۱۔ جنگ حنین، ایک عبرت انگیز معرکہ:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
۲۔ بھاگنے والے کون تھے؟صرف کثرت کسی کام کی نہیں

”حنین“ شہر طائف کے قریب ایک علاقے کا نام ہے، یہ جنگ چونکہ اس زمین پر لڑی گئی لہٰذا غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہوگئی، قرآن میں اسے ”یومِ حنین“ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس جنگ کو ”غزوہ اوطاس“ اور ”غزوہٴ ہوازن“ بھی کہتے ہیں (”اوطاس“ اسی علاقے کی زمین کا نام ہے اور ”ہوازن“ ایک قبیلے کا نام ہے جو اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف برسرِپیکار تھا) ۔
کامل ابن اثیر نے لکھا ہے کہ اس جنگ کی ابتداء یوں ہوئی کہ ”ہوازن“ جو بہت بڑا قبیلہ تھا اسے فتح مکہ کی خبر ہوئی تو اس کے سردار مالک بن عوف نے افراد کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ ممکن ہے فتح مکہ کے بعد محمد ان سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہو، وہ کہنے لگے کہ مصلحت اس میں ہے کہ اس سے قبل کہ وہ ہم سے جنگ کرے ہمیں قدم آگے بڑھانا چاہیے ۔
رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو یہ اطلاع پہنچی تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سرزمین ”ہوازن“ کی طرف چلنے کو تیار ہوجائیں ۔(1)
اس جنگ کے مواقع اور کلیات میں موٴرخین کے درمیان تقریباً اختلاف نہیں ہے لیکن اس کی تفصیلات کے بارے میں طرح طرح کی روایات نظر آتی ہیں جو ایک دوسرے سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتیں، جو کچھ ہم ذیل میں اختصار سے درج کررہے ہیں اور اپنا مال، اولاد اور عورتیں بھی اپنے ساتھ لے آئے تاکہ مسلمانوں سے جنگ کرتے وقت کسی دماغ میں بھاگنے کا خیال نہ آئے، اس طرح سے وہ سرزمین اوطاس میں وارد ہوئے ۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے لشکر اسلام کا بڑا علم باندھ کر علی(ع) کے ہاتھ میں دیا اور وہ تمام افراد جو فتح مکہ کے موقع پر اسلامی فوج کے کسی دستے کے کمانڈر تھے، آنحضرت کے حکم سے اسی پرچم کے نیچے حنین کے میدان کی طرف روانہ ہوئے ۔
رسول الله کو اطلاع ملی کہ صفوان بن امیہ کے پاس ایک بڑی مقدار میں زرہیں ہیں، آپ نے کسی کو اس کے پاس بھیجا اور اس سے زرہیں عاریتاً طلب کیں، صفوان نے پوچھا : واقعاً عاریتاً ہیں یا غصب کے طور پر۔
رسول الله نے فرمایا: یہ عاریتاً ہیں اور ہم ان کے ضامن ہیں کہ صحیح وسالم واپس کریں گے ۔
صفوان نے زرہیں عاریتاً پیغمبر اکرم کو دے دیں اور خود بھی آنحضرت کے ساتھ چلا ۔
فوج میں دو ہزار ایسے افراد تھے جنھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا، ان کے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدینِ اسلام تھے جو پیغمبر اکرم کے ساتھ فتح مکہ کے لئے آئے تھے، یہ تعداد مجموعتاً بارہ ہزار بنتی ہے، یہ سب میدانِ جنگ کی طرف چل پڑے ۔
مالک بن عوف ایک مردِ جری اور ہمت وحوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبیلے کو حکم دیا کہ اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالیں اور پہاڑ کی غاروں میں، درّوں کے اطراف میں اور درختوں کے درمیان لشکرِ اسلام کے راستے میں کمین گاہیں بنائیں اور جب اوّل صبح کی تاریکی میں مسلمان وہاں پہنچیں تو اچانک اور ایک ہی بار ان پر حملہ کردیں اور اسے فنا کردیں ۔
اس نے مزید کہا: محمد کا ابھی تک جنگجو لوگوں سے سامنا نہیں ہوا کہ وہ شکست کا مزہ چکھتا ۔
رسول الله اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز صبح پڑھ چکے تو آپ نے حکم دیا کہ سرزمینِ حنین کی طرف چل پڑیں، اس موقع پر اچانک لشکرِ ہوازن نے ہر طرف سے مسلمانوں پر تیروں کی بوچھار کردی، وہ دستہ جو مقدمہٴ لشکر میں تھا (اور جس میں مکہ کے نئے نئے مسلمان بھی تھے) بھاگ کھڑا ہوا، اس کے سبب باقی ماندہ لشکر بھی پریشان ہوکر بھاگ کھڑا ہوا ۔
خداتعالیٰ نے اس موقع پر دشمن کے ساتھ انھیں ان کی حالت پر چھوڑدیا اور وقتی طور پر ان کی نصرت سے ہاتھ اُٹھالیا کیونکہ مسلمان اپنی کثرتِ تعداد پر مغرور تھے لہٰذا ان میں شکست کے آثار آشکار ہوئے، لیکن حضرت علی(ع) جو لشکر اسلام کے علمبردار تھے وہ مٹھی بھر افراد سمیت دشمن کے مقابلے میں ڈتے رہے اور اسی طرح جنگ جاری رکھے رہے ۔
اس وقت پیغمبر اکرم قلبِ لشکر میں تھے، رسول الله کے چچا عباس بنی ہاشم کے چند افراد کے ساتھ آپ کے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے، یہ کل افراد نو سے زیادہ نہ تھے دسویں اُم ایمن کے فرزند تھے، مقدمہ لشکر کے سپاہی فرار کے موقع پر رسول الله کے پاس سے گزرے تو آنحضرت نے عباس کو جن کی آواز بلند اور زور تھی کو حکم دیا کہ اس ٹیلے پر جو قریب ہے چڑھ جائیں اور مسلمانوں کو پکاریں:
یا معشر المھاجرین والاٴنصار! یا اصحاب سورة البقرة! یا اھل بیعت الشجرة! الیٰ این تفرون ھٰذا رسول الله-
اے مہاجرین وانصار!، اے سورہٴ بقرہ کے ساتھیو!، اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہابھاگے جارہے ہو؟ رسول الله تو یہاں ہیں ۔
مسلمانوں نے جب عباس کی آواز سنی تو پلٹ آئے اور کہنے لگے: لبیّک! لبیّک!
خصوصاً لوٹ آنے میں انصار نے پیش قدمی اور فوجِ دشمن پر ہر طرف سے سخت حملہ کیا اور نصرتِ الٰہی سے پیش قدمی جاری رکھی یہاں تک کہ قبیلہ ہوازن وحشت زدہ ہو کر ہر طرف بکھر گیا، مسلمان مسلسل ان کا تعاقب کررہے تھے، لشکرِ دشمن میں سے تقریباً ایک سو افراد مارے گئے، ان کے اموال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگے اور کچھ ان میں سے قیدی بنا لئے گئے ۔(2)
لکھا ہے کہ اس تاریخی واقعہ کے آخر میں قبیلہ ہوازن کے نمائندے رسول الله کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا، پیغمبر اکرم نے ان سے بہت محبت والفت فرمائی، یہاں تک کہ ان کے سربراہ مالک بن عوف نے بھی اسلام قبول کرلیا، آپ نے اس کا مال اور قیدی اسے واپس کردیئے اور اس کے قبیلہ کے مسلمانوں کی سرداری بھی اس کے سپرد کردی ۔
درحقیقت ابتدا میں مسلمانوں کی شکست کا اہم عامل غرور وتکبر جو کثرت فوج کی وجہ سے ان میں پیدا ہوگیا تھا، اس کے علاوہ دو ہزار نئے مسلمانوں کا وجود تھا جن میں سے بعض فطری طور پر منافق تھے، کچھ ان میں مالِ غنیمت کے حصول کے لئے شامل ہوگئے تھے اور بعض بغیر کسی مقصد کے ان میں شامل ہوگئے تھے ۔

 


1۔ کامل ابن اثیر، ج۲، ص۲۶۱-
2۔ مجمع البیان، ج۵، ص۱۷تا ۱۹-
۲۔ بھاگنے والے کون تھے؟صرف کثرت کسی کام کی نہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma