۲۔ بھاگنے والے کون تھے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
۳۔ ایمان واطمینان۱۔ جنگ حنین، ایک عبرت انگیز معرکہ:

اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ میدان حنین میں میں سے اکثریت ابتداء میں بھاگ گئی تھی جو باقی رہ گئے تھے ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق دس تھی اور بعض نے تو ان کی تعداد چار بیان کی ہے، بعض نے زیادہ سے سو افراد لکھے ہیں ۔
بعض مشہور روایات کے مطابق چونکہ خلفاء بھی بھاگ جانے والوں میں سے تھے لہٰذا بعض اہل سنّت مفسّرین نے کوشش کی ہے کہ اس فرار کو ایک فطری طور پر پیش کیا جائے، المنار کے موٴلف لکھتے ہیں :
جب دشمن کی طرف سے مسلمانوں پر تیروں کی سخت بوچھار کی تو جو لوگ مکہ سے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے اور جن میں منافقین اور ضعیف الایمان بھی تھے اور جو مالِ غنیمت کے لئے آگئے تھے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور انھوں نے میدان میں پشت دکھائی تو باقی لشکر بھی فطری طور پر مضطرب اور پریشان ہوگیا وہ بھی معمول کے مطابق نہ کہ خوف وہراس سے، بھاگ کھڑے ہوئے اور یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر ایک گروہ فرار ہوجائے تو باقی بے سوچے متزلزل ہوجاتے ہیں لہٰذا ان کا فرار ہونا پیغمبر کی مدد ترک کرنے اور انھیں دشمن کے ہاتھ میں چھوڑجانے کے طور پر نہیں تھا کہ وہ خدا کے غضب کے مستحق ہوں ۔(1)
ہم اس بات کی تشریح نہیں کرتے اور اس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں ۔
اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ صحیح بخاری جو اہل سنّت کی معتبر ترین کتب میں سے ہے میں اس میدان میں مسلمانوں کی شکست اور فرار سے متعلق گفتگو میں منقول ہے:
فاذا عمر بن الخطاب فی الناس، وقلت ماشاٴن الناس، قال امر الله، ثم تراجع الناس الیٰ رسول الله----
اچانک عمر بن خطاب لوگوں کے درمیان تھے میں نے کہا لوگوں نے کیا کیا ہے تو انھوں نے کہا الله کی مرضی ایسی تھی، پھر لوگ پیغمبر کی طرف پلٹ آئے ۔(2)
لیکن اگر ہم اپنے پہلے سے کئے گئے فیصلوں کو چھوڑدیں اور قرآن کی طرف توجہ دیں تو ہم دیکھیں گے کہ قرآن بھاگنے والوں میں کسی گروہ بندی اور تفریق کا قائل نہیں بلکہ کی مساوی مذمت کررہا ہے کہ جو بھاگ گئے تھے، ہم نہیں سمجھتے کہ ان دو جملوں میں کیا فرق ہے جن میں سے ایک یہ مندرجہ بالا آیات میں ہے:
ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ“
پھر تم پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔
اور دوسرا جملہ کہ سورہٴ انفال آیہ۱۶ میں گزرا ہے جہاں فرمایا گیا ہے:
<وَمَنْ یُوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ اٴَوْ مُتَحَیِّزًا إِلیٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنْ اللهِ
جو شخص دشمن سے پشت پھیرے وہ غضبِ پروردگار میں گرفتار ہوگا مگر وہ دشمن پر حملہ کرنے کی غرض سے یا مجاہدین کے گروہ کے ساتھ آملنے کے لئے اپنی جگہ بدل لے ۔
لہٰذا اگر ان دو آیات کو دوسرے کے ساتھ رکھ کر دیکھیں تو ثابت ہوگا کہ اس دن چند ایک مسلمانوں کے سوا باقی تمام ایک عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے تھے زیادہ سے زیادہ یہ کہ بعد میں انھوں نے توبہ کرلی اور پلٹ آئے ۔

 


1، 2۔ تفسیر المنار، ج۱۰، ص۲۶۲، ۲۶۳، ۲۶۵-
۳۔ ایمان واطمینان۱۔ جنگ حنین، ایک عبرت انگیز معرکہ:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma