جن کا معاہدہ قابلِ احترام ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
شدّت عمل اور سختی ساتھ ساتھ۲۔ یہ چار مہینے کب سے شروع ہوئے؟

ان آیات میں مشرکین کے معاہدوں کے منسوخ ہونے کی بات بہت زیادہ تاکید کے سات دہرا گئی ہے، یہاں تک کہ قرآن انھیں آگاہ کرنے کی تاریخ بھی معین کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ آگاہی خدا اور اس کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں کو حجِ اکبر کے دن کہ خدا اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں (وَاٴَذَانٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاٴَکْبَرِ اٴَنَّ اللهَ بَرِیءٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُہُ) ۔(۱)
در حقیقت خدا چاہتا ہے کہ سرزمین مکہ میں اس عظیم دن میں عمومی اعلان کے ذریعے دشمن کے لئے بہانہ جوئی کے تمام راستے بند کردے اور بدگوئی کرنے والوں اور فسادیوں کی زبان کاٹ د ے تاکہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں غفلت میں رکھا گا اور ہم پر بزدلانہ حملہ کردیا گیا ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ”إِلَی الْمُشْرِکِینَ“ کے بجائے ”إِلَی النَّاسِ“ کی تعبیر استعمال ہوئی ہے، یہ نشاندہی کرتی ہے کہ ضروری تھا کہ وہ تمام لوگوں جو اس دن مکہ میں تھے یہ پیغام سن لیں کہ مشرکین کے علاوہ دوسرے بھی اس امر پر گواہ ہوں ۔
اس کے بعد روئے سخن خود مشرکین کی طرف کرتے ہوئے تشویق وتہدید کے ذریعے ان کی ہدایت کی کوشش کی گئی ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: اگر توبہ کرلو اور خدا کی طرف پلٹ آوٴ اور بت پرستی کے مذہب سے دستبردار ہوجاوٴ تو تمھارے فائدے میں ہے (فَإِنْ تُبْتُمْ فَھُوَ خَیْرٌ لَکُمْ) یعنی دینِ توحید کو قبول کرنا تمھارے لئے، تمھارے معاشرے کے لئے اور تمھاری دنیا وآخرت کے لئے فائدہ مند ہے اور اگر اچھی طرح سوچ بچار کرلو تو اس کے سائے میں تمھاری تمام بے سرد و سامانیاں ختم ہوجائیں گی اور یہ نہیں کہ اس میں خدا اور اس کے رسول کا کوئی فائدہ ہے ۔
اس کے بعد متعصب اور ہٹ دھرم مخالفین کو تنبیہ کے طور پر کہا گیا ہے: اگر اس فرمان سے جو خود نہیں نکل سکتے (وَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللهِ) اور اس آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو مقابلے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: بت پرست کافروں کو دردناک عذاب کی بشارت دے (وَبَشِّرِ الَّذِینَ کَفَرُوا بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ)
جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے یہ ان مشرکین کے معاہدوں کو یک طرف طور پر منسوخ کیا گیا تھا جن سے معاہدہ شکنی پر آمادگی کی نشانیاں ظاہر ہوچکی تھیں، لہٰذا بعد والی آیت میں ایک گروہ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: مگر مشرکین کا وہ گروہ کہ جس سے تم نے معاہدہ کیا ہے اور اس نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی اور نہ ہی تمھارے کسی مخالف کو انھوں نے تقویت پہنچائی ہے (إِلاَّ الَّذِینَ عَاھَدتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ثُمَّ لَمْ یَنقُصُوکُمْ شَیْئًا وَلَمْ یُظَاھِرُوا عَلَیْکُمْ اٴَحَدًا) ۔ ”معاہدے کی مدت کو تمام ہونے تک اس گروہ کے ساتھ ایفا کرو“ (فَاٴَتِمُّوا إِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ إِلیٰ مُدَّتِھِمْ) ”کیونکہ خدا پرہیزگاروں کو اور انھیںجو ہر قسم کی پیمان شکنی اور تجاوز سے اجتناب کرتے ہیں دوست رکھتا ہے“ (إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ) ۔

چند قابلِ توجہ نکات

۱۔ حج اکبر کونسا دن ہے؟

بعض مفسّرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ حج اکبر سے مراد کونسا دن ہے اور بہت سی روایات جو اہل بیت(ع) سے اور اہل سنت کے طرق سے منقول ہیں، سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے دسویں ذی الحجہ اور عید قربان کا دن مراد ہے، دوسرے لفظوں میں ”یوم النحر“ (قربانی کا دن) مراد ہے ۔
چار ماہ کی مدت کا ربیع الثانی کی دس تاریخ کوختم ہونا اس کے مطابق جو اسلامی منابع اور کتب میں آیا ہے اس پر ایک اور دلیل ہے، علاوہ ازیں عید قربان کے دن اصل میں اعمال حج کا اصلی اور بنیادی حصّہ ختم ہوجاتا ہے، اس بناپر اسے روز حج کہا جاسکتا ہے ۔
باقی رہا یہ کہ اسے ”اکبر“ کیوں کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال تمام گروہ چاہے وہ مسلمان ہوں یا بت پرست (پرانے رواج کے مطابق) سب نے مراسمِ حج میں شرکت کی تھی لیکن یہ کام اس کے بعد بالکل موقوف ہوگیا ۔
مندرجہ بالا تفسیر جو کہ اسلامی روایات میں آئی ہے (2) اس کے علاوہ ایک اور تفسیر بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد مراسمِ حج ہیں مراسمِ عمرہ کے مقابلے میں کہ جسے ”حج اصغر“ کہا جاتا ہے ۔
کچھ روایات میں یہ تفسیر بھی بیان ہوئی ہے اور کوئی مانع نہیں کہ ”حج اکبر“ کہنے کی دونوں وجوہ ہوں(3)
۲۔ اس روز جن چار چیزوں کا اعلان کیا گیا:
قرآن نے خدا کی مشرکین سے بیزاری کو اگرچہ اجمالی طور پر بیان کیا لیکن اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں میں یہ چار اعلانات کردیں:
۱۔ مشرکین کے ساتھ معاہدے منسوخ ہوگئے ہیں ۔
۲۔ مشرکین آئندہ سال مراسم حج میں کرنے کا حق نہیں رکھتے ۔
۳۔ ننگے لوگوں کا طوان کرنا ممنوع ہے (یہ کام اس وقت مشرکین میں رائج تھا) ۔
۴۔ خانہ خدا میں مشرکین کا داخلہ ممنوع ہے ۔(4)
تفسیر ”مجمع البیان“ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اُس سال مراسم حج میں خطبہ پڑھا اور فرمایا: (لایطوفن بالبیت عریان ولا یحجن البیت مشرک ومن کان لہ فھو الیٰ مدتہ ومن لم یکن لہ مدة فمدتہ اربعة اٴشھر) ”آج کے بعد کوئی برہنہ خانہٴ خدا کا طواف نہیں کرسکتا اور کوئی بت پرست مراسم حج میں شریک نہیں ہونے کا حق نہیں رکھتا، وہ لوگ جن کا پیغمبر سے کیا ہوا معاہدہ اپنی مدت پر باقی رکھتا ہے وہ معاہدہ اپنی معیّنہ مدت تک قابل احترام ہے، وہ لوگ جن کے معاہدوں کی میعاد ختم ہوچکی ہے ان کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے“۔
بعض دوسری روایات میں چوتھے موضوع یعنی بت پرستوں کے خانہ کعبہ میں داخل نہ ہوسکنے کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
۳۔ کن کا معاہدہ وقتی تھا؟
موٴرخین اور بعض مفسّرین کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی کنانہ کے ایک گروہ سے ترکِ مخاصمت اور ترکِ جنگ کے معاہدے کی مدت میں نو ماہ باقی تھے اور چونکہ وہ پیمان کے وفادار رہے تھے اور انھوں نے دشمنانِ اسلام کی مدد نہیں تھی لہٰذا رسول الله نے بھی معاہدے کی مدت ختم ہونے تک اُسے نبھایا ۔(5)
بعض دوسرے علماء نے قبیلہ بنی خزاعہ کوبھی اس گروہ کا حصّہ قرار دیا ہے کہ جس کا عہد وپیمان ایک مدت کے لئے تھا ۔(6)

 

۵ فَإِذَا انسَلَخَ الْاٴَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوھُمْ وَخُذُوھُمْ وَاحْصُرُوھُمْ وَاقْعُدُوا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَھُمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
۶ وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ اٴَبْلِغْہُ مَاٴْمَنَہُ ذٰلِکَ بِاٴَنَّھُمْ قَوْمٌ لَایَعْلَمُونَ
ترجمہ

۵۔ جب حرام مہینے ختم ہوجائیں تو مشرکین کو جہاں کہیں پاوٴ قتل کردو اور انھیں قید کرلو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر کمین گاہ میں ان کی راہ میں بیٹھ جاوٴ اور جب وہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکات ادا کریں تو انھیں چھوڑ دو کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
۶۔ اور اگر مشرک تم سے پناہ چاہے تو اسے پناہ دو تاکہ وہ الله کا کلام سن سکے (اور اس میں غور وفکر کرسکے) پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچادو کیونکہ وہ بے علم اور ناگاہ گروہ ہے ۔

 


۱۔ ”وَاٴَذَانٌ ----“ کے جملہ کا عطف ”بَرَائَةٌ مِنْ اللهِ “ پر ہے، اس جملے کی ترکیب میں اور احتمالات بھی ہیں لیکن جو کچھ ہم نے کہا ہے وہ زیادہ ظاہر ہے ۔
 2۔ تفسیر نور الثقلین میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
”انّما سمّی الاکبر لانّھا کانت سنة حج فیھا المسلمون والمشرکون ولم یحج المشرکون بعد تلک السنة“(ج۱، ص۱۸۴)
3۔ اسی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
”ھو یوم النحر و الاصغر العمرة“(ج۲، ص۱۸۶)
4۔ بعض روایات میں چوتھا اعلان یہ بیان گیا ہے کہ مشرکین بہشتمیں داخل نہیں ہوں گے ۔
5۔ تفسیر مجمع البیان، ج۵، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں-
6۔ تفسیر المنار، ج۱۰، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں -
شدّت عمل اور سختی ساتھ ساتھ۲۔ یہ چار مہینے کب سے شروع ہوئے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma