سب سے زیادہ زیاں کار

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
تفسیر۳۔ ”فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ“میں مخاطب:

گزشتہ آیت قرآن اور رسالتِ پیغمبر کے بارے میں گفتگو کررہی تھی، اس کے بعد زیرِ بحث آیات کی نشانیوں اور ان کے انجامِ کار کے متعلق تفصیلی بحث کررہی ہیں، پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے کہ جو خدا پر جھوٹ باندھے (وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَریٰ عَلَی اللهِ کَذِبًا) ۔
یعنی سچّے پیغمبر کی دعوت کی نفی کلماتِ الٰہی کی نفی ہے اور اس کی طرف جھوٹ کی نسبت دیتا ہے ۔ اصولی طور پر تکذیبِ پیغمبر تکذیبِ خدا ہے، اس شخص پر جھوٹ باندھنا کہ جو صرف خدا کی طرف سے بات کرتاہے خدا کی ذاتِ پاک پر جھوٹ باندھنا شمار ہوگا ۔ (۱)
جیسا کہ ہم نے متعدد بار کہا ہے قرآن مجید کی مختلف آیات میں لوگوں کو سب سے بڑھ کر ظالم (”اظلم“) قرار دیا گیا ہے حالانکہ ظاہراً ان کے کام آپس میں مختلف ہیں اور ممکن نہیں ہے کہ مختلف کام کرنے والے مختلف گروہوں میں سے ہر ایک کو سب سے بڑھ کر ظالم شمار کیا جائے بلکہ چاہیے کہ ایگ گروہ ستمگر یا ستمگر تر ہوا اور دوسرا ستمگر ترین ہو لیکن جیسا کہ اس سوال کے جواب میں ہم نے بارہا کہا ہے کہ ان تمام اعمال کی بنیاد ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے شرک اور آیات الٰہی کی تکذیب جو کہ سب سے بڑی تہمت ہے ۔
مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد پنجم صفحہ۱۶۰ (اردو ترجمہ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔
اس کے بعد قیامت ان کے بُرے مستقبل کو اس طرح بیا ن کیا گیا ہے: اس روز وہ بارگاہِ پروردگار میں اپنے تمام اعمال اور کردار کے ساتھ پیش ہوں گے اور اس کی عدالت میں حاضر ہوں گے (اٴُوْلٰئِکَ یُعْرَضُونَ عَلیٰ رَبِّھِمْ) ۔
”اس وقت اعمال کے شاہد گواہی دیں اور کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے عظیم مہربان اور ولیٴ نعمت پروردگار جھوٹ باندھتا تھا (وَیَقُولُ الْاٴَشْھَادُ ھٰؤُلَاءِ الَّذِینَ کَذَبُوا عَلیٰ رَبِّھِمْ) ۔
اس کے بعد کھلے بندوں کہیں گے: ظالموں پر خدا کی لعنت ہو (اٴَلَالَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَ) ۔
اس بارے میں کہ شاہد خدائی فرشتے ہیں کہ یا اعمال لکھنے پر مامور مَلک ہیں یا انبیاء ہیں ، مفسّرین نے مختلف احتمالات ذکر کئے ہیں لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے قرآن کی دوسری آیات میں انبیاء الٰہی کا تعارف اعمال کے شاہدین کے طور پر کروایا گیا ہے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں بھی وہی مراد ہیں یا اس سے وسیع تر مفہوم مراد ہے جس میں دیگر گواہ بھی شامل ہیں ۔
سورہٴ نساء کی آیت ۴۱ میں ہے:
<فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اٴُمَّةٍ بِشَھِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُلَاءِ شَھِیدًا
ان کا کیا حال ہوگا جب اس دن ہم ہر امّت کے لئے ان کے اعمال کے گواہ بلائیں گے اور تجھے ان پر گواہ قرار دیں گے ۔
حضرت مسیح(علیه السلام) کے بارے میں سورہٴ مائدہ کی آیت ۱۱۷ میں ہے:
<وَکُنتُ عَلَیْھِمْ شَھِیدًا مَا دُمْتُ فِیھِمْ
”مَیں جب تک اپنے پیروکاروں کے درمیان تھا ان کے اعمال پر گواہ تھا ۔
نیز اس سلسلے میں کہ ”اٴَلَالَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَ“ کہنے والا خدا ہے یا گواہ ہیں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ظاہر آیت یہ ہے کہ بات گواہوں کی گفتگو کے تسلسل میں ہے ۔
بعد والی آیت ظالموں کی صفات تین ظالموں کی صفات تین جملوں میں بیان کی گئی ہیں ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ ایسے افراد ہیں جو لوگوں کو مختلف ذریعوں سے راہِ خدا سے روکتے ہیں (الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ) ۔ ایسا وہ کبھی شک وشبہ پیدا کرکے کرتے ہیں، کبھی دھمکی سے کام لیتے ہیں اور کبھی لالچ دے کر مقصد حاصل کرتے ہیں اور ان سب کا امور کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ راہِ خدا سے روکنا ۔
دوسرا یہ کہ وہ خاص طور پر کوشش کرتے ہیں کہ خدا کی راہِ مستقیم کو ٹیڑھا کرکے دکھائیں (وَیَبْغُونَھَا عِوَجًا) ۔ یعنی طرح طرح کی تحریفیں کرے، کمی بیشی کرکے، تفسر بالرائے کرکے اور حقائق کو مخفی رکھ کر ایسا کرتے ہیں کہ یہ سیدھا راستہ اپنی اصلی صورت میں لوگوں کے سامنے نہ آئے تاکہ لوگ اس راستے پر نہ جاسکیں اور حق طلب افراد جادہٴ حقیقی کو نہ پہچان سکیں ۔ (2)
نیز یہ کہ وہ قیامت اور روزِ جزا پر ایمان نہیں رکھتے (وَھُمْ بِالْآخِرَةِ ھُمْ کَافِرُونَ) ۔ اور معاد پر ان کا ایمان نہ رکھنا ان کے سب انحرافات اور تباہ کاریوں کا سرچشمہ ہے کیونکہ موت کے بعد اس بڑی عدلات اور وسیع عالم پر ایمان لانے سے قلب وروح کی تربیت ہوتی ہے ۔
یہ بات جاذبِ توجہ ہے کہ یہ تمام امور ”ظلم“ کے مفہوم میں جمع ہیں کیونکہ اس لفظ کے وسیع مفہوم میں ہر قسم کا انحراف اور اشیاء، اعمال، ثفات اور عقائد کو ان کی حقیقی جگہ سے تبدیل کردینا شامل ہے ۔
لیکن بعد والی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان سب چیزوں کے باوجود ”ایسا نہیں ہے کہ وہ روئے زمین پر خدا کی سزا اور عذاب سے فرار حاصل کرسکیں اور اس کی قدرت کی قلمرو سے نکل سکیں گے“ (اٴُوْلٰئِکَ لَمْ یَکُونُوا مُعْجِزِینَ فِی الْاٴَرْضِ) ۔
”اسی طرح وہ خدا کے علاوہ اپنے لئے کوئی حامی ومددگار نہیں پاسکتے“ (وَمَا کَانَ لَھُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ) ۔
آخر میں ان کی سنگین سزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے: ان کا عذاب کئی گُنا ہوجائے گا (یُضَاعَفُ لَھُمَ الْعَذَابُ) ۔ کیونکہ وہ خود بھی گمراہ، گناہگار اور تباہکار تھے اور دوسرے کو بھی انہی راہوں کی طرف کھینچتے تھے، اس بناء پر وہ اپنے گناہ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے اور دوسرں کے گناہوں کا بھی (جبکہ ان دوسرے گناہ کرنے والوں کی سزا میں بھی کمی نہیں ہوگی) ۔
اس مفہوم پر قرآن کی دوسری آیات شاہد ہیں، مثلاً :
<وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَھُمْ وَاَثْقَالاً مَعَ اَثْقَالِھِمْ
روزِ قیامت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ اور ان کے ساتھ دوسرے بوجھ اور گناہ اپنے دوش پر اٹھائیں گے ۔ (عنکبوت/۱۳)
نیز بہت سی روایا ت میں ہے کہ جو شخص کسی بُری سنت کی بنیاد رکھے گا اس بُری سنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا ”عذر“ اورگناہ اس کے کھاتے میں لکھا جائے اور اسی طرح جو شخص کسی اچھی نیت سنت کی بنیاد رکھے گا اس پر عمل کرنے والے لوگوں کی جزا کے برابر ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا ۔
آیت کے آخر میں ان کی بدبختی کی اصل بنیاد کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ان کے پاس سننے والا کان ہے نہ دیکھنے والی آنکھ (مَا کَانُوا یَسْتَطِیعُونَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوا یُبْصِرُونَ) ۔ در حقیقت جب یہ دونوں وسائل حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو وہ خود بھی گمراہی میں گرجاتے ہیں اور دوسروں کوبھی گمراہی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں کیونکہ کھلی آنکھ اور گوشِ شنوا کے بغیر حق وحقیقت کو نہیں سمجھا جاسکتا ۔
یہ امر توجہ طلب ہے کہ اس جملے میں ہے کہ وہ (حق بات) سننے کی طاقت نہیں رکھتے، یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے لئے حق باتوں کا سننا اس قدر بوجھل ہے کہ گویا وہ اسے سننے کی طاقت ہی نہیں رکھتے، یہ تعبیر بعینہ ایسے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ عاشق اپنے معشوق کی برائی نہیںسن سکتا ۔
واضح ہے کہ حقائق فہمی کی اس طرح سے طاقت نہ ہونا، اس کی سخت ہٹ دھرمی اور حق دشمنی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ان کی مسئولیت ختم ہوگئی ہے، اصطلاح میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ وہی چیز ہے جس کے اسباب انھوںنے خود مہیّاکیے ہیں جبکہ و ہ طاقت رکھتے تھے کہ اس حالت کو اپنے سے دُور رکھیں کیونکہ سبب پر قدرت رکھنا مسبب پر قدرت رکھنے کے مترادف ہے ۔
بعد والی آیت میں ان کی غلط مساعی کو ایک ہی جملہ میں بیان کیا گیا ہے: یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے وجود کا سرمایہ گنوا بیٹھے اور خسارے میں رہے (اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ) ۔ اور یہ عظیم ترین گھاٹا ہے جو انسان کو دامن گیر ہوسکتا ہے وہ اپنی ہستی ہی گنوا بیٹھے ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے: ”انھوں نے جھوٹے معبودوں سے دل لگالیا ہے ’لیکن آخر کا ریہ سب بناوٹی معبود گم ہوگئے اور ان کی نظر سے محو ہوگئے“ (وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ)
زیر بحث آخری آیت میں ان کے انجام کے بارے میں یقینی اور آخری حکم کو قطعی صورت میں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے: ناچار وہ آخرت کے گھر میں سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے (لَاجَرَمَ اٴَنَّھُمْ فِی الْآخِرَةِ ھُمَ الْاٴَخْسَرُونَ) ۔ کیونکہ وہ دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان سے بھی محروم ہوگئے ہیں ۔ اپنے انسانی وجود کا تمام سرمایہ گنوا بیٹھے ہیں اور اس حالت میں اپنا بارِ مسئولیت بھی اٹھائے ہوئے ہیں اور دوسروں کی ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہیں ۔
جرم“ (بروزن ”حرم“) اصل میں درخت سے پھل چننے کے معنی میں ہے (جیسا کہ مفردات میں راغب نے ذکر کیا ہے) بعد ازاں یہ لفظ ہر قسم کے اکتساب اور تحصیل امر کے لئے استعمال ہونے لگا اور نامناسب کسب کا مفہوم پیدا ہوگیا، اسی لئے گناہ کو جرم کہا جاتا ہے لیکن جب یہ لفظ ”لا“ کے ساتھ کسی جملے کی ابتداء میں ”لاجرم“ کی صورت میں آئے تو پھر یہ معنی دیتا ہے کہ ”کوئی چیز اس امر کی نہیں روک سکتی“ اسی لئے ”لاجرم“ ناچار ”یقیناً“ اور ”مسلماً کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (غور کیجئے گا) ۔

 

۲۳ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَاٴَخْبَتُوا إِلیٰ رَبِّھِمْ اٴُوْلٰئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَّةِ ھُمْ فِیھَا خَالِدُونَ
۲۴ مَثَلُ الْفَرِیقَیْنِ کَالْاٴَعْمَی وَالْاٴَصَمِّ وَالْبَصِیرِ وَالسَّمِیعِ ھَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلًا اٴَفَلَاتَذَکَّرُونَ
ترجمہ
۲۳۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اورجو خدا کے سامنے خاضع اور تسلیم تھے اصحابِ جنت ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
۲۴۔ ان دو گروہوں (منکرین اور مومنین) کی حالت ”اندھوں اور بہروں“ اور ”دیکھنے اور سننے والوں “ کی سی ہے ۔ کیا یہ دونوں گروہ ایک جیسے ہوسکتے ہیں، کیا تم فکر نہیں کرتے ہو۔

 


۱۔ یہ جو بعض مفسّرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ اس جملے سے مراد اُن لوگوں کو جواب دینا ہے جو کہتے ہیں کہ پیغمبر الله تعالیٰ پر افتراء باندھتا ہے، بہت بعید ہے کیونکہ پہلے والے اور بعد کی آیات اس ترتیب سے مناسبت رکھتیں بلکہ مناسب یہی ہے کہ یہ کفار کی طرف اشارہ ہے ۔
2۔ ”عوج“ کا معنی کجی اور ٹیڑھ پن ہے، اس سلسلے میں جلد۶ صفحہ۱۶۱ (اردو ترجمہ) پر ہم تشریح کرچکے ہیں، ضمنی طور پر توجہ رہے کہ ”یبعغونھا“ کی ضمیر سبیل کی طرف لوٹتی ہے جو موٴنث مجازی ہے یا یہ طریقہ اور جادہ کے معنی میں ہے جو موٴنث لفظی ہیں سورہٴ یوسف کی آیت ۱۰۸ میں ہے:<قُل ھٰذِہِ سَبِیلِیْ اَدْعُو اِلَی اللهِ

تفسیر۳۔ ”فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ“میں مخاطب:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma