل کی اور قرآنِ مجید میں اسے ثبت کردیا ۔ 5

 

 

 

 


 
۱۔ احقاق الحق ج۲ ص ۳۹۹ تا ۴۱۰ سے رجوع کریں ۔
۲۔ المراجعات ص ۱۵۵۔
3۔ منہاج البراعہ ج۲ ص ۳۵۰۔
4۔مزید تفصیل کے لئے احقاق الحق ج۲ ، الغدیر ج۲اور المراجعات کی طرف رجوع کریں ۔
5۔حسان بن ثابت کے اشعار ھتوڑے بہت فرق کے ساتھ بہت سی کتب میں نقل ہو ئے ہیں ۔ ان میں تفسیر روح المعانی از شہاب الدین محمود آلوسی اور کفایة الطالب از گنجی شافعی وغیرہ شامل ہیں ۔

 

اعتراضات کا جواب آیہٴ ولایت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma