۱۔ آیت میں ”شاھد“ سے مراد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۲۔ صرف تورات کی طرف اشارہ کیوں؟تفسیر

بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ زیرِ بحث آیت میں ”شاھد“ سے مراد وحیِ خدا کے قاصد جبرئیل(علیه السلام) ہیں، بعض نے اس سے مراد پیغمبر اسلام لئے ہیں، بعض دوسرے مفسّرین نے اس کی تفسیر زبانِ پیغمبر کی ہے (جبکہ ”یتلوہ“ کو ”تلاوت“ کے مادہ سے ’قرائت“کے معنی میں لیا ہے، نہ کہ پیچھے آنے والے کے معنی میں) لیکن بہت سے بزرگ مفسرین نے اسے حضرت علی علیہ السلام سے تعبیر کیا ہے، اس ضمن میں آئمہ معصومین(علیه السلام) سے بھی کئی روایات سے اس تفسیر کی تاکید ہوئی ہے کہ ”شاھد“ سے مراد حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں، جو پیغمبر اسلام اور قرآن پر ایمان لانے والے پہلے شخص ہیں، جو تمام مراحل میں رسول الله کے ساتھ رہے اور ایک لمحہ کے لئے فداکاری سے دریغ نہیں کیا اور آخری دم تک ان کی حمایت میں کوشاں رہے ۔ (2)
ایک حدیث میں ہے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: قریش کے مشہور افراد کے میں ایک یا ایک سے زیادہ آیت نازل ہوئیں ۔
کسی نے عرض کیا: اے امیرالمومنین(علیه السلام)! آپ(علیه السلام) کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی؟
امام(علیه السلام) نے فرمایا: کیا تُونے سورہٴ ہود کی یہ آیت نہیںپڑھی ”اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّہِ وَیَتْلُوہُ شَاھِدٌ مِنْہُ“ ، رسول الله خدائی ”بیّنہ“ اور ”شاہد“ مَیں تھا ۔ (3)
سورہٴ رعد کی آخری آیت میں بھی ایک تعبیر دکھائی دیتی ہے کہ جو اس معنی کی تاکید کرتی ہے ۔وہا ں فرمایا گیا ہے:
<وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ کَفیٰ بِاللهِ شَھِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ
کفار کہتے ہیں کہ تُو پیغمبر نہیں ہے، کہہ دو یہی کافی ہے کہ خدا میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے اور وہ کہ جس کے پاس علمِ کتاب (قرآن) ہے ۔
سُنّی اور شیعہ طرق کی بہت سی روایات میں ہے کہ ”ومن عندہ علم الکتاب“ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے پھر اس نکتے کی طرف یاد دہانی ضروری ہے کہ کسی مکتب کی حقانیت کی پہچان کا ایک بہترین طریقہ اس کے پیروکار، مددکاروں اور حامیوں کی کیفیت کا مطالعہہے، مشہور ضرب المثل ہے کہ امامزادے کو اس کے زائرین سے پہچاننا چاہیے، جب دیکھیں کہ پاکباز، باشعور، صاحب ایمان، مخلص اور باتقویٰ افراد کسی رہبر اور مکتب کے گرد جمع ہیں تو اچھی طرح پہچانا جاسکتا ہے کہ یہ مکتب اور یہ رہبر صداقت کی حدّبلند پر ہے، لیکن اگر دیکھیں کہ موقع پرست، دھوکے باز، بے ایمان اور بے تقویٰ افراد کسی مکتب یا رہبر کے گرد جمع ہیں تو بہت کم یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ مکتب اور یہ رہبر حق پر ہے ۔
اس مطلب کی طرف اشارہ بھی ہم سمجھتے ہیں کہ لفظ ”شاہد“ سے حضرت علی علیہ السلام مراد لینا اس حقیقت کے منافی نہیں کہ ابوذر، سلمان، عماریاسر جیسے تمام افراد اس کے مفہوم میں شامل ہیں کیونکہ ایسی تفاسیر اکمل وبرتر کی طرف اشارہ ہوتی ہیں یعنی اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ارائس ورئیس یہ فرد اکمل ہے، اس امر کی شاہد وہ روایت ہے جو امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”شاہد سے مراد امیرالمومینن(علیه السلام) ہیں اور پھر یکے بعد دیگرے ان کے جانشین“۔ (4)
اس حدیث میں اگرچہ معصوم ہستیوں کا ذکر ہے لیکن یہ امر خود اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ روایات جن میں ”شاہد“ کو منحصراً حضرت علی(علیه السلام) سے تفسیر کیا گیا ہے ان سے مراد فقط آپ(علیه السلام) نہیں بلکہ مراد افضل وبرتر کاا مصداق ہے ۔


۱۔ اس تفسیر کے مطابق ”مَن“ سے مراد پیغمبر اکرم ہیں، ”بیّنة“ سے مراد قرآن ہے اور ”شاھد“ سے کہ جو جنس کے معنی میں ہے سے مراد سچّے مومنین ہیں جن کے راٴس ورئیس حضرت علی علیہ السلام ہیں، نیز ”منہ“ کی ضمیر خداتعالیٰ کی طرف اور ”قبلہ“ کی ضمیر قرآن یا پیغمبر اسلام کی طرف لوٹتی ہے ۔
2۔ برہان، نور الثقلین، مجمع البیان اور دیگر تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں ۔
3۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۲۱۳.
4۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۲۱۳.

 

۲۔ صرف تورات کی طرف اشارہ کیوں؟تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma