تیسرا فلسفہ: خراب ماحول کا مقابلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
کنز اور ذخیرہ اندازی منع ہےدوسرا فلسفہ :اجتماعی کاوشیں

حضرت مہدی(ع) کے انتظار کا ایک اور اثر ماحول کے مفاسد میںگھل مل جانا اور برائیوں کے سامنے ہتھیا نہ ڈالنا ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب کوئی برائی عام ہو جاتی ہے اور سب کو گھیر لیتی ہے ،اکثریت یا جماعت کا ایک بڑا حصہ اس کی طرف چلا جاتا ہے تو بعض اوقات نیک لوگ ایک سخت قسم کی نفسیاتی تنگی میں پھنس جاتے ہیں اس گھٹن میں وہ اصلاح سے مایوس ہو جاتے ہیں،بعض اوقات وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے اور اب اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہی، اب اپنے آپ کو پاک رکھنے کی کوشش اور جدوجہد فضول ہے ،ممکن ہے ایسی ناامیدی اور مایوسی آہستہ آہستہ انہیں برائی اور ماحول کی ہمرنگی کی طرف کھیچ لے جائے اور وہ اپنے آپ کو ایک صالح اقلیت کے طور پر فاسد اکثریت کے مقابلے میں محفوظ نہ رکھ سکیں اور دوسروں کے رنگ میں نہ رنگے جانے کو رسوائی کا سبب سمجھیں ۔
تنہا جو چیزان میں امید کی روح پھوک سکتی ہے ،انہیں مقابلے اور کھڑے رہنے کی دعوت دے سکتی ہے اور انہیں فاسد ماخول میں گھل مل جانے سے روک سکتی ہے،۔وہ ہے مکمل اصلاح کی امید ۔صرف یہی صورت ہے کہ جس میں وہ اپنی پاکیزگی کی حفاظت کرسکتے ہیں اور دوسروں کی اصلاح کی جد وجہد جاری رکھ سکتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی قوانین میں بخشش سے مایوسی کو بہے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ با سمجھ اور بے خبر افرادتعجب کریں کہ رحمت خدا سے مایوسی کو اس قدر اہمیت کیوں دی گئی ہے، یہاں تک کہ بہت سے گناہوں سے اسے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے ۔ تو اس کا فلسفہ در حقیقت یہی ہے کہ رحمت خدا سے مایوس گنہگار کو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ تلافی کی فکر کرے یا کم از کم گناہ کو جاری رکھنے سے دستبردار ہوجائے اور اس کی منطق یہ ہے کہ اب جب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے تو چاہے ایک قد کے برابر ہو چاہے سو قد کے برابر ہو ۔وہ سوچتا ہے کہ میں دنیا میں رسوا ہوچکا ہوں، اب دنیا کا غم فضول ہے ۔ سیاہی سے بڑھ کر کوئی رنگ نہیں ، آخر جہنم ہے، میں تو ابھی سے اسے اپنے لئے خرید چکا ہوں، اب دوسری کسی چیز سے کیاڈروں، اسی طرح کی دیگر باتیں اسے گناہ کے راستے پر باقی رکھتی ہیں ۔
مگر۔ جب اس کے لئے امید کا دریچہ کھلا ہو، عفو الٰہی کی امید ہو اور موجود کیفیت کے بدل جانے کی توقع ہو، تو اس کی زندگی میںایک طرح کا میدان پیدا ہوگا جو اسے راہ گناہ سے لوٹ آنے اور پاکیزگی و اصلاح کی طرف واپسی کی دعوت دے گا، یہی وجہ ہے کہ فاسد افراد کی اصلاح کے لئے امید کو ہمیشہ ایک موثر تربیتی عامل سمجھا گیا ہے، اسی طرح وہ نیک افراد جو خراب ماحول میں گفتار ہیں، امید کے بغیر اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔
خلاصہ یہ کہ دنیا جس قدر فاسد اور خراب ہوگی مصلح کے ظہور کے انتظار میں امید بڑھے گی جومعتقدین پر زایدہ روحانی اثر ڈالے گی، برائی اور خرابی کے طاقتور موجوں کے مقابلے میں یہ امید ان کی حفاظت کرے گی اور وہ نہ صرف ماحول کے دامن فساد کی وسعت سے مایوس نہیں ہوں گے بلکہ
وعدہ وصل چوں شد نزدیکآتش عشق تیز تر گردد
یعنی ۔ وعدہ وصل کا لمحہ جوں جوں نزدیک آیا، آتش عشق تیز تر ہوگئی ۔
اس کے مطابق مقصد انہیں قریب تر نظر آئے گا اور بربرائی جنگ کرنے میں ان کی کوشش یا اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں اضافہ ہوگا اور مزید شوق و ولولہ پیدا ہوگا ۔
گذشتہ مباحث سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انتظار جمود کا باعث صرف اس صورت میں بنتا ہے جب اس کے مفہوم کو مسخ کردیا جائے یا اس میں تحریف کردی جائے جیسا کہ مخالفین کے ایک گروہ نے اس میں تحریف کردی ہے اور موافقین کے ایک گروہ نے اسے مسخ کردیا ہے لیکن اگر اس کے حقیقی مفہوم میں افراد اور معاشرہ اس پر عمل کرے تو انتظار تربیت، خود سازی، تحرک اور امید کا ایک اہم عامل اور داعی ثابت ہوگا ۔
قیام مہدی(ع) کے بارے میں واضح مدارک میں سے ایک یہ آیت ہے:
وعد اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم وعملوا الصالحٰت لیستخلفنھم فی الارض۔
ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ روئے زمین کی حکومت ان کے قبضے میںدے ۔
اس آیت کے ذیل میں اسلام کے ہادیوں سے منقول ہے کہ:
ھو القائم واصحابہ۔
( یعنی یہ جن سے خدا نے وعدہ کیا ہے )وہ قائم(حضرت مہدی(ع)) اور آپ کے اصحاب ہیں ۔(1)
ایک اور حدیث میں ہے:
نزلت فی المھدی(ع)۔
یعنی ۔ یہ آیت حضرت مہدی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔
اس آیت میں حضرت مہدی (ع) اور ان کے یاروانصار کا تعرف اس عنوان سے کروایا گیا ہے:
الذین آمنوا منکم وعملوا الصٰلحٰت.
یعنی ۔ وہ جو تم میں سے ایمان لے آئے اور انھوں نے نیک عمل کئے ۔

لہٰذا اس عالم انقلاب کا قائم ہونا اور عالم وجود میں آنا ایک مستحکم ایمان کے بغیر جو ہر قسم کے ضعف ، کمزوری اور ناتوانی کو دور کردے کے بغیر ممکن نہیں، نیز نیک اعمال جو اصلاح عالم کا راستہ کھول دیں، کے بغیر بھی ممکن نہیں، اور وہ لوگ جو اسے پروگرام کے انتظار میں ہیں انہیں اپنی آگاہی، علم اور ایمان کی سطح بھی بلند کرنا ہوگی اور اپنے اعمال کی اصلاح کی کوشش بھی کرنا ہوگی، صرف وہی لوگ ایسی حکومت میں ہم قدم اور ہمکام ہونے کی خوشخبری کے مستحق ہیں ناکہ وہ لوگ جو ظلم وستم کا ساتھ دیں اور نہ ہی وہ جو ایمان اور عمل صالح سے بیگانہ ہوں اور نہ ڈرپوک اور بزدل لوگ جو ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہر چیز سے یہاں تک کہ اپنے سائے سے بھی سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان سے مقابلے کی کچھ بھی کوشش نہیں کرتے ۔
یہ ہے قیام مہدی (ع) کے انتظار کا معاشرے میں تعمیری اور اصلاحی اثر۔

 

۳۴ یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ کَثِیرًا مِنَ الْاٴَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَایُنفِقُونَھَا فِی سَبِیلِ اللهِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ۔
۳۵ یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْھَا فِی نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوَی بِھَا جِبَاہُھُمْ وَجُنُوبُھُمْ وَظُھُورُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ فَذُوقُوا مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ۔
ترجمہ
۳۴۔اے ایمان والوں!(اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب لوگوں کا مال باطل طور پر رکھتے ہیں اور (انہیں) خدا کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ جو سونا چاندی کا خزانہ جمع کرکے (اور چھپا کر) رکھتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب ناک کی بشارت دے دو۔
۳۵۔اس روز کہ جب انہیں آتش جہنم میں گرم کیا جائے گا اور جلایا جائے گا پس ان کے چہروں، پہلووں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اور انہیں کہا جائے گا کہ) یہ وہی چیز ہے کہ جسے تم نے اپنے لئے جمع کیا تھاپس چکھواس چیز کو جسے اپنے لئے تم نے ذخیرہ کیا تھا ۔

 


1۔بحارالانوارطبع قدیم،ج۱۳،ص۱۴۔
 
کنز اور ذخیرہ اندازی منع ہےدوسرا فلسفہ :اجتماعی کاوشیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma