اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
وما انزل الیھم من ربھم “ سے مراد تمام آسمانی کتب اور خدائی احکام ہیںاور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ تو زنجیرسے بندھا ہو اہے ۔

اس آیت میں یہودیوں کی ناروا اور گناہ آلودہ باتوں کی ایک مثال کی گئی ہے کہ جب کہ گذشتہ آیت میں کلی طو ر پر ان کی ایسی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا ۔ اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ تاریخ نشاندہی کرتی ہے کہ یہودی ایک زمانے میںاوج قدرت میں تھے ۔ اس وقت کم اہم آباد دنیا کے ایک حصے پر ان کی حکومت تھی ۔ حضرت داوٴد علیہ السلام اور حضرت سلیمان بن داوٴد (علیه السلام) کے زمانے کو بطور نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے ۔ بعد میں بھی زور و شور سے ان کی قدرت و طاقت موجودی لیکن ظہورِ اسلام کے ساتھ ہی خصوصاً حجاز میں ان کی قدرت کا آفتاب ڈوب گیا ۔ بنی نضیر ، بنی قریظہ اور خیبر کے یہودیوں سے پیغمبر اکرم کی جنگوں کے باعث وہ انتہائی کمزور ہو گئے ۔ اس موقع پر ان میں سے بعض نے اپنی گذشتہ قدرت و عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے استہزاء اور مذاق کے طور پ رکہا کہ خدا کا ہاتھ تو زنجیر سے بندھا ہوا ہے اور وہ ہم پر بخشش و نوازش نہیں کرتا( بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ بات کہنے والا فخاس بن عازذورا تھا جوبنی قینقاع کا سر دار تھا او ربعض نے نباش بن قیس کا نام لکھا ہے ) چونکہ دوسرے بھی اس کی گفتگو سے راضی تھے لہٰذا قرآن نے اس بات کی ان سب کی طرف نسبت دی ہے اور فرمایا ہے یہودیوں نے کہا کہ خدا کا ہاتھ زنجیر سے بندھا ہو اہے (وَقَالَتْ الْیَھُودُ یَدُ اللهِ مَغْلُولَةٌ ) ۔
توجہ رہے کہ ”ید “ عربی زبان میں کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس کا ایک معنی ” ہاتھ “ ہے ۔ دوسرا” نعمت “ ، تیسرا ” قدرت“ چوتھا”سلطنت و حکومت “اور پانچواں ” تسلط“ ہے ۔ البتہ اس کا حقیقی معنی ” ہاتھ “ ہی ہے او رچونکہ انسان اہم ترین کام ہاتھ سے انجام دیتا ہے لہٰذا یہ لفظ کنایہ کے طور پر دوسرے معانی بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فارسی میں ” دست “بھی اسی طرح مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
طریق اہل بیت سے مروی بعض روایات میں ہے کہ یہ بات یہودیوں کے مسئلہ قضا و قدر اور سر نوشت و تفویض کے بارے میں عقیدے کی طرف اشارہ ہے ، ان کا نظر یہ تھا کہ ابتدائے خلق میں خدا نے تمام امور کا تعین کردیا ہے اور جسے انجام پانا چاہے وہ گویا انجام پا چکا ہے اور خدا بھی اس میں تبدیلی نہیں کرسکتا ۔ ۱
البتہ آیت میں ” بل یداہ مبسوطتان “ بھی ہے جیسا کہ آگے آئے گا ، یہ عبارت پہلے معنی کی تائید کرتی ہے ، البتہ دوسرا معنی بھی پہلے معنی کی طرف ہی ایک راستہ ہے کیونکہ جب ان کی زندگی درہم بر ہم ہو گئی اور ان کے اقبال کا ستارہ ڈوب گیا تو ان کا خیال تھا کہ یہ ان کی تقدیر میں تھا جسے بدلا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ انجام تو شروع سے معین ہو چکا ہے اور عملی طور پر خدا کا ہاتھ بند ہوا ہے ۔
خدا تعالیٰ ان کے جواب میں پہلے تو اس عقیدے کی مذمت کرتا ہے ، فرما یا گیا ہے : ان کے ہاتھ زنجیر سے بندھے ہوں اور اس ناروا بات کی وجہ سے وہ رحمت سے دور ہوں ( غُلَّتْ اٴَیْدِیھِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا) ۔
اس کے بعد اس غلط عقیدے کے بطلان کےلئے ارشاد ہوتا ہے : خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے اور جس پر چاہتاہے لطف و عنایت کرتا ہے ( بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ یُنفِقُ کَیْفَ یَشَاءُ ) ۔اس کام میں کوئی مجبوری نہ ہو وہ عوامل ِطبعی و فطری کے جبر کا محکوم ہے اور نہ وہ جبر تاریخی کاپابندہے بلکہ اس کا رادہ ہر چیز سے بالاتر اور ہر چیز میں نافذ ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہودیوں نے لفظ ” ید “ مفرد استعمال کیا ہے لیکن خدا نے ” ید “ کو تثنیہ کے طور پر استعمال کیا ہے ، فرماتا ہے : اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ۔ یہ دراصل تاکید ِ مطلب بھی ہے اور خدا تعالیٰ کے انتہائی جود بخشش کے لئے لطیف کنایہ بھی ۔ کیونکہ جو ذات زیادہ سخی ہو دونوں ہاتھ بخشش کرتی ہے ۔ علاوہ ازیں دو ہاتھوں کا ذکر قدرت ِ کاملہ کے لئے بھی کنایہ ہو سکتا ہے اور شاید یہ مادی و معنوی یا دینوی و اخروی نعمتوں کی طرف بھی اشارہ ہو۔
پھر ارشاد ہوتا ہے : یہاں تک کہ ان کی گفتار اور عقائد سے پر دہ کشائی کرنے والی یہ آیات ان پر مثبت اثر مرتب کرنے کی بجائے اور انہیں غلط راستے سے باز رکھنے کی بجائے ان میں سے بہت سوں کو ہٹ دھرمی کے چکر میں ڈال دیتی ہیں اور ان کا طغیان و کفر مزید بڑھ جاتا ہے ( وَلَیَزِیدَنَّ کَثِیرًا مِنْھُمْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ طُغْیَانًا وَکُفْرًا ) ۔
عداوت“ اور ” بغضاء “ سے یہا ں کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن اگر ہم یہودیوں کی موجودہ صورتِ حال سے قطع نظر کرلیں اور تاریخ میں ان کی در بدر اور پراگندی کی زندگی کو ملحوظ ِ نظر رکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس خاص تاریخی کیفیت کا ایک اہم عامل ان میں اتحاد، عزم اور ارادے کی پختگی کا فقدان تھا کیونکہ اگر ان میں اتحاد اور عزم صمیم ہوتا تو اتنی طویل تاریخ میں وہ اس طرح سے در بدر ، منتشر او ربدبخت نہ رہتے۔
اسی سورہ آیہ ۱۴ کے ذیل میں اہل کتاب کے درمیان دائمی عداوت و دشمنی کے مسئلہ پر ہم نے مزید ضاحت کی ہے ۔
آیت کے آخر میں آتش ِ جنگ بھڑ کانے کےلئے یہودیوں کی کوششوں اور خدا کی طرف سے مسلمانوں کو اس نابود کرنے والی آگ سے رہائی اور لطف و رکم کے بارے میں اشارہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جب انھوں نے آتشِ جنگ بھڑ کائی تو خدا نے اسے خاموش کردیا اور تمھیں اس سے محفوظ رکھا (وَاٴَلْقَیْنَا بَیْنَھُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ کُلَّمَا اٴَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ اٴَطْفَاٴَھَا اللهُ ) ۔یہ حقیقت میں پیغمبر اسلام کی پر دعا اعجاز زندگی کا ایک نکتہ ہے ۔ کیونک یہودی حجاز کے تمام لوگوں کی نسبت زیادہ طاقتور او رجنگی امور سے زیادہ آشنا تھے ۔ ان کے پاس نہایت محکم قلعے تھے ۔ علاوہ ازیں ان کے پاس مالی وسائل بھی بہت تھے جن سے وہ جنگوں میں کام لیتے تھے ۔ یہاں تک کہ قریش ان کی مدد حاصل کرنے میں کوشش کرتے تھے ۔ اوس و خزرج میں سے ہر قبیلہ ان سے پیمان دوستی اور جنگی معاہدے کی کوشش کرتا تھا ۔ اس کے باوجود ان کی طاقت کا زعم اس طرح ٹوٹا کہ کوئی اس کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتا تھا ۔ بنی نضٰر ، بنی قریظہ او ربنی قینقا ع کے یہودی خاص حالات کی وجہ سے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے خیبر کے قلعوں میں رہنے والے اور فدک یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔ یہاں تک کہ حجاز کے بیابانوں میں رہنے والے یہودیوں نے بھی عظمت اسلام کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ۔ نہ صرف یہ کہ وہ مشرکین کی مدد نہ کر سکے بلکہ خود بھی مقابلے سے کنارہ کش ہو گئے ۔ قرآن مزید کہتا ہے : وہ ہمیشہ روئے زمین میں فتنہ فساد کے بیج بونے کی کوشش کرتے ہیں (وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا) ۔ جب کہ خدا فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

( وَاللهُ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ) ۔
اس بنا پر قرآن ان پر بھی کبھی نسلی اور خاندانی حولاے سے کوئی اعتراض نہیں کرتا بلکہ قرآن کی تنقید اور سر زنش کا معیار او رنمونہ وہ اعمال ہیں جو ہر شخص اور گروہ انجام دیتا ہے ۔ بعد کی آیات میں ہم دیکھیں گے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود قرآن نے ان کے لئے راہ ِ حق کی طرف لوٹ آنے کی راہ کھلی رکھی ہے ۔

 

۶۵۔ وَلَوْ اٴَنَّ اٴَہْلَ الْکِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ وَلَاٴَدْخَلْنَاہُمْ جَنَّاتِ النَّعِیمِ ۔
۶۶۔ وَلَوْ اٴَنَّہُمْ اٴَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْہِمْ مِنْ رَبِّہِمْ لَاٴَکَلُوا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِہِمْ مِنْہُمْ اٴُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَکَثِیرٌ مِنْہُمْ سَاءَ مَا یَعْمَلُونَ ۔
ترجمہ
۶۵۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تو ہم ان کے گناہ بخش دیں گے اور انھیں نعمات سے معمور باغات بہشت میں داخل کردیں گے ۔
۶۶۔ اور اگر وہ تورات ، انجیل او رجو کچھ ان کے پر وردگار کی طرف سے ( قرآن کی صورت میں ) نازل ہوا ہے اسے قائم رکھیں آسمان او رزمین سے رزق کھائیں گے ۔ اس میں سے کچھ لوگ میانہ رو ہیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر برے اعمال انجام دیتے ہیں ۔

 

 

 


 
۱۔تفسیر نور الثقلین ج ۱ ص ۶۴۹، تفسیر بر ہان جلد۱ ص ۴۸۶۔

 

وما انزل الیھم من ربھم “ سے مراد تمام آسمانی کتب اور خدائی احکام ہیںاور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ تو زنجیرسے بندھا ہو اہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma